باحیا نوجوان
باحیا نوجوان
علامہ ابن جوزی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القوی نے عیون الحکایات میں ایک سبق آموز حکایت نقل کی ہے کہ کوفہ میں ایک عبادت گزار، خوبصورت ونیک سیرت نوجوان رہتا تھا ۔وہ اپنا زیادہ تر وقت مسجد میں گزارتااوریادِالٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہتا ۔ایک مرتبہ ایک حسین وجمیل اورعقل مند عورت نے اسے دیکھ لیااور اس کی محبت میں مبتلا ہوگئی ۔ایک دن وہ راستے میں آکھڑی ہوئی اور نوجوان سے کچھ کہنا چاہا مگر شرم وحیا کے پیکر اس نوجوان نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور تیزی سے مسجد کی طرف بڑھ گیا ۔واپسی پر پھر وہی عورت ملی اور تیزی سے کہنے لگی : ’’میری بات تو سن لو ! میں تم
سے کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔‘‘ لیکن نوجوان نے جواب دیا کہ یہ تہمت کی جگہ ہے میں نہیں چاہتا ہے کہ لوگ مجھ پر تہمت دھریں ۔عورت نے کہا : ’’میں جانتی ہوں کہ تجھ جیسے نیک خصلت اور پاکیزہ لوگ آئینہ کی مثل ہوتے ہیں کہ ادنیٰ سی غلطی بھی ان کو عیب دار بنادیتی ہے ۔‘‘‘پھرچند جملوں میں اس سے اپنی کیفیت بیان کردی ۔نوجوان اس کی بات سن کر کچھ کہے بغیر اپنے گھر کی جانب چلا گیا ۔گھر جاکر اس نے نماز پڑھناچاہی لیکن اسے خشوع وخضوع حاصل نہ ہوسکا ، بالآخر اس نے ایک نصیحت بھرا مکتوب لکھا اور باہر جاکر اس عورت کے سامنے ڈال کر چلا آیا ، عورت نے مکتوب کھولا تو لکھا تھا :
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اے عورت !یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ بندہ جب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی کرتاہے تو وہ اس سے درگزر فرماتاہے ۔جب دوبارہ گناہ کرتاہے تو اس کی پردہ پوشی فرماتاہے لیکن جب بندہ اتنا نافرمان ہوجاتاہے کہ گناہوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس سے سخت ناراض ہوتاہے اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی کو زمین وآسمان ، پہاڑ، جانور، شجر وحجر کوئی بھی چیز برداشت نہیں کرسکتی پھر کس میں ہمت ہے کہ وہ اس کی ناراضی کا سامنا کرے !اے عورت !اگر تو اپنے بیان میں جھوٹی ہے تو میں تجھے وہ دن یاد دلاتاہوں کہ جس دن آسمان پگھل جائے گااورپہاڑ روئی کی طرح ہوجائیں گے ، اورتمام مخلوق اللّٰہ جبَّار و قہّار کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی ۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں تو اپنی اصلاح میں کمزور ہوں پھر بھلا میں دوسروں کی
اصلا ح کیسے کرسکتاہوں ؟اوراگر تو اپنی باتوں میں سچی ہے اورواقعی تیری کیفیت وہی ہے جو تو نے بیان کی، تو میں تجھے ایک ایسے طبیب کا پتہ بتاتاہوں جواُن دلوں کا بہترین علاج جانتاہے جو مرضِ عشق کی وجہ سے زخمی ہوگئے ہوں اوران زخموں کا علاج کرنا بھی خوب جانتاہے جو رنج واَلم کی بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں ۔جان لے ! وہ طبیب ِحقیقی ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہے ، تو سچی طلب کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہو جا ۔بے شک میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمانِ عالیشان کی وجہ سے تجھ سے تعلق نہیں رکھ سکتا :
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كٰظِمِیْنَ۬ؕ-مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُؕ(۱۸) یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ(۱۹)
(پ۲۴، المؤمن:۱۸ ۱۹)
ترجمۂ کنزالایمان : اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے اور ظالموں کانہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے اللہ جانتاہے چوری چھپے کی نگاہ اورجوکچھ سینوں میں چھپاہے ۔
اے عورت!جب یہ معاملہ ہے تو خود سوچ لے کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے اورراہِ فرار کیوں کر ممکن ہے ؟
عورت نے مکتوب پڑھ کر اپنے پاس رکھ لیا ۔کچھ دنوں بعد پھر اسی راستے پر کھڑی ہوگئی ۔جب نوجوان کی نظر اس پر پڑی تو وہ واپس اپنے گھر کی طرف جانے
لگا ۔عورت نے پکار کر کہا : ’’ اے نوجوان!واپس نہ جا، اس ملاقات کے بعد پھر کبھی ہماری ملاقات نہ ہوگی، سوائے اس کے کہ بروزِ قیامت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہماری ملاقات ہو۔پھر روتے ہوئے کہنے لگی : ’’جس پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ کے دستِ قدرت میں تیرے دل کے اختیارات ہیں ، میں اسی سے سوال کرتی ہوں کہ تیرے بارے میں مجھ پر جو معاملہ مشکل ہوگیا ہے وہ اسے آسان فرمادے ۔‘‘پھراس نے نوجوان سے آخری نصیحت کی درخواست کی، باحیا نوجوان نے نفس کی خواہشات سے بچنے کا مشورہ دیا اور کہا : میں تجھے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فرمان یاد دلاتاہوں :
وَ هُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ (پ۷، الانعام:۶۰)
ترجمۂ کنزالایمان : اوروہی ہے جورات کو تمہاری روحیں قبض کرتاہے اورجانتاہے جو کچھ دن میں کماؤ۔
یہ آیتِ کریمہ سن کر عورت سر جھکاکر رونے لگی کچھ دیر بعد جب سر اٹھا کر دیکھا تو نوجوان جاچکا تھا ۔وہ اپنے گھر چلی آئی اور پھر عبادت وریاضت کو اپنا مشغلہ بنالیا۔وہ دن میں یادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّمیں مصروف رہتی، جب رات ہوجاتی تو نوافل میں مشغول ہوجاتی اوربالآخر اسی طرح عبادت وریاضت کرتے کرتے اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئی ۔‘‘(عیون الحکایات ، الحکایۃ الرابعۃ والثلاثون بعد الماءتین حکایۃ شاب عفیف، ص ۲۲۷، ملتقطاً)