اہلِ بیتِ نبوت
حضرات کرام خلفا ئے راشدین علیہم الرضوان کا ذکر کیاگیا۔ ان کی ذواتِ مقدسہ مقربینِ بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں سب سے اعلیٰ مرتبہ رکھتی ہیں اور حق یہ ہے کہ حضورِ انور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے جس کسی کو بھی ادنیٰ سی محبت و نسبت ہے اس کی فضیلت اندازے اور قیاس سے زیادہ ہے۔ اس آقائے نامدار سرکار دولت مدار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اتنی نسبت کہ کوئی شخص ان کے بلدۂ طاہرہ اور شہر پاک میں سکونت رکھتا ہواس درجہ کی ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہوا :
مَنْ اَخَافَ اَھْلَ الْمَدِیْنَۃِ ظُلْماً اَخَافَہُ اللہُ وَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلٰئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔(1)
جس نے اہل مدینہ کو ظلماً ڈرایا، اللہ تعالیٰ ا س پر خوف ڈالے گا اور اس پر اللہ کی اور ملائکہ کی اور سب لوگوں کی لعنت۔(رواہ قاضی ابویعلی )
ترمذی کی حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
قَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ یَدْ خُلْ فِیْ شَفَاْعَتِیْ وَلَمْ تَنَلْہُ مَوَدَّتِی۔ (2)
حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا :جس نے عربوں سے بغض رکھا میری شفاعت میں داخل نہ ہوگا اور اس کو میری مَوَدَّت میسر نہ آئے گی۔
اتنی نسبت ایک شخص عرب کا باشندہ ہو اُس کو اِس مرتبہ پرپہنچادیتی ہے کہ اُس سے خیانت کرنے والا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ومَوَدَّت سے محروم ہوجاتا
ہے تو جن برگزیدہ نفوس اور خوش نصیب حضرات کو اس بارگاہِ عالی میں قرب و نزد یکی اور اِخْتِصاص حاصل ہے ان کے مراتب کیسے بلند وبالاہوں گے اسی سے ا ۤپ اہل بیت کرام علیہم الرضوان کے فضائل کا اندازہ کیجئے ان حضرات کی شان میں بہت آیتیں اور حدیثیں وارد ہوئیں:
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنۡكُمُ الرِّجْسَ اَہۡلَ الْبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَكُمْ تَطْہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے رجس (ناپاکی) دور کرے اہل بیت رسول اور تمہیں پاک کرے،خوب پاک۔
اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت حضرت علی مرتضیٰ، حضرت سیدۃ النساء فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی اور قرینہ اسکا یہ ہے کہ عَنْکُمْ اور اسکے بعدکی ضمیر یں مذکر ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضوان اللہ تعالیٰ علیہن کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ اس کے بعد ہی ارشاد ہوا:
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیۡ بُیُوۡتِكُنَّ(2)
اور یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے اس لیے ان کے غلام حضرت عکرمہ بازار میں اس کی ندا کرتے تھے۔ (3)
ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد خود سرکار دولت مدار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات عالی صفات ہے تنہا۔ دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت حضورکی ازواج
مطہرات رضوان اللہ تعالیٰ علیہن کے حق میں نازل ہے علاوہ اس کے کہ اس پر آیت: وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیۡ بُیُوۡتِكُنَّ (1) دلالت کرتی ہے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ یہ دولت سرائے اقدس ازواج مطہرات رضوان اللہ تعالیٰ علیہن ہی کا مسکن تھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نسب و قرابت کے وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ ایک جماعت نے اسی پر اعتماد کیا اور اسی کو ترجیح دی اور ابن کثیرنے بھی اسی کی تائید کی ہے۔ (2)
احادیث پر جب نظر کی جاتی ہے تو مفسرین کی دونوں جماعتوں کو ان سے تائید پہنچتی ہے۔ امام احمدنے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی۔ پنجتن سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی و حضرت فاطمہ و حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ہیں۔
( صلوات اللہ تعالیٰ علی حبیبہ و علیہم وسلم )
اسی مضمون کی حدیث مرفوع ابن جریر نے روایت کی طبرانی میں بھی اسکی تخریج کی مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات نے ان حضرات کو اپنی گلیم مبار ک میں لے کر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ یہ بھی بصحت ثابت ہوا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان حضرات کوتحت گلیم اقدس لے کر یہ دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ ھٰؤُلَآءِ اَھْلُ بَیْتِیْ وَخَاصَّتِیْ اَذْھِبْ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْھِیْرًا یارب! یہ میرے اہلبیت اور میرے مخصو صین ہیں ان سے رجس و ناپاکی دور فرما اورانہیں پاک کردے اور خوب پاک ۔
یہ دعا سن کرام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کیا : و اَنَا مَعَہُمْ
میں بھی ان کے ساتھ ہوں ۔فرمایا: اِنَّکِ عَلیٰ خَیْرٍ تم بہتری پر ہو۔(1)
ایک روایت میں یہ بھی آیاہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے جواب میں فرمایا:بَلٰی بیشک اور ان کو کسا ( گلیم )میں داخل کر لیا۔ (2)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میرے حق میں بھی دعا ہو، یا رسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے بھی دعا فرمائی۔ ایک صحیح روایت میں ہے واثلہ نے عرض کیا: وَاَنَامِنْ اَھْلِکَ میں بھی آپ کے اہل میں سے ہوں ، فرمایا: وَاَنْتَ مِنْ اَھْلِیْ۔ تم بھی میری اہل میں سے ہو ۔ (3)
یہ کرم تھا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس نیاز مند خالص العقیدت کو مایوس نہ فرمایا اور اپنی اہل کے حکم میں داخل فرمادیا وہ حکماًداخل ہیں۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور نے ان حضرات کے ساتھ اپنی باقی صاحبزادیوں اور قرابت داروں اور ازواج مطہرات کو ملایا ۔ (4)
ثعلبی کا خیال ہے کہ آیت میں اہل بیت سے تمام بنی ہاشم مراد ہیں اسکو اس حدیث سے تائید پہنچتی ہے جس میں ذکر ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رداء مبارک میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی صاحبزادیوں کو لپٹا کر دعا فرمائی:
یَارَبِّ ہٰذَا عَمِّیْ وَصِنْوَ اَبِیْ وَہٰؤُلَآءِ اَھْلُ بَیْتِیْ فَاسْتُرْھُمْ مِنَ النَّارِ کَسِتْرِیْ اِیَّاھُمْ بِمُلَاءَ تِیْ ھٰذِہٖ فَاَمَّنَتْ اُسْکُفَّۃُ الْبَابِ وَحَوَائِطُ الْبَیْتِ ۔
یعنی یا رب یہ میرے چچا اور بمنزلہ میرے والد کے ہیں اور یہ میرے اہلِ بیت ہیں انہیں ا ۤتش دوزخ سے ایسا چھپاجیسا میں نے اپنی چادر مبارک میں چھپایا ہے۔ اس دعاپر مکان کے درودیوار نے آمین کہی ۔(1)
خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں چونکہ اہلِ بیتِ نسب کامر اد ہونا مخفی تھا اس لئے آں سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فعل مبارک سے بیان فرمادیا کہ مراد اہل بیت سے عام ہیں ۔ خواہ بیتِ مسکن کے اہل ہوں جیسے کہ ازواج یا بیت نسب کے اہل بنی ہاشم ومطلب۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے آپ نے فرمایا: میں ان اہل بیت میں سے ہوں جن سے اللہ تعالیٰ نے رجس کو دور کیا اور انہیں خوب پاک کیا۔(2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں بیت نسب بھی اسی طرح مراد ہے ۔جس طرح بیت مسکن۔ یہ آیت کریمہ اہل بیت کرام کے فضائل کا منبع ہے۔ اس سے ان کے اعزازِ مآثِر اور عُلُوِّ شان کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تمام اخلاق دَنیہ واحوال مذمومہ سے ان کی تطہیر فرمائی گئی۔ بعض احادیث میں مروی ہے کہ اہل بیت، نار پر حرام ہیں اور یہی اس تطہیر کا فائدہ اور ثمرہ ہے اور جو چیز ان کے احوال شریفہ کے لائق نہ ہو اس سے ان کاپر وردگار عزوجل انہیں محفوظ رکھتا اور بچاتا ہے۔ جب خلافت ظاہر ہ
میں شان مملکت وسلطنت پیدا ہوئی تو قدرت نے آل طاہر کو اس سے بچا یا اور اس کے عوض خلافت باطنہ عطا فرمائی ۔
حضرات صوفیہ کا ایک گروہ جزم کرتا ہے کہ ہر زمانہ میں قطب اولیا ء، آل ِرسول ہی میں سے ہوں گے ۔اس تطہیر کا ثمرہ ہے کہ صدقہ ان پر حرام کیا گیا کیونکہ اس کو حدیث شریف میں صدقہ دینے والوں کا میل بتا یا گیا ہے مع ذلک اس میں لینے والے کی سَبْکی بھی ہے بجائے اس کے وہ خمس وغنیمت کے حقدار بنائے گئے جس میں لینے والا بلندو بالا ہوتا ہے ۔اس آل پاک کی عظمت وکرامت یہاں تک ہے کہ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تم میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں جب تک تم انھیں نہ چھوڑو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگے ۔ایک کتاب اللہ ،ایک میری آل ۔(1)
دیلمی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور اقدس علیہ وآلہ الصلوٰۃ والتسلیمات نے ارشاد فرمایا :دعا رکی رہتی ہے جب تک کہ مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درودنہ پڑھا جائے۔(2)
ثعلبی نے حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کی کہ آپ نے آیت
وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا (3) کی تفسیر میں فرمایا کہ ہم ہی حبل اللہ ہیں۔(4)
دیلمی سے مرفوعاً مروی ہے حضورعلیہ الصلوٰۃوالتسلیمات نے ارشاد فرمایا کہ میں نے
اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کے ساتھ محبت رکھنے والوں کو دوز خ سے خلاصی عطا فرمائی۔ (1)
امام احمد نے روایت کی کہ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات نے سید ین کریمین حسنین شہیدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہاتھ پکڑ کر فرمایاکہ جس شخص نے مجھ سے محبت رکھی اور ان دونوں سے اور انکے والداور والدہ سے محبت رکھی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔(2)
یہاں مَعِیَّت سے مراد قُرْب ِحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے کیونکہ انبیاء علیہم السلام کادرجہ تو انھیں کے ساتھ خاص ہے۔ کتنی بڑی خوش نصیبی ہے محبینِ اہلِ بیت کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات نے ان کے جنتی ہونے کی خبردی اور مژدۂ قرب سے مسرور فرمایا مگر یہ وعدہ اور بشارت مومنین مخلصین اہل سنت کے حق میں ہے۔روافض اس کا محل نہیں جنہوں نے اصحاب رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی و بے باکی اور اکابرصحابہ علیہم الرضوان کے ساتھ بغض وعناد اپنا د ین بنالیا ہے۔ ان لوگوں کا حکم مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے جو آپ نے فرمایا: یَھْلِکَ فِیَّ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ(3) میری محبت میں مفرط ہلاک ہوجائے گا۔ حدیث شریف میں وارد ہے: لَا یَجْتَمِعُ حُبُّ عَلِیٍّ وَبُغْضُ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ فِیْ قَلْبِ مُؤْمِنٍ.(4) یعنی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی محبت اور شیخین جلیلین ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بغض کسی مومن
کے دل میں جمع نہیں ہوسکتا۔
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض و عداوت رکھنے والا حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ صحیح حدیث میں آیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بر سر منبر فرمایا:ان اقوام کا کیا حال ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا رحم (قرابت) روز قیامت کچھ کام نہ آئے گا۔ ہاں خدا کی قسم! میرا رحم (رشتہ و قرابت) دنیا و آخرت میں موصول ہے۔ (1)
قرطبی نے سیدا لمفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے آیۂ کریمہ:
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ؕ﴿۵﴾
کی تفسیر میں نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور انور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس بات پر راضی ہوئے کہ ان کے اہل بیت میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے۔(3)
حاکم نے ایک حدیث روایت کی اور اس کو صحیح بتایا۔ اس کا مضمون یہ ہے کہ آں سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے میرے رب نے میرے اہل بیت کے حق میں فرمایا کہ ان میں سے جوتوحید و رسالت کا مُقِرہوا،انکو عذاب نہ فرمائے۔ (4)
طبرانی و دار قطنی کی روایت ہے : حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: اول گروہ جس کی میں شفاعت فرماؤں گا میرے اہل بیت ہیں پھر مرتبہ بمر تبہ قریش پھر انصار پھر اہل یمن میں سے جو مجھ پر ایمان لائے اور میرے متبع ہوئے۔ پھر تمام عر ب پھر اہل عجم
اور جن کی میں پہلے شفاعت کروں گا و ہ افضل ہیں۔(1)
بزارو طبرانی و ابو نعیم نے روایت کی کہ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پاک دامن ہیں پس اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی ذریت کونا رپر حرام فرمایا۔ (2)
بیہقی اور ابوالشیخ اور دیلمی نے روایت کیاکہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بندہ مومن کامل نہیں ہوتا ……یہاں تک کہ میں ا س کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوں اور میری اولاد اس کو اپنی جان سے زیادہ پیاری نہ ہوا ور میرے اہل ان کو اپنے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میری ذات اس کو اپنی ذات سے زیادہ اَحب نہ ہو۔ (3)
دیلمی نے روایت کی کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت کی محبت اور قرآن پاک کی قرأت۔ (4)
دیلمی نے روایت کی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ جو اللہ کی محبت رکھتا ہے وہ قرآن کی محبت رکھتا ہے اور جو قرآن کی محبت رکھتا ہے میری محبت رکھتا ہے اور جو میری محبت رکھتا ہے میرے اصحاب اور قرابت داروں کی محبت رکھتا ہے۔(5)
امام احمد نے روایت کیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ جو شخص اہل
بیت سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔ (1)
اما م احمد و ترمذی نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی وہ فرماتے ہیں کہ ہم منافقین کو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغض سے پہنچانتے تھے۔یعنی ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔(2) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اہل بیت کی محبت فرائضِ دین سے ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ؎
یَا اَھْلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللہِ حُبُّکُمْ
فَرْضٌ مِنَ اللہِ فِی الْقُراٰنِ اَنْزَلَہٗ(3)
اے اہلِ بیت پاک ! تمہاری ولاہے فرض، قرآن پاک اس پرہے ناطق بلاکلام۔
ابو سعید نے شرف النبوۃ میں روایت کیاآنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے فاطمہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمہارے غضب سے غضب الٰہی عزوجل ہوتا ہے اور تمہاری رضا سے اللہ عزوجل راضی۔(4)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کوئی ا ن کی کسی اولا د کو ایذا پہنچائے اس نے اپنی جان کو اس خطرۂ عظیمہ میں ڈال دیاکیونکہ اس حرکت سے ان کو غضب ہوگا اور ان کا غضب،غضبِ الٰہی عزوجل کا موجب ہے۔ اسی طرح اہل بیت علیہم الرضوان کی محبت حضرت خاتون جنت کی رضا کا سبب ہے اور ان کی رضا رضائے الٰہی عزوجل۔
اس لئے علمائے کرام نے تصریح فرمائی کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بلدۂ پاک کے باشندوں کا ادب کرنا چاہیے اورحضورپاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جوارِ پاک کی حرمت کا لحاظ رکھنا لازم ہے چہ جائیکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک۔(1)
دیلمی نے مرفوعاً روایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جو مجھ سے توسّل کی تمنا رکھتا ہوا وریہ چاہتا ہوکہ اسکو میری بارگاہِ کرم میں روزِقیامت حقِ شفاعت ہوتو چاہیے کہ وہ میرے اہلبیت علیہم الرضوان کی نیاز مندی کرے اور انکو خوشنود رکھے ۔(2)
امام ترمذی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ ”یہ فرشتہ آج سے پہلے کبھی زمین پر نازل نہ ہوا تھا اس نے حضرت رب العزت سے مجھ پر سلام کرنے اور یہ بشارت پہنچانے کی اجازت چاہی کہ حضرت خاتون جنت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنتی بیبیوں کی سردار ہیں اور حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جنتی جوانوں کے۔” (3)
ترمذی وابن ما جہ ،ابن حبان و حاکم نے روایت کیا ہے کہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”جو اِن اہلِ بیت سے محار بہ (جنگ) کرے میں اس کا محارب ہوں اور جوان سے صلح کرے اس کی مجھ سے صلح ہے۔”(4)
امام احمد و حاکم نے روایت کیا حضور علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ”فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرا جزوہیں جو انھیں ناگوار وہ مجھے ناگوار جو انھیں پسند وہ مجھے پسند، روزقیامت سوائے میرے نسب اور میرے سبب اورمیری خَوِیْشاوَنْدی کے تمام نسب منقطع ہوجائیں گے۔”(1)
ان احادیث کے علاوہ جس قدر احادیث قریش کے حق میں وارد ہیں اور جو فضائل ان میں مذکور ہیں ان سب سے اہل بیت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اہل بیت سب کے سب قریش ہیں اور جو فضیلت کہ عام کے لئے ثابت ہو، خاص کے لئے ثابت ہوتی ہے۔ چند حدیثیں جو قریش کے حق میں وارد ہوئی ہیں یہاں بیان کی جاتی ہیں:
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبۂ جمعہ میں ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! قریش کو بڑھاؤ اور ان سے آگے نہ بڑھو، ایسانہ کیا تو ہلاک ہوجاؤ گے۔ ان کی پیروی نہ چھوڑو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے ، ان کے استادنہ بنو، ان سے علم حاصل کرو، وہ تم سے اَعْظَم ہیں ۔اگر ان کے تَفاخُر کا خیال نہ ہوتا تومیں انھیں ان مراتب سے خبردار کرتا جو بارگاہ الٰہی عزوجل میں انہیں حاصل ہیں۔” (2)
بخاری نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ یہ امر قریش میں ہے ان سے جو عداوت کریگا اس کو اللہ تعالیٰ منہ کے بل جہنم میں ڈالے گا۔(3)
ایک حدیث میں آیا ہے: قریش سے محبت کرو، ان سے جو محبت کرتاہے اللہ
تعالیٰ اس کو محبوب رکھتا ہے۔(1)
امام احمد و ذہبی وغیرہ محدثین نے حضرت ام المومنین صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ جبریل امین نے فرمایا کہ میں نے زمین کے مشارق و مغارب الٹ ڈالے کوئی شخص حضور پر نور محمد ِمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے افضل نہ پایا اور میں نے زمین کے مشارق ومغارب الٹ ڈالے بنی ہاشم سے بڑ ھ کر کسی باپ کی اولاد افضل نہ پائی۔(2)
کسی شاعرنے ا س مضمون کو اپنی زبان میں اس طرح ادا کیا ہے ؎
جبریل سے اک روز یوں کہنے لگے شاہ امم
تم نے دیکھا ہے جہاں بتلاؤ تو کیسے ہیں ہم
کی عرض یہ جبریل نے اے مہ جبیں تیری قسم
آفاقہا گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
امام احمد وترمذی و حاکم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” جو شخص قریش کی بے عزتی چاہے گا اللہ اسے رسوا کریگا۔”(3)
ابو بکر بزار نے غیلانیات میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :روز قیامت بطن عرش سے ایک ندا کرنے والا ندا کریگا کہ اے اہل مجمع! اپنے سر جھکاؤ، آنکھیں بندکرو، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ بنت سید عالم محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم صراط سے گزریں پھر آپ سَترَّ ہزار باندیوں کے ساتھ جو سب حوریں ہوں گی بجلی کے کوندنے کی طرح گزر جائیں گی۔(1)
بخاری و مسلم نے روایت کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے فاطمہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم مومنہ بیبیوں کی سردار ہو۔”(2)
ترمذی و حاکم کی روایت میں ہے حضور علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :”مجھے اپنی اہل میں سب سے زیادہ پیاری فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ ”(3)
1۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث:۱۶۵۵۷، ج۵، ص۵۶۴
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب فی فضل العرب، الحدیث:۳۹۵۴،
ج۵،ص۴۸۷
1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمھیں
پاک کر کے خوب ستھرا کردے۔ (پ۲۲،الاحزاب:۳۳)
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں۔ (پ۲۲،الاحزاب :۳۴)
3۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم، ص۱۴۳
1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں۔ (پ۲۲، الاحزاب:۳۴)
2۔۔۔۔۔۔ الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر،الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم، ص۱۴۳
1۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث ام سلمۃ زوج النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم،الحدیث:۲۶۶۵۹،ج۱۰،ص۱۹۷
2۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث ام سلمۃ زوج النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم،الحدیث:۲۶۶۱۲،ج۱۰،ص۱۸۷
3۔۔۔۔۔۔المعجم الکبیر للطبرانی،الحدیث:۲۶۷۰،ج۳،ص۵۵
4۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، الفصل الاول، ص۱۴۴
1۔۔۔۔۔۔المعجم الکبیر للطبرانی،حمزۃ بن ابی اسید عن ابیہ،الحدیث:۵۸۴،ج۱۹،ص۲۶۳
والصواعق المحرقۃ،الباب الحادی عشر،الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم، ص۱۴۴
2۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم، ص۱۴۴
1۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، الفصل الاول،ص۱۴۴۔۱۴۵ ملتقطاً
والمستد رک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب من کنت مولاہ…الخ،الحدیث:۴۶۳۴،ج۴،ص۷۲
2۔۔۔۔۔۔کنزالعمال،کتاب الاذکار، قسم الاقوال، الحدیث۳۲۱۲،ج۲،ص۳۵
3۔۔۔۔۔۔ترجمہء کنز الایمان: اور اللہ کی رسّی مضبوط تھام لوسب ملکر اور آپس میں پھٹ نہ جانا۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۰۳)
4۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم، ص۱۵۱
1۔۔۔۔۔۔کنزالعمال،کتاب الفضائل، فضل اہل بیت، الحدیث۳۴۲۲۲،ج۱۲، ص۵۰
2۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل، من مسند علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ،
الحدیث:۵۷۶،ج۱،ص۱۶۸
والصواعق المحرقۃ،الباب الحادی عشر،الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم،ص۱۵۳
3۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ،الباب الحادی عشر،الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم،ص۱۵۳
4۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ،الباب الحادی عشر،الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم،ص۱۵۳
1۔۔۔۔۔۔المسند للامام احمد بن حنبل،مسند ابی سعید الخدری،الحدیث:۱۱۱۳۸،ج۴،ص۳۸
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے(پ۳۰،الضحیٰ:۵)
3۔۔۔۔۔۔الجامع لاحکام القرآن للقرطبی،سورۃ الضحٰی،تحت الآیۃ:۴،الجزئ۲۰،ج۱۰،ص۶۸
4۔۔۔۔۔۔المستد رک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب وعدنی ربی…الخ،الحدیث:۴۷۷۲،ج۴،ص۱۳۲
1۔۔۔۔۔۔المعجم الکبیر للطبرانی، مجاہد عن ابن عمر، الحدیث:۱۳۵۵۰،ج۱۲،ص۳۲۱
2۔۔۔۔۔۔کنزالعمال،کتاب الفضائل، فضل اہل بیت، الحدیث:۳۴۲۱۵،ج۱۲،ص۵۰
3۔۔۔۔۔۔شعب الایمان للبیہقی،باب فی حب النبی،فصل فی براء تہ فی النبوۃ، الحدیث:۱۵۰۵،
ج۲،ص۱۸۹
4۔۔۔۔۔۔کنزالعمال،کتاب النکاح، قسم الاقوال، الحدیث:۴۵۴۰۱،ج۱۶،ص۱۸۹
5۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، المقصد الثانی…الخ، ص۱۷۳
1۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، المقصد الثالث…الخ، ص۱۷۴
2۔۔۔۔۔۔فضائل الصحابۃ لابن حنبل،الحدیث:۱۰۸۶،ج۲،ص۶۳۹
وسنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ،
الحدیث:۳۷۳۷،ج۵،ص۴۰۰
3۔۔۔۔۔۔مرقاۃ المفاتیح،شرح مقدمۃ المشکاۃ،ترجمۃ الامام الشافعی ومناقبہ،ج۱،ص۶۳
4۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، المقصد الثالث…الخ، ص۱۷۵
1۔۔۔۔۔۔ الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، المقصد الثالث…الخ، ص۱۷۵
2۔۔۔۔۔۔ الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، المقصد الرابع…الخ، ص۱۷۶
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی…الخ،
الحدیث:۳۸۰۶،ج۵،ص۴۳۱
4۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فضل فاطمۃ رضی اﷲعنہا،الحدیث:۳۸۹۶،
ج۵،ص۴۶۵
1۔۔۔۔۔۔المستد رک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب دعاء دفع الفقر…الخ،
الحدیث:۴۸۰۱،ج۴،ص۱۴۴
2۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، الفصل الثانی…الخ، ص۱۸۸ملتقطاً
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب مناقب قریش، الحدیث:۳۵۰۰،ج۲،ص۴۷۴
1۔۔۔۔۔۔المعجم الکبیر للطبرانی، العباس بن سہل بن سعد عن ابی، الحدیث:۵۷۰۹،
ج۶، ص۱۲۳
2۔۔۔۔۔۔الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر، الفصل الثانی…الخ، ص۱۸۹
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فی فضل الانصاروقریش، الحدیث:۳۹۳۱،
ج۵،ص۴۷۹
1۔۔۔۔۔۔اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ،کتاب المناقب، باب مناقب اہل البیت،
ج۱،ص۳۶۸
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاستیذان،باب من ناجیٰ…الخ، الحدیث:۶۲۸۵،۶۲۸۶،
ج۴،ص۱۸۴
3۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب کان احب النسائ…الخ،الحدیث:۴۷۸۸،
ج۴،ص۱۳۹