امام صاحب کو خطا پر کہنے والے مثل ِجانوروں کے ہیں
امام صاحب کو خطا پر کہنے والے مثل ِجانوروں کے ہیں
سیرۃ النعمان میں لکھا ہے کہ خطیب بغدادی نے وکیع بن الجراح کے حال میں لکھا ہے کہ ایک موقع پر وکیع کے پاس چند اہل علم جمع تھے ، کسی نے کہا کہ اس مسئلہ میں ابو حنیفہ نے غلطی کی ہے ، وکیع بولے کہ ابو حنیفہ کیونکر غلطی کرسکتے ہیں ؟ ابو یوسف و زفر قیاس میں ، یحییٰ بن زائدہ، حفص بن غیاث ‘ حبان ‘ مندل حدیث میں ، قاسم بن معن لغت و عربیت میں ، داؤد طائی ، فضیل بن عیاض زہد و تقویٰ میں ، اس رتبہ کے لوگ جس شخص کے ساتھ ہوں وہ کہیں غلطی کرسکتا ہے ؟ اور اگر کرتا بھی تو یہ لوگ اُس کو کب غلطی پر رہنے دیتے ۔
خ ۔ ایک شخص نے وکیع سے کہاکہ ابو حنیفہ نے خطا کی ، انہوں نے جھڑک کر کہا : جو شخص ایسی بات کہے وہ مثل جانوروں کے ہے بلکہ اُن سے بھی گمراہ تر ۔ اُن کے نزدیک ابو یوسف اورمحمد جیسے ائمہ فقہ تھے اور بہت سے ائمہ حدیث اور بہت سارے ائمہ لغت و عربیت اور فضیل اور داؤد طائی جیسے ائمۂ زہد و ورع موجود تھے ، جس کے اصحاب ایسے ہوں وہ کبھی خطا نہیں کرتا اور اگر کی بھی تو اُس کو حق کی طرف وہ لوگ پھیر دیتے ہیں ۔ انتہی ۔
کردری ؒ نے اسی قسم کا قول ابن عکرمہ ؓ کا نقل کیا ہے چند ماہرینِ فنِ حدیث و لغت وغیرہ کے نام جو لکھے ہیں صرف تمثیل کے طور پر ہیں ورنہ وہاں تو صدہا علماء کا مجمع ہمیشہ رہا کرتا تھا، جس کا حال اوپر معلوم ہوا ۔
یہ روایت اوپر لکھی گئی ہے کہ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ میں ابو حنیفہ کی مجلس میں صبح و شام جایا کرتا تھا ، ایک بار حیض کے مسئلہ میں گفتگو شروع ہوئی اور تین روز تک صبح و شام ہواکی ، آخر تیسرے روز قریب شام اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا ، جس سے تمام اہل حلقہ کی
مسرت اُس مسئلہ کے طے ہونے پر سمجھی جاتی تھی ۔
اس سے ظاہر ہے کہ جب تک اہل حلقہ کے دلوں میں اذعانی اور انشراحی کیفیت پیدا نہیں ہوتی تھی کوئی مسئلہ کتاب میں نہیں لکھا جاتا تھا ۔
یہ روایت بھی اوپر لکھی گئی کہ ایک رات زفرؒ نے بعد نماز عشاء کسی مسئلہ میں اپنا شک ظاہر کیا، امام صاحب نے جواب دیا مگر اُن کی تسکین نہ ہوئی اور مناظرہ طول کھینچا یہاں تک کہ رات بھر مناظرہ ہوتا رہا ، آخر صبح امام صاحب ہی کے قول پر فیصلہ ہوا ۔
اس سے ظاہر ہے کہ شاگردوں کو عام اجازت تھی کہ وقت بے وقت اپنے شبہات رفع کرلیا کریں ۔
اب غور کیاجائے کہ جب امام صاحب نے نہ صرف خارج وقتِ درس بلکہ ایسے وقت میں کہ دنیا میں کوئی استاذ شاگردوں کے رفع شبہات کے لئے وہ وقت نہ دے گا ، اُن کے شبہات کو رفع کیا تو خاص وقت میں کس قدر وہ اس کام کی طرف متوجہ ہوتے ہوں گے اور کون شاگرد ہوگا کہ ایسے شفیق استاذ سے اپنے شبہات صاف نہ کرلیتا ہوگا ؟
اس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ مسائل فقہیہ میں جو جو شبہات مخالف حدیث کے محدثین کو ہونا چاہئے وہ سب امام صاحب کے حلقۂ درس میں پیش ہوچکے اور اُن کے جوابات معلوم ہونے کے بعد صدہا محدثین نے اُن کو مدون کرنے کی اجازت دی ہے ، جس سے ثابت ہے کہ فقہ کا ہر ایک مسئلہ صدہا اساتذہ ٔ محدثین کے اتفاق سے طے ہوچکا ہے ۔