اسلاممقاصد الاسلام

{ضرورت ترک لواز م بشریت برائے ترقی }

{ضرورت ترک لواز م بشریت برائے ترقی }

اگر پہلے لوازم و خصوصیت باقی رہیں تو کوئی چیز نہیں بن سکتی ، اسی وجہ سے اگر کوئی شخص کمال حاصل کرنا چاہے تو اس کولازمی ہوگا کہ اپنی سابقہ حالت کے لوازم و آثار کو دور کردے ۔مثلاًطالب علم اگر عالم بننا چاہے تو جتنے لوازم و آثار جہالت کے ہیں جیسے تضئیع اوقات ،سستی ،کاہلی ،خود پسندی وغیرہ جب تک ترک نہ کردے عالم نہیں بن سکتا ۔ جس طرح تقول کا (ت) جو لوازم مضارع سے ہے جب تک دور نہ کیا جائے وہ امر نہیں بن سکتا ۔ اسی پر ہر قسم کے ترقیات کو قیاس کر لیجئے ،مثلاً جب تک لوازم و رسوم بشریت فنا نہ ہوںمَلَکیت میں گزر ممکن نہیں ۔
الغرض ’’تقول ‘‘کا (ت) امر بنانے کے لئے حذف کیا گیا ہے اب رہ گیا قول ،مگر یہ خیال نہ کیا جائے کہ اب وہ مصدر بن گیا اس لئے کہ فرع اپنی اصل نہیں بن سکتی ،اور قطع نظر اس کے قول کا تو پڑھنا ہی ممکن نہیں کیونکہ ابتداء بسکون محال ہے ۔ اس پر کھلی دلیل یہ ہے کہ جب تک ہم عدم میں تھے ساکن تھے کسی قسم کی حرکت ہم میں نہ تھی، پھرجب حق تعالیٰ کو منظور ہوا کہ ہم وجود میں آئیں تو ’’کن ‘‘ کا ارشاد ہوا جس سے ہم میں ابتداء اً کسی قسم کی حرکت پید اہوئی ،پھر پیا پے حرکات شروع ہو گئیں کہ آج ’’علقہ ‘‘ بنا کل ’’مضغہ ‘‘ وغیرہ یہاں تک کہ پورے انسان بن گئے ۔ اگر وہ ابتدائی حرکت نہ ہوتی اور سکون ہی سکون ہوتا تو ہم اس درجہ تک کبھی نہ پہونچ سکتے
الغرض ابتداء بسکون ہونے کی وجہ سے صیغہ ء امر کا وجو د ممکن نہ تھا اس لئے اس کے پہلے ایک متحرک حرف لانے کی ضرورت ہوئی ،اور وہ حرف ایسا تجویز کیا گیا عالم حروف یعنی منہ میں سب سے پہلے اس کا وجود ہو جو حلق کے انتہائی حصے سے نکلتا ہے ۔ جس طرح ابتداء بسکون محال ہونے کی وجہ سے ممکن نہ تھا کہ قول ظہور میں آئے،اسی طرح عالَم جو سکو ن عدم میں تھا بوجہ سکون ممکن نہ تھا کہ موجود ہوسکے ۔ اس لئے پہلے اسی عالَم میں سے ایک مقدس ذات کو متحرک فرمایا یعنی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور مبارک کو جس کو تمام عالم پر ایسا تقدم ہے جسیے ہمزہ کو عالم حروف پر،اگر ہمزہ قول کے پہلے نہ لا یا جا تا تو قولکا عالم حروف میں ظہور محال تھا ،اسی طرح اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نور مبارک متحرک نہ ہو تا تو عالم کا ظہور محال تھا جیسا کہ حدیث شریف لولاک لما خلقت الا فلاک سے ظاہر ہے ۔ اور جس طرح ہمزہ کی کوئی شکل نہیں جیسا کہ کتب صرف میں مصرح ہے کہ کبھی بشکل واو لکھاجا تا ہے اور کبھی بشکل یا وغیرہ ،اسی طرح مقدس نور کی کوئی شکل نہیں جیسا کہ اس حدیث شریف سے مستفادہے انا من نور اللّٰہ وکل شی ء من نوری ۔ غرضکہ اس متحرک ہمزہ نے گویا صیغہ ،امر کو وجود بخشا جس طرح اس مقدس نور نے عالم امکان کو ۔ بہر حال اب وہ لفظ اُقُول بنا، مگر چونکہ واو خود دو ضموں سے بنتا ہے اس لئے ضمہ اس پر ثقیل تھا ما قبل کو نقل کرکے دیا گیا اب وہ اقول ہوا ۔ چونکہ متکلم کو حکم کرنے کے وقت یہ جلدی ہوتی ہے کہ مخاطب اس کام کو جلد بجالائے اس جلدی کا یہ اثر ہے کہ وہ اتنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ صیغہ ء امر کے آخر میں حرکت باقی رہے کیونکہ حرکات زیر ،زبر ،پیش ،ہیں اور یہ بھی چھوٹے حروف ہیں اس لئے دو زبر کا الف اور دو پیش کاواو اور دو زیرکی یا ہوتی ہے،متکلم کا مقصود اس وقت یہی ہوتا ہے کہ جہاں تک ہوسکے کلمہ مختصر ہوجائے اورآپ ساکت اور ساکن ہوکر مخاطب کو متحرک کر دے ، اس لئے آخر کلمہ کی حرکت کواور جو حروف کہ حرکت کے امتدا د سے پیدا ہو تے ہیں یعنی الف اور واو اور ی کو دور کرکے کلام کو جلد ختم کر دیتا ہے جب وضع امر سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امر کے وقت متکلم کا یہ مقصود ہوتا ہے کہ اتثال امر میں دیر نہ ہوتو جو

عقلاء ہیں اتثالِ امر میں بہت جلد مصروف ہو جا تے ہیں ،خصوصاً ان لوگوں کے اتثال امر میں جن کے حکم کو قابل امثال سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے عملہ میں جولوگ عقلمند ہو تے ہیں وہ اپنے حاکم بالا دست کا امر ہو تے ہی فوراً اس کی تعمیل کر تے ہیں اور حکام کی نظروں میں بھی ایسے ہی لوگ باوقعت اور قا بل ترقی ہو تے ہیں ۔ جب حکام مجازی کے احکام بجالانے کا یہ حال ہو تو أحکم الحا کمین کے حکموں کی تعمیل میں کس قدر جلدی کرنی چاہئے اور جولوگ ان احکام کو عمدگی اور سرگرمی سے بجا لاتے ہیں ان کے مدارج کی ترقی کس درجہ ہوتی ہوگی ۔
الحاصل اس ضرورت سے امر کے آخر میں سکون آگیا اب اقول بنا ء دو ساکن ایک جگہ جمع ہوئے ،ایک ساکن حدف کیا گیا کیونکہ دوساکنوں کے ملنے سے کوئی کام نہیں ہوسکتا ،اگر ایک ساکن ہو اور دوسرا متحرک ہوتو متحرک کے طفیل میں ساکن بھی کچھ کرلے گا جس طرح نا بینا دیکھنے والے کے طفیل میں منزل مقصود تک پہونچ سکتا ہے ، اور اگر دونوں اندھے اور راستہ سے نا واقف ہوں تو کبھی نہیں پہو نچ سکتے ۔ آپ جانتے ہیں کہ عدم میں جتنی چیزیں ہیںخواہ و ذوات ہوں یا افعال ان کو کسی قسم کی حرکت نہیں ،سب کے سب عدم آباد میں ساکن ہیں جو خداے تعالیٰ کی پیش نظر ہیں ، جب تک ان کو قادر مطلق کن کہہ کر حرکت نہ دے کبھی حرکت ان کو نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ حق تعالیٰ جو خالق عالم ہے اس نے خبردی ہے کہ جب کسی چیز کو ہم پیدا کر نا چاہتے ہیں
تو اس کو کن کہہ دیتے ہیں اور وہ وجود میں آجا تی ہے کمال قال تعالیٰ انما قولنا لشیء اذا اردنا ہ ان نقول لہ کن فیکون اس سے ظاہر ہے کہ عدم سے وجود میں لانے کی تحریک قدرت سے ہو تی ہے ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ بندے کی قدرت خود بالذات موجود نہیں اس لئے کہ خود بندہ ہر حال میں خالق کا محتاج ہے جیسا کہ حق تعالیٰ فر ما تا ہے انتم الفقراء الی اللّٰہ تو اس کی حرکت بغیر تحریک خالق کے کیونکر ہوسکے !!غرض بندے کی قدرت بھی ساکن ہے اور معدومات بھی ساکن ، اس لئے عقلاء ایک ساکن کو یعنی بندے کی قدرت کو حذف کر دیتے ہیں کیونکہ التقائے ساکنین سے کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی ، اور بندے کو صرف کا سب اور خدائے تعالیٰ کو خالق افعال سمجھتے ہیں ۔ غرض کہ التقائے ساکنین سے واو گرگیا اور ’’ اُقُل‘‘ ہوا ۔ چونکہ قاف متحرک ہو چکا تھا اس لئے اب ہمزہ کی ضرورت نہ رہی اور وہ حذف کر دیا گیا اور ’’قل ‘‘ باقی رہ گیا ۔
اگر چہ تقریر بظاہردل لگی سی معلوم ہو تی ہے کیونکہ صرفی مباحث میں الہیات و اخلاقی مسائل کی جوڑ لگا دی گئی ہے ،مگر اہل بصیرت جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں اسیے امور کی تعلیم دی گئی ہے ،چنانچہ اس آیت شریف سے مستفادہے فا عتبرو ا اولی الابصار دیکھئے کل عقلمندوں اور اہل بصیرت کو عبرت حاصل کرنے کا حکم ہو رہا ہے ۔ جن کی نظر اصول لغت پر ہے وہ جانتے ہیں کہ جس لفظ میں (ع ب ر ) ہو اس میں عبور اور تجاوز کے معنی ضرور ہوں گے ،دیکھئے ’’معبر‘‘ رہگزر کو کہتے ہیں جہاں آدمی ٹھر نہیں سکتا اورعبور کے معنی اس پار اتر جا نے کے ہیں ۔ اسی طرح عرب کا نام بھی ’’عرب‘‘ اس وجہ سے رکھا گیا کہ وہ ایک جگہ مقیم نہیں رہتے تھے اسی طرح کل تقالیب میں تجاوز کے معنی ہیں ۔ اب اعتبار کی حقیقت پر غور کیجئے کہ وہ کیا چیز ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں قارون ،فرعون ، ہامان ، شداد،نمرود،بنی اسرائیل وغیرہ اشخاص وقوام کے بہت سے قصے مذکور ہیں ۔ اور یہ بھی ہر عاقل جانتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی شان نہیں کہ گزشتہ لوگوں کے قصے کہا نیاں بیان کرے ،بلکہ کلام الٰہی کی شان یہ ہے کہ جو بات ہو اس میں بندوں کی ہدایت اور بہبودیِ دارین رکھی ہو ۔ اس سے یہ ماننا پڑے گا کہ جتنے قصے قرآن شریف میں مذکور ہیں سب سے مقصود یہی ہے کہ اس قسم کے کام اگر ہم کریں تو ہمارا نجام بھی وہی ہوگا جو ان کاہوا ہے ، اس سمجھ کا نام’’عبرت ‘‘ہے ۔
پس اس سے یہی ثابت ہوا کہ جو واقعہ سنا جائے اس سے عبور کر کے دوسری طرف نظر ڈالی جائے اور ایک نیا مضمون پیدا کیا جائے ، مثلاً قارون کے قصے سے یہ عبرت ہونی چاہئے کہ جو شخص مال کے ساتھ اتنی محبت رکھے اور دین کے کاموں میں اس کو صرف نہ کرے تو اس کا انجام ہلاکت اور عذاب ہے ۔ غالباً ایسے لوگ بھی ہوں گے کہ تمام قرآن کے قصے پڑھتے اور بار بار واعظوں سے سنتے اور کتا بوں میں دیکھتے ہوں گے مگر حاتم طائی وغیرہ کے فرضی قصوں سے زیادہ دلچسپی اس میں ان کو نہیں ہوتی ہوگی ۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کے قصے اورفرضی قصے صرف دلچسپی کے لحاظ سے سنے جا تے ہیں ۔ مثلاً اگر

قارون کا قصہ بطور عبرت سنا یا جائے تو ممکن نہیں کہ اہل ایمان کو مال کے ساتھ ایسا تعلق رہے کہ دینی امور میں نہ صرف کریں ۔ اسی طرح فرعون وغیرہ کے قصوں سے اگر عبرت حاصل کی جائے تو آدمی متقی ہو جائے۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں :
آنچہ در فرعون بود آں د ر تو ہست
لیک اثر درہات محبوس تو ہست
اے دریغ آں جملہ احوال تو ہست
تو براں فرعون بر خواہش بست
آنچہ گفتم جملگی احوال تست
خود نہ گفتم صد یکے زانہا د رست
گر ز تو گو یند ہ وحشت ز ایدت
وز ز دیگر آں فسانہ آیدت
حاصل یہ کہ صفات فرعون وغیرہ آدمی میں موجود ہیں آدمی کو چاہئے کہ ان سے پر ہیز کرے ،ورنہ اُنہیں سزائوں کا مستحق ہوگا جو اُن لوگوں کو دی گئی تھیں ۔
ایک بزرگ راستہ سے جا رہے تھے سنا کہ لکڑی بیچنے والا کہہ رہا ہے الخیاربعشرۃ یعنی لکڑی کھیر دس پیسہ کو !یہ سنتے ہی ان کی حالت متغیر ہو ئی اور یہاں تک نو بت پہنونچی کہ بیہوش ہو کر گر پڑے دیر کے بعد جب ہوش آیا اور لوگوں کو دیکھا کہ بیہوشی کی وجہ تلاش کر رہے ہیں فرمایا کہ جب اس شخص سے میں نے سنا کہ بآواز بلند سر بازار کہہ رہا ہے کہ خیار دس پیسہ کو تو میرے خیال میں بات جمی کہ ’’خیار‘‘ یعنی اچھے لوگوں کی جب یہ حالت ہو تو ’’شرار ‘‘کو کون پوچھے اپنے اعمال کا نقشہ میرے پیش نظر ہو گیا جس سے میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا اور بے ہوشی طاری ہو گئی ۔ دیکھئے الخیار بعشرۃ سے وہ حضرت عبور کر کے کہا ں پہونچ گئے ! حالانکہ دونوں میں سوائے لفظی مناسبت کے کوئی معنوی منا سبت نہیں ۔ سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
نہ گویند از سر با زیچہ حرفے
کزاں پندے نہ گیرد صاحب ہوش
لطائف اشرفی میں لکھا ہے کہ علی کرم اللہ وجہ نے ایک روز ناقوس کی آواز سنی لوگوں سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ؟لوگوں نے عرض کی نہیں ،فرمایا : یہ کہتاہے سبحا ن اللہ حقاً حقا ان المولی یبقیٔ ۔
یہ بات تو معلوم ہوئی کہ قول مصدر ہے اسی سے تمام صیغے بنتے ہیں ،مگر یہ نہیں معلوم ہوا کہ سبب کیا ہے ؟ بات یہ ہے کہ مصدر کے ساتھ ایک خاص نسبت متعلق ہو جا تی ہے جس سے خاص معنی پیدا ہو تے ہیں جو نام کے بدلنے کے باعث ہو تے ہے مثلاً قول کے معنی (کہنا ) ہیں اس کے ساتھ یہ نسبت لگی کہ کہنا زمانہ گزشتہ میں واقع ہوا ، اس کانام ماضی ہوا اوراس کے لئے صورت بھی ایک خاص قسم کی پیدا ہوئی یعنی قال ،غرضکہ قال وہی قولہے جس کے ساتھ نسبتِ مذکورہ ہے ۔ اور اسی قول میں جب یہ نسبت ملحوظ ہوئی کہ حال و استقبال میں اس کا وقوع ہے تو اس کا نام مضارع ہوا اور صورت یقول بنی ، کا مطلب یہ ہوا کہ یقول صرف قول ہے مگر نسبت مذکورہ کے لحاظ سے ۔ علیٰ ہذاالقیاس قائل میں بھی وہ ہی قول ہے ، جس کے ساتھ یہ نسبت ملحوظ ہے کہ قول کو کسی شخص کے ساتھ قسم کی نسبت ہے کہ قول اس میں پایا جا رہا ہے جس سے معنی من لہ القول کے صادق آتے ہیں ۔بہر حال جتنے مشتقات ہیں سب میں وہی قول دائر اور سائر ہے گو صورتیں جدا جدا ہیں ۔ اب اگر کہئے کہقول کا ظہور قال یقول وغیرہ میں ہوا اور وہ مصدر کے مظاہر ہیں تو بے موقعہ نہ

ہوگا کہ آخر مصدر ہی میں وہ تمام نسبتیں ملحوظ ہیں جو یہ تمامم صو رتیں پیدا کر رہی ہیں ۔ اب اگر ان نسبتوں کودیکھئے تو نہ قول کی ذات میں دخل ہیں نہ مشتقات کی ذاتوں میں ، کیونکہ نسبت غیر مستقل چیز ہے جو متسبین کے درمیان ہوتی ہے ،حالانکہ مشتقات مستقل صیغے ہیں مگر ہوا یہ کہ نسبت غیر مستقلہ نے ان کی مستقل صورتیں بنا دیں ۔
اسی قسم کی تقریر کلیات میں بھی ہو سکتی ہے ،مثلاً حیوان فی حد ذاتہ ٖ ایک ہے اس میں کسی قسم کی کثرت نہیں ،کیونکہ معنی سے صاف ظاہر ہے کہ جب اس کا اطلاق ہوگا ایک ہی شخص پر ہوگا ،اگر دو پر اطلاق ہوتو ’’حیوانان‘‘ اور کثیر پر ہو تو ’’حیوانات ‘‘کہیں گے ۔ اب یہ دیکھنا چاہئے کہ حیوان کے ساتھ جو فصول لگتے ہیں وہ اس کے اوصاف ہیں یا کوئی مستقل چیزیں ہیں ؟ !یہ ہر گز سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ مستقل چیزیں ہیں ، بلکہ ظاہر ہے کہ نطق مثلاً ایک صفت ہے جس طرح علم وغیرہ ، اسی طرح ہندی رومی وغیرہ بھی صفات ہیں ۔ غرضکہ کوئی صفت داخل نفس شئے نہیں ہو سکتی ‘جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ نطق وسمع و علم وغیرہ صفات ہیں تو کیا وجہ کہ نطق تو انسان کی ذات میں داخل ہو اور علم وغیرہ اس سے خارج رہیں ۔
بہر حال حیوان ایک چیز ہے اس کے ساتھ کبھی نطق کا لحاظ ہوتا ہے کبھی دوسری صفات کا ،اور جس صفت کا لحاظ ہواگا ایک نام اس پر آجائے گا ۔ مثلاً نطق کالحاظ ہوگا تو اس کوآدمی کہیںگے ۔ اور اس صفت کا مدار ایک نسبت پر ہوگا ۔ مثلاً علم ایک خاص نسبت ہے جو عالم ومعلوم کے درمیان سے ہے جس کی وجہ سے ایک کو عالم اور دوسرے کو معلوم کہتے ہیں ۔ اسی طرح حیوان اور نطق میںایک خاص نسبت ہے جس کی وجہ سے اس کو ناطق کہتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے سے جانور ،لکڑی ،پتھر بات کر تے تھے یہی نسبت ان میں پائی گئی اس لئے ان پر بھی ناطق کا اطلاق ہوا ۔ اس سے یہ
بھی معلوم ہوا کہ گو ناطق صفت ہے مگر اسی وقت تک کہ آدمی بات کر تا رہے اور جب بات کرنا موقوف کرکے کسی کی بات سننے لگا تو اس کو سامع کہیں گے ۔ علی ہذا القیاس دوسری صفات ۔ اب وقت واحد میں صرف اس لحاظ سے کہ کسی وقت اس نے بات کی تھی یا سنی تھی اس کو ناطق اور سامع کہنا مجازاً ہوگا حقیقتہً ناطق اسی وقت سمجھا جائے گا جب تک کہ بات کر رہا ہو ۔
کلام اس میں تھا کہ قول واحد شخصی ہے جو قال یقول قائل وغیرہ میں ظہور کر رہا ہے ۔ مگر یہ خیال نہ کیا جائے کہ جس طرح پانی کو زے وغیرہ میں ہو تا ہے اسی طرح قول ماضی وغیرہ میں ہے ، اس لئے کہ کوزہ مستقل چیز ہے اور پانی بھی مستقل ہے ، ایسی صورت کو حلو ل کہتے ہیں ۔ اور یہاں یہ بات نہیں ہے ، اس لئے کہ قول کی ان صورتوں میں فقط حیٔت بدل رہی ہے ، جیسا کہ ضحک کی وجہ سے انسان کی حیٔت بدل جا تی ہے جس کی وجہ سے اس کو ضاحک کہتے ہیں ،یہ نہیں ہوتا کہ انسان ضاحک میں حلول کر گیا ہے ۔
جب یہ معلوم ہوا کہ قول ہذاتہ موجود اور بلاتغیر و تبدیل سب میں دائر و سائر ہے کیونکہ یہ نہیں کہہ سکتے کہقول کا ظہور جب تک قال میں ہے یقول میں نہیں، بلکہ یقینا کہا جا تا ہے کہ ہر وقت پوریقول کا ظہور قال یقول وغیرہ کل مشتقات میں یکساں ہے تو اس موقعہ پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ الکل فی الکل یعنی قول سب مشتقات میں ہے البتہ ہرایک مظہر کی خصوصیات جدا گانہ ہے ، مثلاً قائل سب زبانوں سے آزاد ہے ،مگر ایسی ذات کا محتاج ہے جس میں قول پایا جاگ ئے ، اور قال یقول زمانوں کے ساتھ مقید ہیں ۔ علی ہذا القیاس کل مشتقات کسی نہ کسی چیز کے محتاج ہیں ۔ اورقول باوجود
یکہ کل مشتقات میں نازل ہے مگر کسی کا محتاج نہیں ۔ بخلاف ان مشتقات کے کہ وہ ہروقت اسی کے محتاج ہیں ، کیونکہ جب تک قول کا وجود ان میں نہ ہو کسی کا وجود نہیں ہوسکتا ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!