اذان کی ابتداء
جب مدینہ منورہ میں مسجد جامع تیار ہو چکی تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ خیال آیا کہ مسلمانوں کو نماز کے لئے کس طرح جمع کیاجائے۔ آپ نے اپنے اصحاب کرام سے مشورہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ایک وقت اور ایک مکان میں اجتماع بغیر اِعلام (1) وآگاہی کے نہیں ہو سکتا، اس لئے صحابہ کرام رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اِعلام کے لئے کئی طریقے پیش کیے، بعض نے کہا کہ آگ روشن کر کے اونچی کردی جائے مسلمان اسے دیکھ کر جمع ہوجایا کریں گے۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بو جہ مشابہت ِمجوس اس طریقہ کو پسند نہ فرمایا، بعضوں نے ناقوس (2) تجویز کیا، مگر بو جہ مشابہت نصاریٰ یہ تجویزرد کر دی گئی۔ اس طرح بُوق (3) کو بو جہ مشابہت یہود پسند نہ کیا گیا۔ حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ مشورہ دیاکہ ایک شخص کو نماز کے وقت بغرض اعلام بھیج دیا جائے۔ اس پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ اٹھ کر نماز کے لئے نداکر دے، چنانچہ حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یوں ندا کر دیا کرتے: ’’ الصلٰوۃ جامعۃ ‘‘ اسی اثنا میں حضرت عبد اللّٰہ بن زید انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو خواب میں ان سب سے بہتر طریق بتلا دیاگیااور وہ مُرَوَّجَہ (4) اذان شرعی ہے۔ حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنا خواب بار گاہِ رسالت میں عرض کیا۔ حضور انور بِاَبِیْ ہُوَ وَ اُ مِّیْ پر اس سے پہلے اس بارے میں وحی آچکی تھی اس لئے آپ نے سن کر فرمایا کہ بیشک یہ رُویا (5) حق ہے ان شآء اللّٰہ تعالٰی اور حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کلمات ِاذان کی تلقین کر دو وہ اذان دیں گے کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند اور نرم وشیر یں ہے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (6)