احتیاطِ محدثین اور عدم ِکتابت ِحدیث کی وجہ
احتیاطِ محدثین
اصل واقعہ یہ ہے کہ جس قدر اہل بدعت پھیلتے گئے ، محدثین احتیاط زیادہ کرتے گئے ۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ متاخرین نے بہ نسبت متقدمین کے حدیث کی تحقیق زیادہ کی ۔ یہاں تک کہ ایک ایک حدیث سو سو طریقوں بلکہ اُس سے بھی زیادہ سے حاصل کی ہر چند ظاہراً یہ کام فضول معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو مقتضائے احتیاط یہی تھا کہ اس کی توضیح اس مثال سے ہوسکتی ہے کہ کسی بیمار کو کسی دوا کی ضرورت ہو اور ایسا مشتبہ شخص اُس کو لا وے جس کا حال معلوم نہ ہو کہ وہ اُس کا دشمن ہے یا دوست ۔ تو وہ اُس دوا کو لے تو لیگا مگر اُس وقت تک اُس کا استعمال نہ کرے گا جب تک کئی حکیموں کی زبانی معلوم نہ ہو کہ وہ وہی دوا ہے جو اُس کے مرض کے لئے مفید ہے اسی طرح محدثین نے بھی جب دیکھا کہ اشاعت حدیث کرنے والے اہل بدعت بھی بکثرت ہیں اور خلط ملط کی وجہ سے اُن کا امتیاز مشکل ہے اس لئے ایک ایک حدیث کو متعدد طریقوں سے حاصل کرتے جس سے اطمینان ہوجاتا کہ حدیث صحیح ہے اب دیکھئے اشاعت حدیث اعتماد اور صحت کا معیار کم ہوا یا زائد ۔
عدم ِکتابت ِحدیث کی وجہ
قولہ(۱): سب سے زیادہ یہ کہ پوری ایک صدی گذر جانے پر بھی کتابت کا طریقہ مروج نہیں ہوا تھا بات یہ ہے کہ وہ اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا ہر طالب علم کی ہمت ہمہ تن مصروف تھی کہ کمال حاصل کر کے جن حضرات کے حافظے قوی تھے ، وہ اِس فکر میں رہتے تھے جس قدر سبق زیادہ حاصل ہو‘ بہترہے، چنانچہ ابھی معلوم ہوا کہ تحصیل حدیث کے زمانہ میں کھانا پکانا نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس لئے لکھنے کے وقت کو بھی تحصیل حدیث ہی میں وہ صرف کرتے تھے وہ جانتے تھے کہ اگر حدیثوں کو لکھ لیں اور دفتر گم ہو جائے تو کل محنت برباد ہوجائیگی اس لئے وہ ہمیشہ حدیثوں کو ازبر کرنے کی کوشش میں رہتے اور طبیعت کو لکھنے کی عادی ہی نہیں بناتے تھے ۔اس وقت کے محدثین نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا ہے کہ جب تک لکھنے کا طریقہ نہیں تھا حافظے قوی تھے ۔ اور جب سے اس طریقہ کی بنیاد پڑی حافظوں میں ضعف آگیا ۔ اور تعجب نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا ’’لا تکتبوا عنی ‘‘یعنی احادیث مت لکھا کرو اُس میں جہاں اور مصلحتیں تھیں ایک مصلحت یہ بھی ہو کہ حدیثیں کل محفوظ رہیں ۔ کیونکہ لا تحفظوا عنی تو فرمایا ہی نہیں۔ بلکہ بجائے اس کے فلیبلغ الشاھد الغائب کہہ کر تاکید فرما دی کہ حدیثیں یاد رکھ کر اُن کی اشاعت کرو ۔ اس حفظ کی بدولت علاوہ احادیث کے جرح و تعدیل میں جو کچھ اساتذہ سے سنتے تھے ، ہر وقت اُن کے پیش نظر رہتا تھا جس محدث اور راوی سے کوئی حدیث سنتے تو حافظہ اُس راوی کے حالات اور اُس حدیث سے جو امور متعلق ہیں ، سب پیش کر دیتا پھر اپنی ذاتی تحقیق علاوہ اُس کے ہوتی غرضکہ شدہ شدہ اُن کے حافظے کتب خانے اور وہ
حضرات خود ناطق کتابیں ہوگئے تھے جیسا کہ ابن تیمیہ نے رفع الملام میں لکھا ہے ’’فکانت دواوینھم صدورھم التی تحوی اضعاف ما فی الدواوین و ھذا امر لا یشک فیہ من علم القضیۃ ‘‘ یعنی قدما ء کے پاس اگرچہ کتابیں نہ تھیں مگر اُن کے سینوں میں ان کتابوں سے کئی حصے زیادہ حدیثیں جمع تھیں ۔ اور یہ ایسی بات ہے کہ کوئی واقف شخص اس میں شک نہیں کرسکتا انتہی ۔ اس سے بہت بڑا فائدہ ہوا کہ جو روایت وہ کسی سے سنتے فوراً سمجھ جاتے کہ وہ روایت صحیح ہے یا ضعیف و موضوع وغیرہ ۔ اس وجہ سے جعلساز اُن کے روبرو اپنی روایتیں پیش کرنے سے خوف کرتے تھے ۔ ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ اُن حضرات کے حافظہ سے تصحیح احادیث میں جس قدر مدد ملی ممکن نہیں کہ کتابت سے مل سکتی۔ اُس سے اتنا ہی ہوتا کہ ہر قسم کی روایتوں کا ذخیرہ فراہم ہو جاتا جس کو صحت وغیر صحت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ کتابت کی وجہ سے حافظوں میں ضعف آجاتا جس سے روایت لینے کے وقت نہ راوی کے حال کا علم ، نہ رجال اسناد کی خبر ، نہ یہ معلوم کہ دوسرے اساتذہ کِن الفاظ سے اس حدیث کو راویت کرتے ہیں الحاصل اسباب حفاظت احادیث صحیحہ میں ایک قوی سبب یہ بھی ہے کہ اوائل میں صرف حافظہ ہی سے یہ کام متعلق رہا گویا من جانب اللہ یہ حفاظت ہوئی کہ مدتوں کسی کو لکھنے کا خیال ہی نہ آیا اور جب ایک سو سال کی کوششوں سے صحیح صحیح حدیثیں جمع ہوگئیں تو اُس وقت لکھنے کی اجازت ملی ۔
اب دیکھئے باوجودیکہ حفاظت احادیث صحیحہ جو قوت حافظہ سے ہوئی ، کتابت سے ممکن نہ تھی مگر مولوی صاحب اُسی کو سب سے زیادہ مضر بتلاتے ہیں ۔
قولہ (۱): ان اسباب سے روایتوں میں اس قدر بے احتیاطیاں ہوئیں کہ موضوعات اور اغالیط کا ایک دفتر بے پایاں تیار ہوگیا انتہی ۔ؔ
موضوعات سے ہمارا مذہب محفوظ ہے
یہ درست ہے اگر کل فرق باطلہ سے قطع نظر کر کے صرف روافض ہی کی کتابیں دیکھ لی جائیں تو ایک دفتر بے پایاں پیش نظر ہوجائیگا ۔ مگر اُس سے ہمارے محدثین کو کیا تعلق ہر ایک فرقہ کے یہاں اُن کے مخترعات کا دفتر رکھا ہوگا ہماری یہاں تو وہی حدیثیں محفوظ چلی آ رہی ہیں جن کی حفاظت میں ہزارہا محدثین قرناً بعد قرنِِ مصروف رہے ۔ البتہ اہل بدعت کے خلط ملط سے متا خرین کی کتابوں میں چند موضوع حدیثیں داخل ہوگئیں ۔ جس کو محدثین نے چھانٹ کر الگ بھی کر دیا۔ چنانچہ موضوعات کی کتابوں میں وہ لکھی جاتی ہیں اور ان میں بھی بہت سی حدیثیں ایسی ہیں کہ محققین نے اُن کو موضوعات سے خارج کر دیا ۔ اگر یقینی موضوعات دیکھی جائیں تو سو دو سو سے زیادہ نہ ہوں گی ۔
غرضکہ موضوعات اور اغالیط کا دفتربے پایاں اہل سنت و جماعت کے یہاں تیار ہوجانا غلط محض ہے ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود‘ جامع سے
قولہ (۲):امام بخاری نے صحیح حدیثوں کو جدا کرنا چاہا تو کئی لاکھ حدیثوں میں صرف دو ہزار کئی سو ملیں انتہی ۔
یہ عجیب بات ہے کہ صحابہ نے بڑے اہتمام سے تمام حدیثیں پہونچا دیں اور تابعین نے نہایت شوق سے اُن کو لیا او رتبع تابعین وغیرہم قرناً بعد قرن بڑی جانفشانیوں سے اُن کو حاصل کر کے حفاظت کرتے رہے اور خود امام بخاری بھوکے پیاسے تمام اسلامی دنیا میں تحصیل کی غرض سے ایک مدت دراز تک پھرا کئے اور مرمر کے جو حاصل کیا سو دو ہزار
کیونکہ دوسری حدیثیں تو بیکار ہوگئیں ۔
معلوم نہیںمولوی صاحب سے کس نے کہدیا کہ جامع لکھنے سے مقصود امام بخاری کا صحیح حدیثوں کو جدا کرنا تھا فتح الباری میں امام بخاری کا قول نقل کیا ہے کہ جامع میں‘ میں نے وہی حدیثیں داخل کیں جو صحیح ہیں اور بہت سی صحیح حدیثوں کو اِس خیال سے چھوڑ دیا کہ کتاب بڑی ہوجائیگی۔ اگر اُن کا یہ مقصود ہوتا جو مولوی صاحب نے سمجھا ہے تو اپنے جامع کو لا کھ حدیثوں کا مجموعہ بناتے کیونکہ فتح الباری وغیرہ میں اُن کا قول مصرح نقل کیا ہے کہ لاکھ صحیح حدیثیں مجھے یاد ہیں ۔ یہ تو اُن کو یادتھیں اور اُن کے استاد امام احمدؒ کو سات لاکھ سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں جیسا کہ تدریب الراوی وغیرہ میں لکھا ہے ۔
قولہ(۱): سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں حدیثیں دانستہ لوگوں نے وضع کرلیں ۔ حماد بن زید کا بیان ہے کہ چودہ ہزار حدیثیں صرف ایک فرقہ زنادقہ نے وضع کرلیں ۔ عبدالکریم وضاع نے خود تسلیم کیا تھا کہ چار ہزار حدیثیں اُس کی موضوعات سے ہیں انتہی ۔
ابھی معلوم ہوا کہ جتنی حدیثیں فرق باطلہ کے لوگوں نے وضع کیں ، وہ انہیں میں رہیں یا تلف ہوگئیں ۔ ہمارے محققین نے اُن کو رد کر دیا اور صاف کہدیا کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ حماد جو چودہ ہزار کی تعداد بتلا رہے ہیں ، اسی سے معلوم ہوتا ہے اُن موضوعات کو علماء نے متعین اور ممتاز کر کے گن لیا تھا ایسے موضوعات لاکھوں ‘ہوں تو ہمارا کوئی نقصان نہیں ۔
رہا عبدالکریم کا اقرار کہ چار ہزار حدیثیں اُس کی بنائی ہوئی ہیں ۔سو وہ قابل اعتبار نہیں اس لئے کہ اس خبر سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مخرب اور بدخواہ دین ہے ،ایسے شخص کی خبر خصوصاً اس قسم کی کہ جس سے دین میں رخنہ پڑجائے ہرگز قابل اعتبار نہیں ،یہ تو مفسدوں کی عادت ہے کہ اقسام کی تدبیریں سوچتے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور سے دین میں احتمالات پیدا کردیں، کبھی محدثوں کے لباس میں آ کر فسادپھیلاتے ہیں ، کبھی فقہاء کے طرفدار ہو کر
حدیثوں کو ساقط الاعتبار کرنا چاہتے ہیں ،کبھی حکم بن کر دونوں کو تباہ کرنے کی فکر کرتے ہیں؟
عبدالکریم نے جب دیکھا کہ محققین کے روبرو موضوع حدیثوں کی قلعی کھل جائے گی اس لئے حدیثیں بنانے کی زحمت کو بے فائدہ خیال کر کے کہدیا کہ چار ہزار حدیثیں میں نے وضع کی ہیں، تاکہ کم مایہ اور کم عقل مسلمانوں کے دل میں کچھ نہیں تو شبہ ہی پیدا ہوجائے اور بے دینوں کو دستاویز مل جائے ،کہ اسلام میں کوئی بات قابل اعتبار نہیں ۔ اگر فی الواقع اُس نے حدیثیں بنائی تھیں تو علماء کے روبرو پیش کر دیتا کہ یہ رواتیں جو محدثین کے یہاں دائر و سائر ہیں ، میری بنائی ہوئی ہیں اور اُس کو محدثین تسلیم بھی کرلیتے تو ایک بات تھی ۔ ابھی معلوم ہوا کہ ایک ایک حدیث اُس زمانہ میں سو سو طریقوں سے لی جاتی تھی ، تو بتائیے کہ ایک غیر
متدین شخص کی بنائی ہوئی حدیثوں کو کس نے مانا ہوگا ۔ غرضکہ عبدالکریم کی طرف سے کوئی شہادت پیش نہیں ہوئی کہ فی الواقع اُس کی طرف سے دین میں رخنہ پڑگیا ، پھر ایسے مخالف شخص کا یہ اقرار کہ میں نے دین میں رخنہ ڈالدیا، مسلمانوں کے ضرر پر کیوں کر قابل سماعت ہوسکتا ہے بلکہ وہ درحقیقت مجرد دعوے ہے ، جو نہ شرعاً قابل قبول ہے نہ قانوناً نہ عرفاً۔
قولہ(۱) بہت سے ثقات اور پارسا تھے جو نیک نیتی سے فضائل اور ترغیب میں حدیثیں وضع کرتے تھے ۔ حافظ زین الدین عراقی لکھتے ہیں کہ ان حدیثوں نے بہت ضرر پہونچایا، کیونکہ اِن واضعین کے تفقہ اور تورع و زہد کی وجہ سے یہ حدیثیں اکثر مقبول ہوگئیں، اور رواج پاگئیں ۔
(۱)مولوی شبلی نعمانی کا قول۔
(۱)مولوی شبلی نعمانی کا قول۔(۲)
مولوی شبلی نعمانی کا قول۔