بنی اسرائیل کا ایک گنہگار:
بنی اسرائیل کا ایک گنہگار:
بنی اسرائیل میں ایک گنہگار شخص تھا۔ جُوں جُوں اس کے گناہوں اور نافرمانیوں کا سلسلہ بڑھتاجاتا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس پر اپنارزق اور احسان بھی بڑھاتاجاتا۔ جب اس نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام سے گناہوں اور برائیوں میں ملوث رہنے والے کے لئے عذاب کا بیان سنا تو کہنے لگا :”اے موسیٰ(علیہ السلام)!میرا رب عَزَّوَجَلَّ کیا چاہتا ہے؟ کیونکہ میں جب بھی گناہوں میں زیادتی کرتا ہوں تووہ مجھے اپنا مزید فضل و نعمت عطا فرماتاہے ۔” اس کی اس بات سے آپ علیہ السلام بہت حیران ہوئے۔ جب آپ علیہ السلام کوہِ طور پر مناجات کے لئے حاضر ہوئے تو عرض کی: ”یااللہ عَزَّ وَجَلَّ! تو جانتا ہے جو تیرے نافرمان بندے نے کہا ہے کہ جب بھی وہ گناہ کرتاہے تو تُو اس پر مزید احسان فرماتا ہے۔” تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا: ”اے موسیٰ ! میں اس کو عذاب دیتا ہوں لیکن وہ جانتا نہیں۔”حضرت سیِّدُنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: ”مولیٰ! تواسے کیسے عذاب دیتا ہے حالانکہ تو اس کے رزق کو کشادہ کرتا اور اسے ڈھیل دے دیتا ہے ۔”جواب ملا:”میں اسے اپنی بارگاہ سے دوری اور اپنے فضل وکرم سے محرومی کا عذاب دیتا ہوں، اپنی اطاعت سے غافل کر دیتا ہوں، اپنے حضور مناجات کی لذت سے سلائے رکھتا ہوں اور سحری میں اپنے عتاب اوراپنے دلنواز خطاب کی لذت سے محروم کردیتا ہوں۔ میرے عزت وجلال کی قسم! میں اسے ضرور اپنا دردناک عذاب چکھاؤں گااور اپنے انعام واکرام کی زیادتی سے محروم کر دوں گا۔”
پیارے اسلامی بھائی! گناہوں میں مقابلہ کرنے والوں کو دیکھ کہ ان کو بہت زیادہ مہلت دے دی گئی اور ان کو عذاب
دینے میں جلدی نہ کی گئی بلکہ انہیں ڈھیل دے دی گئی مگر وہ گناہوں کی لذات پر خوش ہیں حالانکہ یہی لذات ان کے لئے غم کا باعث بن جائیں گی۔چنانچہ، ربِّ عظیم عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(1) اَیَحْسَبُوۡنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمۡ بِہٖ مِنۡ مَّالٍ وَّ بَنِیۡنَ ﴿ۙ55﴾نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیۡرٰتِ ؕ بَلۡ لَّا یَشْعُرُوۡنَ ﴿56﴾
ترجمۂ کنزالایمان:کیا یہ خیال کر رہے ہیں کہ وہ جو ہم ان کی مدد کر رہے ہیں مال اور بیٹوں سے۔یہ جلد جلد ان کو بھلائیاں دیتے ہیں بلکہ انہیں خبر نہیں ۔(پ18،المؤمنون :55،56)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی سامانِ زینت سے مزیّن روگردانی کوواضح کردیا(اوراس کی مثال یوں بیان فرمائی:)
(2) فَجَعَلْنٰہَا حَصِیۡدًا کَاَنۡ لَّمْ تَغْنَ بِالۡاَمْسِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿24﴾
ترجمۂ کنزالایمان:تو ہم نے اسے کر دیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں، ہم یونہی آیتیں مفصّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لئے۔(۱)(پ11،یونس:24)
دنیا کی لذتوں میں مشغول رہنے والو! تمہارا ربِّ اکبر عَزَّوَجَلَّ واضح طور پر فرما رہاہے:
(3) اِنَّآ اَنْذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا
ترجمۂ کنزالایمان:ہم تمہیں ایک عذاب سے ڈراتے ہیں کہ نزدیک آگیا۔(پ30،النبأ:40)
اس دن انہیں کس قدر رسوائی ہوگی جب اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں ان کی بداعمالیوں پر خبردار فرمائے گا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔
اے میرے اسلامی بھائیو! گناہوں کے بھیانک انجام پر غور کرو۔کیسے لذتیں ختم ہو جائیں گی اور خامیاں باقی رہ جائیں گی۔ میں تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دیتاہوں کہ گنا ہ کی طلب سے بچو کہ یہ بہت بری طلب ہے اور اس کے اثرات چہروں اور دلوں پر کتنے برے ہیں۔ سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! وہ بندہ کتنا خوش بخت ہے جس نے اپنے دل کوصاف ستھرا کر لیا، اپنے نامۂ اعمال کو گناہوں سے پاک کرلیا اور اپنے ظاہر وباطن کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے خالص کر لیا۔
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”یہ ان لوگوں کے حال کی ایک تمثیل ہے جو دُنیا کے شیفتہ(یعنی دلدادہ) ہیں اور آخرت کی انہیں کچھ پرواہ نہیں۔ اس میں بہت دل پذیر طریقہ پر خاطر گزیں کیا گیا ہے کہ دُنیوی زندگانی امیدوں کا سبز باغ ہے، اس میں عمر کھو کر جب آدمی اس غایت پر پہنچتا ہے جہاں اس کو حصولِ مراد کا اطمینان ہو اور وہ کامیابی کے نشے میں مست ہو، اچانک اس کو موت پہنچتی ہے اور وہ تمام نعمتوں اور لذتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ قتادہ نے کہا کہ دنیا کا طلب گار جب بالکل بے فکر ہوتا ہے اس وقت اس پر عذابِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ آتا ہے اور اس کا تمام سرو سامان جس سے اس کی امیدیں وابستہ تھیں، غارت ہوجاتا ہے۔تاکہ وہ نفع حاصل کریں اور ظلماتِ شکوک و اوہام سے نجات پائیں اور دنیائے ناپائیدار کی بے ثباتی سے باخبر ہوں۔”