بد شگونی لینے والا ہم سے نہیں
سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا:لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَاَوْ تُطُیِّرَلَہ اَوْ مَنْ تَکَہَّنَ اَوْ تُکُہِّنَ لَہ اَوْ مَنْ سَحَرَ اَوْسُحِرَ لَہُ یعنی جس نے بد شگونی لی یا جس کے لئے بد شگونی لی گئی ،یا جس نے کہانت کی یا جس کے لئے کی گئی ،یا جادو کرنے اور کروانے والا ہم سے نہیں۔ (مسند بزار،اول حدیث عمران بن حصین،۹/۵۲،حدیث:۳۵۷۸)
بد شگونی کی تعریف اور اسکی قسمیں
شگون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز ،شخص، عمل،آواز یا وَقْت کو اپنے حق میں اچھا یابُرا سمجھنا ۔ اس کی بنیادی طور پردو قسمیں ہیں : (۱) بُرا شگون لینا (۲)اچھا شگون لینا۔علامہ محمد بن احمد اَنصاری قُرطبی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القویتفسیرِ قُرطبی میں نَقْل کرتے ہیں:اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا اِرادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کردلیل پکڑنا،یہ اس وَقْت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر بُرا ہو تو بَد شگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خو شی خو شی پایۂ ِتکمیل تک پہنچائے اور جب بُراکلام سُنے تو اس کی طرف توجُّہ نہ کرے اورنہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے۔
(الجامع لاحکام القراٰن،پ۲۶، الاحقاف،تحت الاٰیۃ:۴،۸/۱۳۲،جزء۱۶)
نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی؟
بَدشگونی کی عادتِ بَد میں مبتلا شخص کو جب کسی کام میں نقصان ہوتا ہے یا
کسی مقصد میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ یہ جملہ کہتا ہے :آج صبح سویرے نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی؟حالانکہ انسان صبح سویرے بستر پر آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے اپنے ہی گھر کے کسی فرد کی شکل دیکھتا ہے، تو کیا گھر کا کوئی آدمی اس قدر منحوس ہوسکتا ہے کہ صِرْف اس کی شکل دیکھ لینے سے سارا دن نُحوست میں گزرتا ہے؟کسی کو منحوس کہنے پر بعض اوقات شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ،ایک سبق آموز حکایت سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ، چنانچہ ایک بادشاہ اور اس کے ساتھی شکار کی غرض سے جنگل کی جانب چلے جارہے تھے۔ صبح کے سناٹے میں گھوڑوں کی ٹاپیں صاف سنائی دے رہی تھیں جنہیں سنتے ہی اکثر راہگیرراستے سے ہٹ جاتے تھے کیونکہ بادشاہ سلامت شکار پر جاتے ہوئے کسی کا راستہ میں آنا پسند نہیں کرتے تھے۔بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کی سواری بڑے طُمْطُراق (یعنی شان وشوکت)سے شہر سے گزررہی تھی ، جونہی بادشاہ شہر کی فَصِیل(چار دیواری) کے قریب پہنچا اس کی نگاہ سامنے آتے ہوئے ایک آنکھ والے شخص پر پڑی جو راستے سے ہٹنے کے بجائے بڑی بے نیازی سے چلا آرہا تھا۔اسے سامنے آتا ہوا دیکھ کر بادشاہ غصے سے چیخا:’’ اف! یہ تو انتہائی بَدشگونی ہے۔ کیا اس بَدبخت کا نے(یعنی ایک آنکھ والے ) شخص کو عِلْم نہیں تھا کہ جب بادشاہ کی سواری گزررہی ہو تو راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن اس منحوس یک چشم نے تو ہمارا راستہ کاٹ کر انتہائی نُحوست کا ثبوت دیا ہے۔‘‘بادشاہ سپاہیوں کی جانب مُڑا اور غصے سے چیخا:’’ ہم حکم دیتے ہیں کہ اس ایک آنکھ والے شخص کو ان سُتونوں سے باندھ
دیا جائے اور ہمارے لَوٹنے تک یہ شخص یہیں بندھا رہے گا۔ہم واپسی پر اس کی سزا تجویز کریں گے۔‘‘سپاہیوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور اس شخص کو ستونوں سے باندھ دیا گیا۔ بادشاہ اور اس کے ساتھی گرد اُڑاتے جنگل کی جانب روانہ ہوگئے۔ بادشاہ کے خدشات کے برعکس اس روز بادشاہ کا شکار بڑا کامیاب رہا۔ بادشاہ نے اپنی پسند کے جانوروں اور پرندوں کا شکار کیا۔ بادشاہ بہت خوش تھا کیونکہ آج اس کا ایک نشانہ بھی نہیں چُوکا بلکہ جس جانور پر نگاہ رکھی اسے حاصل کرلیا۔ وزیر نے جانور وں اور پرندوں کو گنتے ہوئے کہا:’’واہ ! آج تو آپ کا شکار بہت خوب رہا، کیا نگاہ تھی اور کیا نشانہ !‘‘ اسی طرح تمام ساتھی بھی بادشاہ کی تعریف میں مصروف تھے، جب شام ڈھلے بادشاہ شہر کے قریب پہنچا توا س شخص کو رسیوں میں جکڑا ہوا پایا۔بادشاہ کی سواری کے ساتھ ساتھ جانور وں اور پرندوں سے بھرا چھکڑا بھی چلا آرہا تھا جسے دیکھ کر بادشاہ اور اس کے ساتھی خوشی سے پھولے نہ سَمارہے تھے۔ بھرا ہوا چھکڑا دیکھ کر وہ شخص زور دار آواز میں بادشاہ سے مخاطب ہوا:کہیے بادشاہ سلامت ! ہم دونوں میں سے کون منحوس ہے ، میں یا آپ ؟یہ سنتے ہی بادشاہ کے سپاہی اس شخص کے سر پر تلوار تان کر کھڑے ہوگئے لیکن بادشاہ نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ وہ شخص بلا خوف پھر مخاطب ہوا:کہیے بادشاہ سلامت! ہم میں سے کون منحوس ہے ’’میں یا آپ؟‘‘میں نے آپ کو دیکھا تو میں رسیوں میں بندھ کر چِلچلاتی دھوپ میں دن بھر جلتا رہا جب کہ مجھے دیکھنے پرآپ کو آج خوب شکار ہاتھ آیا ۔یہ سن کر بادشاہ نادِم ہوا اور اس شخص کو فوراً آزاد کردیا
اوربہت سے اِنعام و اِکرام سے بھی نوازا۔
بَدشگونی کے نقصانات
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بَدشگونی انسان کے لئے دینی و دُنیوی دونوں اعتبار سے بہت زیادہ خطرناک ہے ۔یہ انسان کو وسوسوں کی دَلدل میں اُتار دیتی ہے چنانچہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی پَرچھائی (یعنی سائے)سے بھی خوف کھاتا ہے۔ وہ اس وَہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ دنیا کی ساری بَدبختی وبَدنصیبی اسی کے گِرد جمع ہوچکی ہے اور دوسرے لوگ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسا شخص اپنے پیاروں کو بھی وہمی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے دلوں میں کَدُورَت(یعنی دشمنی) پیدا ہوتی ہے ۔ بَدشگونی کی باطنی بیماری میں مبتلا انسان ذہنی وقلبی طور پر مَفْلُوج(یعنی ناکارہ) ہوکر رہ جاتا ہے اور کوئی کام ڈَھنگ سے نہیں کرسکتا ۔ امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القویلکھتے ہیں:اِعْلَمْ اَ نَّہ لَیْسَ شَیْئٌ اَضَرَّ بِالرَّأْئیِ وَلَا اَ فْسَدَ لِلتَّدْبِیرِ مِن اِعتِقَادِ الطِّیَرَۃِ جان لو! بَدشگونی سے زیادہ فِکْر کو نقصان پہنچانے والی اور تدبیر کو بگاڑنے والی کوئی شے نہیں ہے ۔(ادب الدنیا والدین،ص ۲۷۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد