اُمت پر حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حقوق کا بیان
{1} ایمان و اتباع :
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپ جو کچھ اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے لائے ہیں اس کی تصدیق فرض ہے۔ایمان بالرسول کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔
وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا (۱۳) (فتح، ع۲)
اور جو کوئی اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا پس تحقیق ہم نے کافروں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے۔ ( ۱)
اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ جو شخص ایمان باللّٰہ اور ایمان بالرسول کا جامع نہ ہو وہ کافر ہے۔
حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت واجب ہے۔آپ کے اَوامر کا اِمتثال ( ۲) اور آپ کے نواہی (۳ ) سے اجتناب لازم ہے۔
وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ (۷) (حشر ، ع۱)
اور جو کچھ رسول تم کو دے تم اسے لے لو اور جس سے تم کو منع فرمائے اس سے تم باز رہو اور اللّٰہ سے ڈرو تحقیق اللّٰہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔ (۴ )
حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرت و سنت کا اقتداء و اتباع واجب ہے۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۳۱) (آل عمران، ع۴)
کہہ دیجئے اگر تم اللّٰہکی محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللّٰہ تم کو دوست رکھے گا اور تم کو تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللّٰہ
بخشنے والا مہربان ہے۔ (۱ )
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ (۲۱) (احزاب، ع۳)
بیشک تمہارے واسطے رسول اللّٰہ میں اچھی پیروی تھی اس شخص کے لئے جو ثواب خدا اور روز آخر کی توقع رکھتا تھا اور جس نے اللّٰہ کو بہت یاد کیا۔ ( ۲)
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-ط (احزاب، ع۱)
نبی مومنوں کیلئے ان کی جانوں سے سزاوارتر ہیں اور اَزواجِ پیغمبر اُن کی مائیں ہیں ۔ (۳ )
اس آیت سے ظاہر ہے کہ دین و دنیا کے ہر امر میں آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مومنوں کو اپنی جانوں سے زیادہ پیارے ہیں ۔اگر حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی امر کی طرف بلائیں اور ان کے نفوس کسی دوسرے امر کی طرف بلائیں تو حضور کی فرمانبرداری لازم ہے کیونکہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جس امر کی طرف بلاتے ہیں اس میں ان کی نجات ہے اور ان کے نفوس جس امر کی طرف بلاتے ہیں اس میں ان کی تباہی ہے اس لئے واجب ہے کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام مومنوں کو اپنی جانوں سے زیادہ محبوب ہوں وہ اپنی جانیں حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر فدا کردیں اور جس چیز کی طرف آپ بلائیں اس کا اتباع کریں۔
حضرت سہل بن عبد اللّٰہ تُسْتَری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ جو شخص یہ نہ سمجھا کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی میری جان کے مالک ہیں اور یہ نہ سمجھا کہ تمام حالات میں رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولایت (حکم و تصرف) نافذ ہے اس نے کسی حال میں آپ کی سنت کی حلاوت
نہیں چکھی کیونکہ آپ اَولٰی بالمومنین ہیں ۔ ‘‘
ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور سرورِ اَنامصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اِتباع کیسے بے چون و چرا (۱ ) کیا کرتے تھے۔
{1} حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے دریافت کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کفن میں کتنے کپڑے تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وفات شریف کس دن ہوئی۔ (۲ ) اس سوال کی و جہ یہ تھی کہ آپ کی آرزو تھی کہ کفن و یوم وفات میں بھی حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی موافقت نصیب ہو۔ (۳ ) حیات میں تو حضورانور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اتباع تھا ہی وہ ممات میں بھی آپ ہی کا اتباع چاہتے تھے۔اللّٰہ! اللّٰہ! یہ شوقِ اتباع! کیوں نہ ہو! صدیق اکبر تھے۔رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ
{2} حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جس امر پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم عمل کیا کرتے تھے میں اسے کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔اگر میں آپ کے حال سے کسی امر کو چھوڑدوں تو مجھے ڈر ہے کہ میں سنت سے منحرف (۴ ) ہوجاؤں گا۔(۵ )
{3} زید کے باپ اسلم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ حجر اسود کو بوسہ دیا اور (اس کی طرف نگاہ کر کے) فرمایا: اگر میں نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھ کو بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری، کتاب المناسک) ( ۶)
{4} حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی۔ آپ نے اسکو نکال کر پھینک دیااور فرمایا: ’’ کیا تم میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ آگ کی انگاری اپنے ہاتھ میں ڈالے؟ ‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا کہ تو اپنی انگوٹھی اٹھالے اور (بیچ کر) اس سے فائدہ اٹھا۔ اس نے جواب دیا: نہیں ! اللّٰہ کی قسم! میں اسے کبھی نہ لوں گاحالانکہ رسول خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے پھینک دیا ہے۔ (۱ ) (مشکوٰۃ بحوالہ صحیح مسلم، باب الخاتم)
{5} حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا گزر ایک جماعت پر ہوا جن کے سامنے بھنی ہوئی بکری رکھی تھی۔ انہوں نے آپ کو بلایاآپ نے کھانے سے انکار کیا اور فرمایا کہ نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دنیا سے رحلت فرماگئے اور جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔ ( ۲) (مشکوٰۃ بحوالہ صحیح بخاری، باب فضل الفقراء)
{6} رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے آٹے کی بھوسی کبھی صاف نہ کی جاتی تھی۔ (۳ ) (بخاری، کتاب الاطعمہ) ابن سعد نے بروایت ابو اسحاق روایت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو بن چھانے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے اس لئے میرے واسطے آٹا نہ چھانا جایاکرے۔
(طبقات ابن سعد، جزء اول، قسم ثانی، ص۱۰۹) (۴ )
{7} حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی ایک مکان کے گرد پھرا رہے ہیں ۔اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا مگر اتنا کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ایسا کرتے دیکھا ہے اس لئے میں نے بھی کیا۔ ( ۵) (امام احمد و بزار) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابر صحابہ امورِ عادِیہ (۶ ) میں بھی حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اقتداء کیا کرتے تھے۔
{8} مسجد نبوی سے ملحق حضرت عباس بن عبد المطلب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مکان تھا جس کا پرنالہ بارش میں آنے جانے والے نمازیوں پر گرا کرتا تھا۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے اُکھاڑ دیا۔ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اللّٰہ کی قسم! ۱س پرنالے کو رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دست مبارک سے میری گردن پر سوار ہوکر لگایا تھا۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا کہ آپ میری گردن پر سوار ہوکر اس کو پھر اسی جگہ لگادو! چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (
________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:اور جو ایمان نہ لائے اللّٰہ اور اس کے رسول پر تو بیشک ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ (پ۲۶،الفتح:۱۳) ۔علمیہ
2 – احکامات کی تعمیل۔
3 – جن سے آپ نے منع فرمایا ۔
4 – ترجمۂکنزالایمان:اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللّٰہ کا عذاب سخت ہے۔(پ۲۸،الحشر:۷) ۔علمیہ