امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علم کی قدر:
امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علم کی قدر:
حضرت سیِّدُنا عتیق بن یعقوب زبیری علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ خلیفہ ہارونُ الرشید مَدِیْنَۂ مُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ تَعْظِیْماً وَّتَکْرِیْماً حاضر ہوئے اور انہیں یہ خبر پہنچی کہ حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس احادیث کی ”مؤطا” نامی کتاب ہے جووہ لوگوں کو پڑھ کرسناتے ہیں۔تو خلیفہ ہارونُ الرشیدنے (اپنے وزیر) بَرْمَکِی کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف یہ کہتے ہوئے بھیجا کہ امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرا سلام کہنا اورکہنا کہ وہ کتاب لے کرمیرے پاس آئیں اور مجھے پڑھ کر سنائیں۔ برمکی نے جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:”جاؤ،خلیفہ کومیرا سلام کہواورپھر کہو:”علم کے پاس جانا پڑتا ہے، یہ خود کسی کے پاس نہیں آتااور علم حاصل کرنا پڑتا ہے، یہ خودحاصل نہیں ہوتا۔” برمکی نے خلیفہ ہارون الرشید کے پاس آکر جب یہ سب بیان کیا تو اس وقت دربار میں قاضی ابو یوسف بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگے: ”اے امیر المؤمنین! اہلِ عراق کویہ بات پہنچ سکتی ہے کہ آپ نے امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیامگر انہوں نے نافرمانی کی لہٰذا آپ ان پر سختی کریں ۔”
ابھی یہ گفتگو چل رہی تھی کہ حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے آئے اور سلام کرکے بیٹھ گئے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا:”اے ابن ابی عامر! میں نے آپ کو پیغام بھیجا تھا اور آپ نے انکارکردیا۔”تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے امیر المؤمنین! حضرت سیِّدُنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:”میں رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں وحی لکھاکرتاتھا، میں نے یہ آیتِ مبارکہ لکھی: ”لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُجٰھِدُوْنَ تر جمہ: برابر نہیں وہ مسلمان کہ جہاد سے بیٹھے رہیں اور وہ کہ جہاد کرتے ہیں۔” اس وقت حضرت سیِّدُنا ابنِ اُمِّ مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزّت،محسنِ انسانیت عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ سراپا عظمت میں حاضرتھے۔ انہوں نے عرض کی :”یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم !میں ایک نابیناومعذور شخص ہوں اور آپ جانتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جہاد کی بہت فضیلت ارشادفرمائی ہے۔” توحضورنبئ پاک، صاحب ِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”میں اپنے اندازے سے نہیں جانتا (کہ معذور کیا کریں)۔” حضرت سیِّدُنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں۔ میرا قلم ابھی روشنائی سے تَر تھا، خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ران مبارک (وحی کے بوجھ سے) مجھ پر بھاری ہونے لگی۔ جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو افاقہ ہوا تو ارشاد فرمایا: ”اے زید! اب لکھو : ”غَيْرُ اُولِی الضَّرَرِ۔” (یعنی آیتِ مبارکہ کی ترتیب اس طرح ہوگئی : لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوۡنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنۡفُسِہِمْ ؕ تر جمۂ کنز الایمان: برابر نہیں وہ مسلمان کہ بے عذر جہاد سے بیٹھ رہیں اور وہ کہ راہِ خدا میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں۔ (پ۵، النسآء: ۹۵)
(پھر فرمایا) اے امیر المؤمنین!جب ایک حرف کے لئے حضرت سیِّدُنا جبرائیل علیہ السلام اوردیگرفرشتوں نے پانچ ہزار سال کی مسافت برداشت کی تو کیامجھ پراس کی عزت و جلالت کا پاس رکھنا ضروری نہیں؟ اور آپ کو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بلند مرتبہ عطا فرمایا اور مسند ِ خلافت پر فائز کیا ہے۔پس آپ علم کا مرتبہ گھٹانے والے سب سے پہلے شخص نہ بنیں ورنہ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی قدرومنزلت کم کر دے گا۔”راوی فرماتے ہیں کہ خلیفہ ہارون الرشید اٹھے اورحضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان کے گھر کی طرف چل پڑے تاکہ آپ سے موطأ سنوں ۔آپ نے خلیفہ کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا۔ جب خلیفہ نے آپ سے مؤطا پڑھنے کاارادہ کیا تو کہنے لگے:”آپ مجھے پڑھ کر سنائیں۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”اے خلیفۃ المسلمین! میں نے آج تک کسی کوپڑھ کر نہیں سنایا۔”ہارون الرشید نے کہا: لوگ باہر چلے جائیں تومیں پڑھ کر سناتا ہوں۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”جب خاص لوگوں کی وجہ سے عام لوگوں سے علم کو روک دیا جائے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ خاص لوگو ں کو بھی اس سے نفع نہ دے گا۔”پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے فرمایا:” معن بن عیسیٰ قزاز کو پڑھ کر سناؤ۔” جب خلیفہ نے پڑھنا شروع کیا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اے امیر المؤمنین! میں نے اپنے ملک کے علماء کو دیکھا ہے کہ وہ علم کے لئے عاجزی کرنا پسند کرتے ہیں۔” یہ سن کرہارون الرشید مسند سے نیچے اترے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے۔”
( تاریخ دمشق لابن عساکر،الرقم۴۱۲0، عبد العزیز بن عبدالقریب ابویعلٰی،ج۳۶،ص۳۱۱۔۳۱۲)
حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حصولِ علم کے متعلق سوال ہوا توارشاد فرمایا:”علم سیکھنا بہت اچھا ہے۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ جوشخص صبح سے شام تک تمہارے ساتھ رہے تم بھی اسے لازم پکڑو۔” (حلیۃ الاولیاء،مالک بن انس،الحدیث۸۸۷0،ج۶،ص۳۴۹)
حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ علمِ دین کی حد درجہ تعظیم فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ جب حدیث ِ پاک بیان کرنے کا ارادہ فرماتے تو وضو کرکے دونفل پڑھتے پھرداڑھی میں کنگھی کرتے ،خوشبولگاتے اور عزت ووقار کے ساتھ اپنی مسند
کے صدر مقام پرتشریف فرما ہوکر حدیثِ پاک بیان کرتے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو ارشاد فرمایا:”مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ اللہ کے مَحبوب ، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی حدیث ِ پاک کی تعظیم کروں۔” (
حلیۃ الاولیاء، مالک بن انس،الحدیث۸۸۵۸،ج۶،ص۳۴۷)
یوں ہی علم کی تعظیم کی جاتی ہے۔ علماء کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام جب علم کی تعظیم کرتے ہیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت ڈال دیتا ہے اوربادشاہوں اور دوسرے افراد کے دلوں میں اُن کا رعب ودبدبہ بٹھا دیتا ہے۔
اے علم کے طلب گار! علم کے لئے عاجزی اختیار کر۔جو اس کے لئے عاجز ی کرتا ہے حقیقۃًوہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے عاجزی کرتاہے اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے عاجزی کرتاہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا مرتبہ بلند فرما دیتا ہے۔ بلاشبہ مِٹی قدموں کے نیچے آ کر حقیر ہوتی ہے تو چہرے کے لئے پاکی کاباعث بن جاتی ہے۔ چنانچہ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(3) فَامْسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمْ وَاَیۡدِیۡکُمۡ مِّنْہُ ؕ
ترجمۂ کنز الایمان:تواپنے منہ اور ہاتھوں کااس(مِٹی) سے مسح کرو۔(پ6،المآئدہ:6)
اے میرے اسلامی بھائی! علم کے اجتماع میں حاضری کو اس طرح یقینی بنا لے جس طرح بچہ ہر وقت دودھ کا محتاج ہوتا ہے مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اسے چھوڑنے پر صبر کر لیتا ہے۔ یاد رکھ! فضائل کا راستہ مصیبتوں سے بھرا ہواہے تاکہ ناپختہ ارادے والا راستے ہی سے لوٹ آئے۔ اے نوجوان! تیرے نفس کا موتی علم سیکھنا ہے اور اس کا زیور عمل ہے۔ اگر تو نے میری نصیحت مان لی تو تیرے لئے مسند ِ صدارت ہے یا منبر کی اونچائی ۔
؎ وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْعِلْمِ صَانُوْہ، صَانَہُمْ وَلَوْ
عَظَّمُوْہ، فِی النُّفُوْسِ لَعَظَّمَا
أاَغْرِسُہ، عِزًّا وَ اَجْنِیْہِ ذِلَّۃً اِذًا
فَاِتِّبَاعُ الْجَھْلِ قَدْ کَانَ أحْزَمَا
تَعَلَّمَ فَلَیْسَ الْمَرْءُ یَخْلُقُ عَالِمًا
وَلَیْسَ اَخئوْ عِلْمٍ کَمَنْ ہُوَ جَاھِلُ
وَاِنَّ کَبِیْرَ الْقَوْمِ لَا عِلْمَ عِنْدَہٗ صَغِیْرٌ
اِذَا اِلْتَفَتَ عَلَیْہِ الْمَحَافِلُ
ترجمہ:اگر علماء کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام علم کی حفاظت کريں گے تو یہ ان کی حفاظت کریگا۔ اگر وہ دل سے اس کی تعظیم کریں گے تو یہ بھی ان کوعزت دے گا۔ کیا میں عزت کا بیج بو کر ذلت کا پھل توڑوں گا؟ اگر ایسا ہے تو جاہل کی اتباع میں ہی احتیاط ہے۔ اے بھائی! علم حاصل کر کیونکہ انسان پیدائشی طور پر عالم نہیں ہوتااور علم والا جاہل کی طرح نہیں ہو سکتا۔ قوم کا بے علم سردار چھوٹا ہے جبکہ لوگ اس سے منہ موڑ لیں۔
منقول ہے کہ جب حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم کا شہرہ ہوا اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاذکر ِ خیر اور
فضیلت دوسرے ممالک تک پھیل گئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں علم کی ترویج و اشاعت کے لئے مال ودولت حاضر کیا جاتا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو اپنے دوست واحباب میں تقسیم فرما دیتے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوست آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیروی میں اسے بھلائی کے کاموں میں خرچ کر ڈالتے۔ اس میں سے کچھ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچا کر نہ رکھتے اور فرمایا کرتے: ”زُہد (یعنی دُنیا سے بے رغبتی )مال نہ ہونے کانام نہیں بلکہ زُہد تو یہ ہے کہ دل اس سے فارغ ہو۔”
(احیاء علوم الدین،کتاب العلم،باب ثانی فی العلم المحمود والمذموم واقسامھما واحکامھما،ج۱،ص۴۸)
مزید ارشاد فرمایا:”جو بندہ حدیث کے بیان میں سچاہوتا ہے اور جھوٹ نہیں بولتا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے اس کی عقل سے نفع عطافرماتا ہے اور بڑھاپے میں اسے کوئی آفت نہیں پہنچتی اور نہ ہی اس کی عقل خراب ہوتی ہے ۔” (المرجع السابق،ص۴۷)
حضرت سیِّدُنا عمر بن ابوسلمہ علیہ رحمۃاللہ فرماتے ہیں: ”جب میں نے مؤ طا امام مالک پڑھی تو خواب میں ایک آنے والا آیا اور کہنے لگے: ”بلا شبہ یہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعث ِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا کلام ہے۔”
(التمھید لابن عبد البر،مقدمۃ المصنف،باب ذکر عیون من اخبار مالک وذکر فضل موطئہ،ج۱،ص۶0)
منقول ہے کہ جب حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب ”مُؤْطَّا”تالیف کرنے کا ارادہ فرمایاتو اس میں غور وفکر کرنے لگے کہ اس کا نام کیا رکھا جائے؟ فرماتے ہیں کہ ایک دن جب میں سویا توسرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عث ِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت سے فیض یاب ہوا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”وَطِّیئُ ھٰذَا الْعِلْمَ لِلنَّاسِ یعنی اس علم کو لوگو ں کے لئے آسان (یا تیار) کر دو۔”لہٰذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا نام ”مُؤْطَّا” رکھا۔
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”ہم حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرتھے اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں حدیث ِ پاک بیان فرما رہے تھے۔ اچانک ایک بچھو نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سولہ (16) مرتبہ ڈنگ مارا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے کارنگ بدل کر زردپڑگیا۔ اس کے باوجودآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث ِ پاک بیان کرتے رہے۔ جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے عرض کی: ”اے ابو عبداللہ! آج میں نے آپ کی عجیب حالت دیکھی ہے؟” تو ارشاد فرمایا:”ہاں! میں نے حضور نبئ کریم، ر ء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی حدیث ِ پاک کی تعظیم کرتے ہوئے صبر کیا ہے۔”
(ترتیب المدارک وتقریب المسالک،باب صفۃ مجلس مالک للعلم،ج۱،ص۴۵)
حضرت سیِّدُنا مصعب بن عبداللہ علیہ رحمۃاللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضورنبئ پاک، صاحب ِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا نامِ نامی، اسمِ گرامی لیتے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رنگ بدل جاتااور
حضرت سیِّدُناکعبُ الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے: ”جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے موجودات کو پیدافرمانے کاارادہ کیا اور زمین کوبچھایا اورآسمان کو بلندفرمایا تواپنے فیض ذات سے مُٹھی بھر لے کر اس سے ارشاد فرمایا:”اے نور! محمدبن جا۔” اُس نور نے ایک نوری ستون کی صورت اختیار کرلی اور اس قدر روشن ہوا کہ عظمت کے پردے تک جاپہنچا اور ربّ ِ کائنات عَزَّوَجَلَّ کو سجدہ کیا اور کہا: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! یعنی سب خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں ۔” تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تجھے اسی لئے پیدا فرمایا اور تیرا نام محمد ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)رکھا ہے،تجھی سے اپنی مخلوق کی ابتدا کروں گا اور تجھی پر اپنی رسالت کا سلسلہ ختم کروں گا۔” پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس نور کے چارحصے کرکے ایک حصے سے لوحِ محفوظ اوردوسرے سے قلم کو پیدا فرمایا پھر قلم سے ارشاد فرمایا: ”لکھ !” تو قلم پر ایک ہزار سال تک ہیبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے لرزہ طاری رہا۔ اس کے بعد قلم نے عرض کی :”اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ! کیا لکھوں ؟ ” ارشاد فرمایا:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کپکپی طاری ہو جاتی یہاں تک کہ حاضرینِ اجتماع پر برداشت مشکل ہوجاتی۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا: ”اگر تم بھی اسے دیکھ لیتے جو میں دیکھتا ہوں تو تم پر گراں نہ گزرتا۔”
(ترتیب المدارک وتقریب المسالک،باب فی ذکر عبادۃ مالک وورعہ وعزلتہ وإجابۃ دعائہ ،ج۱،ص۵۵)
حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راستے میں یا کھڑ ے کھڑے یا جلدی میں حدیث ِ پاک بیان کرنے کو ناپسند فرماتے اور ارشاد فرمایا کرتے:”مجھے یہ پسند ہے کہ حضور نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی حدیث ِ پاک کی تعظیم کروں۔”
(حلیۃ الاولیاء،مالک بن انس،الحدیث۸۸۵۸،ج۶،ص۳۴۷۔بتقَدُّمٍ وتاَخُّرٍ)