آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دُنیا سے بے رغبتی:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دُنیا سے بے رغبتی:
منقول ہے کہ ایک دن حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی: ”وَمَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّمَا تَتْلُوۡا مِنْہُ مِنۡ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوۡنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّاکُنَّا عَلَیۡکُمْ شُہُوۡدًا اِذْ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ ترجمۂ کنز الایمان: اور تم کسی کام میں ہواوراس کی طرف سے کچھ قرآن پڑھو اور تم لوگ کوئی کام کرو ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس کو شروع کرتے ہو۔”(پ۱۱، یونس:۶۱) تو اس شدت سے گریہ وزاری کرنے لگے کہ گھر والوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز سن لی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ حضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا حاضر ہوئیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رونے کے سبب بیٹھ کر خود بھی رونے لگیں۔ پھر ان دونوں کے رونے کی وجہ سے تمام گھروالے بھی رونے لگے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے عبد الملک نے آ کر دیکھا کہ سب رو رہے ہیں تو عرض کی: ”اے ابا جان! کس چیز نے آپ کو رُلا دیاہے ؟” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: ”اے میرے بیٹے! تیرے باپ کی خواہش تھی کہ نہ وہ دنیا کو پہچانے اور نہ ہی دُنیا اس کو پہچانے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اب تومجھے ڈر ہے کہ کہیں جہنمیوں میں نہ ہو جاؤں۔”
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الرقۃ والبکاء، الحدیث۹۱، ج۳، ص۱۸۷)
اے اسلامی بھائی! حضرت سیِّدُناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ عادل ہونے کے باوجود اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس قدر ڈرتے تھے اور تو ظلم وسِتم کرنے کے باوجود اس قدر نڈر ہوچکا ہے۔ اے وہ شخص جو تقدیر سے بے خوف ہے اور جس کے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئے کوئی عذر نہیں!غور سے سن! وصال کے بارہ سال بعدآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں دیکھا گیاتو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”ابھی ابھی حساب سے فارغ ہوا ہوں۔”
حضرت سیِّدُنا عطا علیہ رحمۃ ربّ ِ العُلٰی فرماتے ہیں کہ ”حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر رات فقہاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو اکٹھا کرتے اور موت ،قیامت اور آخرت کی باتیں ہوتی رہتیں اور سب اس طرح روتے رہتے گویا ان کے سامنے کوئی جنازہ حاضر ہے۔”
(تاریخ دمشق ،الرقم۵۲۴۲عمر بن عبد العزیز،ج۴۵،ص۲۳۹۔تاریخ الخلفاء للسیوطی،عمر بن عبد العزیز،ص۱۹۱)
حضرت سیِّدُنا ابن حبان رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”میں نے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے صبح کی نماز اداکی ۔آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَقِفُوۡہُمْ اِنَّہُمۡ مَّسْئُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾ ترجمۂ کنز الایمان :اور انہیں ٹھہراؤ ان سے پوچھنا ہے۔”(پ۲۳،الصّٰفّٰت:۲۴)(۱) پھر اس کو دہراتے رہے یہاں تک کہ بہت زیادہ رونے کی وجہ سے اس سے تجاوز نہ فرماسکے۔”
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا،کتاب الرقۃ والبکاء،الحدیث۹۴،ج۳،ص۱۸۸)
1 ۔۔۔۔۔۔مفسرشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل، سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت ۔۔۔۔۔۔بقیہ اگلے صفحہ پر