اسلاماعمال

بے صبری کرنے والا ہم میں سے نہیں

بے صبری کرنے والا ہم میں سے نہیں

خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عبرت نشان ہیلَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ یعنی جو اپنے منہ پرطمانچے مارے، گریبان چاک کرے اور زمانہ جاہلیت کی طرح واویلا مچائے وہ ہم سے نہیں۔(بخاری، کتاب الجنائز،باب لیس منا من ضرب الخدود،۱/۴۳۹،حدیث:۱۲۹۷)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : میت وغیرہ پر منہ پیٹنے کپڑے پھاڑنے رب تعالیٰ کی شکایت بے صبری کی بکواس کرنے والا ہماری جماعت یا ہمارے طریقے والوں سے نہیں ہے یہ کام حرام ہیں ان کا کرنے والا سخت مجرم (ہے) (مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:)اس حدیث کی تائید قرآن کریم فرمارہا ہے:
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۵﴾ۙ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتْہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ﴿۱۵۶﴾ؕ (پ۲،البقرۃ:۱۵۶)
( ترجمہ کنز الایمان: اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللّٰہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا۔)
اسی لئے شہدائے کر بلا کے اہل بیت اطہار (عَلَیْہِمُ الرِّضوَان)نے تازِیست (یعنی زندگی بھر)یہ حرکتیں نہ کیں۔ (مراٰۃ المناجیح ،۲/۵۰۲)

آواز سے رونا منع ہے

آواز سے رونا منع ہے اور آواز بلند نہ ہو تو اس کی ممانعت نہیں،بلکہ حضور اقدس صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابراہیم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی وفات پر بُکا فرمایا۔ ( بہار شریعت ،۱/۸۵۵)

آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے(حکایت )

حضرتِ سیِّدُناانس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہکا بیان ہے کہ ہم رسولُ اللّٰہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ حضرت ابوسیف رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے مکان پر گئے تو یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہجان کنی کے عالم میں تھے۔ یہ منظر دیکھ کر تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت،محسنِ انسانیتصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس وقت حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ تعالٰی عنہنے عرض کی : یارسولَاللّٰہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا کہ اے ابنِ عوف ! میرا رونا شفقت کی وجہ سے ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب چشمان مبارک سے آنسو بہے تو آپصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان مبارک پریہ کلمات جاری ہوگئے :’’ اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلاَّ مَا یَرْضٰی رَبُّنَا وَاِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا اِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَیعنی آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب عَزَّوَجَلَّخوش ہو جائے اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت

زیادہ غمگین ہیں۔‘‘(بخاری،کتاب الجنائز،باب قول النبی انا بک لمحزونون، ۱/۴۴۱،حدیث:۱۳۰۳)
اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
ٰ امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد

گندھک کاکُرتااور کھجلی کادوپٹہ

سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: چِلاّکررونے والی جب اپنی موت سے قبل توبہ نہ کرے توقیامت کے دن یوںکھڑی کی جائے گی کہ اس کے بدن پرگندھک کاکُرتاہوگا اور کھجلی کادوپٹہ۔
( مسلم،کتاب الجنائز،باب التشدید فی النیاحۃ،ص۴۶۵،حدیث:۹۳۴)

کتے کی طرح بھونکیں گی

خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:ان نوحہ کرنے والی عورتوں کو قیامت کے دن جہنم میں دوصفوں میں کھڑا کیا جائے گا، ایک صف جہنمیوں کی دائیں جانب جبکہ دوسری بائیں جانب ہو گی، یہ وہاں ایسے بھونکیں گی جیسے کتے بھونکتے ہیں۔(المعجم الاوسط،۴/۶۶،حدیث:۵۲۲۹)

کیا عزیز کی موت پرصبر کرنا مشکل ہے ؟(حکایت )

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 561 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ صَفْحَہ404پر ہے: کہ اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن سے عرض کی گئی کہ اگر بے اِختیاری میں اپنے عزیز کی مَوت پرصَبْر نہ کرے تو جائِز ہوگا؟ ارشاد فرمایا: بے اِختیاری بنالیتے ہیں ورنہ اَگر طبیعت کو روکا جائے تو یقین ہے کہ صَبْر ہوسکتا ہے۔ حُضُوْر اَقدسصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لئے جارہے تھے راہ میں ملاحظہ فرمایا کہ ایک عورت اپنے لڑکے کی مَوت پر نَوْحَہ کررہی ہے حضور(صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے منع فرمایا اور اِرشاد فرمایا:’’ صَبْرکر۔‘‘ وہ اپنے حال میں ایسی بے خَبَر تھی کہ اس کو نہ معلوم ہوا کون فرما رہے ہیں جواب بِے ہودَہ دیا کہ آپ تشریف لے جائیں مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔ حضور(صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) تشریف لے گئے بعد کو لوگوں نے اس سے کہا کہ حضور صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے منع فرمایا تھا۔ وہ گھبرائی اور فوراً دربار میں حاضِر ہوئی اور عرض کیا: یَارَسُوْلَ اللّٰہ(صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)!مجھے معلوم نہ ہوا کہ حضور منع فرمارہے ہیں اب میں صبر کرتی ہوں۔ اِرشاد فرمایا: ’’ الصَّبرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْا ُوْلٰی‘‘ (صبر پہلی ہی بار کرتی تو ثواب ملتا پھر تو صبر آ ہی جاتا ہے۔) (مسلم،کتاب الجنائز،باب فی الصبر۔۔۔الخ،ص۴۶۰،
حدیث:۹۲۶ ملخصا)اِس سے معلوم ہوا کہ ا گر آدمی صبر کرے تو ہوسکتا ہے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص۴۰۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!