اسلامواقعات

صبر و حِلْم و عَفْو

صبر و حِلْم و عَفْو

نبوت کا بو جھ ان اوصاف  کے بغیر بر داشت نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم میں کئی جگہ ان اوصاف کا ذکر آیا ہے۔
فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (۱۳) (مائد ہ، ع ۳)
پس معاف کر ان سے اور در گز ر کر بیشک اللّٰہ نیکی کر نے والوں کو چاہتا ہے۔ (2 )
وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَاۚ- (انعام، ع۴)
اور البتہ بہت رسول تجھ سے پہلے جھٹلائے گئے۔پس وہ جھٹلانے اور ایذاء پر صبر کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو ہماری مدد پہنچی۔ (3 )
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ (۱۹۹) (اعراف، اخیررکوع)
خوپکڑ معاف کر نا اور کہا کر نیک کام کو اور کنارہ کر جاہلوں سے۔ (4 )
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْؕ- (احقاف، اخیر رکوع)
پس تو صبر کر جیسے صبر کر تے رہے اولو العزم رسول اور شتابی نہ کر ان کے واسطے ۔ (5 )

اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ (۱۱۴) (توبہ، ع۱۴)
تحقیق ابر اہیم تھا البتہ دردمند حلم والا۔ (1 )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی ذات کے حق کے لئے کبھی انتقام نہ لیا ، ہاں جب آپ کسی حرمت اللّٰہ کی بے حرمتی دیکھتے تو اللّٰہ کے واسطے اس کا انتقام لیتے۔ ( 2)
نبوت کے دسویں سال جیسا کہ پہلے آچکا ہے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قبیلہ ثَقِیف کو دعوت اسلام دینے کے لئے طائف تشریف لے گئے مگر بجائے رُوبراہ (3 ) ہونے کے انہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو اس قدر اَذیت دی کہ نعلین مبارک خون آلودہ ہوگئے۔ جب آپ وہاں سے واپس ہو ئے توراستے میں پہاڑوں کے فرشتے نے حاضرخدمت ہو کر عرض کی: یامحمد ! آپ جو چاہیں حکم دیں اگر اجازت ہو تو اَخْشَبَیْن ( 4) کو ان پر اُلٹ دوں ۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ ہلاک ہوجائیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللّٰہ تعالٰی ان کی پشتوں سے ایسے بندے پیدا کرے گا جو صرف خدا کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ئیں گے۔ (5)
ہجرت سے پہلے مکہ میں کفار نے مسلمانوں کو اس قدر اذیت دی کہ ان کا پیمانہ صبر لبر یز ہو گیا۔ چنانچہ حضرت خباب بن الا رَت بیان کر تے ہیں کہ ہمیں مشرکین سے شدت وسختی پہنچی۔ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ سر مبارک کے نیچے چادر رکھ کر کعبہ کے سائے میں لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا: آپ مشرکین پر بد عاکیوں نہیں کر تے؟ یہ سن کر آپ اٹھ بیٹھے، چہرہ مبارک سرخ ہو گیا تھا۔فرمایا: تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر لو ہے کی کنگھیاں چلا ئی جاتیں جس سے گوشت پوست سب علیحدہ ہو جاتااور ان کے سر پر آرے رکھے جاتے اور چیر کر دو ٹکڑے کردیئے جاتے۔ مگر یہ اذ یتیں ان کو دین سے بَرگَشْتَہ ( 6) نہ کر سکتی تھیں ۔ اللّٰہ تعالٰی دین اسلام کو

کمال تک پہنچا ئے گایہاں تک کہ ایک سوار صَنْعاء سے حَضْرمَوت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈرنہ ہوگا۔ (1 )
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غزوۂ بدر (رمضان ۲ ھ) سے واپس تشریف لا ئے تو راستے میں مقام صفر اء میں آپ کے حکم سے حضرت علی مر تضیٰ نے نضر بن حارِث بن علقمہ بن کلد ہ بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصی کو قتل کر ڈالا۔نضر مذکور اُن امر ائے قریش میں سے تھا جن کا شغل آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ایذا رسانی اور اسلا م کو مٹا نے کی کو شش کر نا تھا۔ اسی نَضْر کی بیٹی قُتَیْلہ نے جو بعد میں اسلام لائی اپنے باپ کامر ثیہ لکھا جس کے اَخیر میں یہ شعر ہیں :
محمد وَلَاَنْتَ ابْنُ نَجِیْبَۃ مِنْ قَوْمِھَا وَ الْفَحْلُ فَحْلٌ مُعْرِق
اے محمد ! بیشک آپ اس ماں کے بیٹے ہیں جو اپنی قوم میں شریف ہے اور آپ شریف اصل والے مرد ہیں ۔
مَا کَانَ ضَرَّکَ لَوْ مَنَنْتَ وَ رُبَّمَا مَنَّ الَْفَتٰی وَ ھُوَ الْمَغِیْظُ الْمُحْنَق
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کچھ نہ بگڑ تا تھا اگر آپ احسان کر تے اور بعض وقت جو ان احسان کرتا ہے، حالانکہ وہ غضبنا ک اور نہایت خَشْمْنَا ک (2 ) ہو تا ہے۔
وَالنَّضْرُاَقْرَبُ مَنْ اَسَرْتَ قَرَابَۃً وَ اَحَقُّ اِنْ کَانَ عِتْقٌ یُعْتَق
اور نَضْر آپ کے تمام قید یوں میں قرابت میں سب سے زیادہ قریب تھا اور آزادی کا زیادہ مستحق تھااگر ایسی آزادی پائی جائے کہ جس سے آزاد کیا جائے۔
جب یہ شعر حضور سید المر سلین رحمۃ للعا لمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں پہنچے تو ان کو پڑھ کر آپ اتنا روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ ( 3) اور فرمایا کہ اگر یہ اشعار نضر کے قتل سے پہلے میرے پاس پہنچ جاتے تو میں ضرورا سے قُتَیْلَہ کے حوالہ کر دیتا۔ ( 4)
جنگ بَدْرْ کے کچھ دن بعد ایک روز عُمیربن وَہْب بن خلف قرشی جُمَحِیاور صفوان بن امیہ بن خلف قرشی جُمَحِی خانہ کعبہ میں حطیم میں بیٹھے ہو ئے تھے۔ عمیر مذکور شیاطین قریش میں سے تھا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب کو اَذِیت دیا کرتا تھا۔ اس کا بیٹا وہب بن عمیر اسیر انِ جنگ میں تھا۔عمیر وصفوان کے درمیان یوں گفتگو ہوئی:
عمیر: بدر میں ہمارے سا تھیوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے کیا کیا مصیبتیں اٹھائیں ۔ ظالموں نے کس بے رحمی سے ان کو گڑ ھے میں پھینک دیا۔
صفوان: اللّٰہ کی قسم! ان کے بعد اب زندگی کا لطف نہ رہا۔
عمیر: اللّٰہ کی قسم! تو نے سچ کہا۔ اللّٰہ کی قسم ! اگر مجھ پر قرض نہ ہو تا جسے میں ادا نہیں کر سکتا اور عَیَال (1 ) نہ ہوتا جس کے تلف ہو جانے کا اندیشہ ہے تو میں سوار ہو کر محمد کو قتل کر نے جاتا کیونکہ اب تو ایک بہانہ بھی ہے کہ میرا بیٹا ان کے ہاتھ میں گرفتار ہے۔
صفوان: آپ کا قرض میں ادا کر دیتا ہوں ۔آپ کا عیال میرے عیال کے ساتھ رہے گا۔ میں آپ کے بال بچوں کا مُتَکَفِّل ہوں (2) جب تک وہ زند ہ ہیں ۔
عمیر: بس میرے اور آپ کے درمیان۔
صفوان: بسر و چشم۔ ( عمیر کی روانگی کے بعد لوگوں سے) تم شاد ہو کہ چند روز میں تمہارے پاس ایک واقعہ کی خبر آئے گی جس سے تم جنگ بدر کی سب مصیبتیں بھول جاؤ گے۔
(عمیر زہر میں بجھی ہوئی تیز تلوار لے کر مدینہ میں آتا ہے۔ اس وقت حضرت عمر فاروق مسلمانوں کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے جنگ بدر میں مسلمانوں پر خدا کی عنا یات کا ذکر کررہے ہیں ۔ عمیر تلوار آڑے لٹکائے ہوئے اپنی او نٹنی کو مسجد کے درواز ے میں بٹھا دیتا ہے۔)
عمر فاروق: ( عمیر کو دیکھ کر ) یہ کتادشمنِ خدا عمیرکسی شرارت کے لئے آیا ہے۔

رسول اللّٰہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) : اسے میرے پاس لاؤ۔ ( عمیرسے ) آگے آؤ۔
عمیر: آپ کی صبح بخیر ہو۔
رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) : عمیر ! تو نے جا ہلیت کا تحیہ (1 ) کہامگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں تیرے تحیہ سے بہتر عطا فرمایا ہے اور وہ سلام ہے جواہل بہشت کا تحیہ ہے۔
عمیر: یا محمد ! اللّٰہ کی قسم ! یہ تحیہ آپ کو تھوڑ ے دنوں سے ملا ہے۔
رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) : عمیر ! کیونکر آنا ہوا ؟
عمیر: اپنے بیٹے کے لئے جو آپ کے پاس اسیر انِ جنگ میں ہے۔
رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) : پھر گلے میں تلوار آڑ ے کیوں لٹکا ئی ہے۔
عمیر: خدا ان تلوار وں کا براکرے انہوں نے ہمیں کچھ فائدہ نہ دیا۔
رسول اللّٰہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) : سچ بتاؤ کس لئے آئے ہو ؟
عمیر: فقط اپنے بیٹے کے لئے۔
رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) : نہیں بلکہ تو اور صفوان دونوں حطیم میں بیٹھے ہو ئے تھے تو نے مقتولین بدر کا ذکر کیا جو گڑ ھے میں پھینکے گئے پھر تو نے کہا کہ اگر مجھ پر قرض اور بارِ عیال نہ ہوتا میں محمد کو قتل کر نے نکلتا۔ یہ سن کر صفوان نے بار قرض وعیال اپنے ذمہ لیا۔بد یں غرض کہ تو مجھے قتل کر دے مگر اللّٰہ تیرے اور اس غرض کے درمیان حائل ہے۔
عمیر: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے رسول ہیں ۔ یا رسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ہم اس آسمانی وحی کو جو آپ پر نازل ہوئی تھی جھٹلادیا کر تے تھے۔آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے جو بات بتلا ئی وہ میرے اور صفوان کے سوا کسی کو معلوم نہ تھی۔ اللّٰہ کی قسم ! میں خوب جا نتا ہوں کہ خدا کے سوا آپ کو کسی نے نہیں بتا ئی۔ حمد ہے اللّٰہ کی جس نے مجھے اسلام کی تو فیق بخشی اَشْھَدُ اَن لَّا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَ ہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ محمد ا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہ
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (اپنے اصحاب سے ) : تم اپنے بھائی عمیر کو مسائل دینی سکھا ؤاور قرآن پڑھا ؤ اور

اس کے بیٹے کو بھی چھوڑ دو۔ (1 )
حضرت رَافع بن خَدِیْج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کر تے ہیں کہ غزوۂ اَنمار ( ربیع الا وَّل ۳ ھ ) میں ہم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے۔ آپ کی آمد کی خبر سن کر اعراب پہاڑوں کی چو ٹیوں پر چلے گئے۔ غَطَفَان نے دُعْثُور بن حارِث کو جواُن کا سر دار تھا کہا کہ محمد اس وقت اپنے اصحاب سے علیحد ہ ہے تمہیں ایسا موقع نہ ملے گا۔ دُعْثُور تیز تلوار لے کراتر آیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لیٹے ہوئے ہیں وہ تلوار کھینچ کر آپ کے سر پر آکھڑا ہو ا آپ بیدار ہو ئے تو کہنے لگا: ’’ تجھ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ ‘‘ آپ نے فرمایا: اللّٰہ ۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اسے ہٹا دیااور وہ گر پڑا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تلوار لے کر کہا: ’’ تجھ کو مجھ سے کون بچا ئے گا؟ ‘‘ وہ بولا کوئی نہیں ۔ غرض رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے کچھ تَعَرُّض نہ کیا اور وہ ایمان لے آیا۔ (2 )
غزوۂ اُحد (شوال ۳ ھ) میں کفار نے آپ کا دانت مبارک شہید کر دیا اور سر اور پیشانی مبارک بھی زخمی کر دی۔ اس حالت میں آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ ( 3) تھے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لاَ یَعْلَمُوْن ۔خدایا! میری قوم کا یہ گنا ہ معاف کردے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔ ( 4)
حضرت جابر بن عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ غز وۂ نجد ( غز وۂ ذَاتُ الرِّقاع جُمَادَی الا ُولیٰ ۴ھ ) میں ہم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے۔ واپس آتے ہوئے ایک گھنے جنگل میں آپ کو دوپہر ہو گئی۔ آپ ایک درخت کے سایہ میں اتر ے اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکادی اور آپ کے اصحاب ایک ایک کرکے درختوں کے سایہ میں اتر پڑے۔ اسی اثنا ء میں آپ نے ہمیں آواز دی ہم حاضر ہو ئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بَدُّ وآپ کے سامنے
بیٹھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھااس نے آکر میری تلوار کھینچ لی، میں بیدار ہوا تو یہ تلوار کھینچے میرے سر پر کھڑا تھا۔ کہنے لگا: ’’ تجھ کو مجھ سے کون بچا ئے گا؟ ‘‘ میں نے کہا: اللّٰہ ۔یہ سن کر اس نے تلوار نیام میں کر لی۔ آپ نے اس کو کچھ سزا نہ دی۔ (1 ) اس اعرابی کا نام غَوْرَث بن حارِث تھا۔
حضرت جابر بن عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ راوی ہیں کہ ایک غز وہ (غزوۂ مر یسیع شعبان ۵ھ) میں ہم رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے۔ ایک مہاجر نے ایک انصاری کے تھپڑمارا، انصاری نے انصار اور مہاجر نے مہاجرین کو مدد کے لئے پکارارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سنا تو پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ جب سارا ماجرا عرض کیا گیا تو فرمایاکہ یہ دعویٔ جاہلیت اچھا نہیں ۔ اس طرح رفع فساد ہوگیا۔ (2 ) رأس المنافقین (3 ) عبد اللّٰہ بن اُبی خزرجی نے سنا تو کہنے لگا کہ ’’ اگر ہم اس سفر سے مدینہ میں پہنچ گئے تو جس کا اس شہر میں زور ہے وہ بے قدر شخص کو نکال دے گا۔ ‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو یہ خبر پہنچی تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! آپ مجھے اجازت دیں کہ اس منافق کی گر دن اڑا دوں ۔ مگر حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اسے جانے دو کیونکہ لوگ یہی کہیں گے کہ محمد اپنے اصحاب کو قتل کرتا ہے۔ (4 ) جائے غور ہے کہ آپ کا یہ سلوک اس شخص کے ساتھ ہے جو عمر بھر منافق رہاجس نے آپ کو اَذَل بتایا جو جنگ اُحد میں عین مو قع پر تین سو کی جمعیت لے کر راستہ میں سے واپس آگیا اور ہمیشہ آپ کی مخالفت وتو ہین میں سر گر م رہا۔
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غز وۂ مُرَیْسِیْع سے واپس ہو ئے تو را ستے میں واقعہ اِفک پیش آیا جس کا بانی یہی رأس المنا فقین تھا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس کا علم تھامگر معاملہ گھر کاتھااس لئے فیصلہ خدا پر چھوڑا تاکہ منافقین کو چون و چرا کی گنجائش نہ رہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالٰی نے اس واقعہ کی تکذیب اپنے کلام پاک

میں کر دی۔ بایں ہمہ جب یہ منافق مرا تو آپ کو نماز جنازہ کے لئے بلا یا گیا۔جب آپ ا س پر نماز پڑھنے لگے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکیا آپ ابن اُبی پر نماز پڑ ھتے ہیں ۔ جس نے فلاں فلاں روز ایسا ایسا کہا۔ ‘‘ اس پر آپ نے مسکر ا کر فرمایا: عمر! ہٹو۔ جب اِصر ار کیا تو فرمایا کہ اِستِغفار وعدم استغفار کا مجھے اختیار دیا گیا ہے اگر مجھے معلوم ہو تا کہ ستر سے زیادہ بار استغفار سے اس کی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں ویسا ہی کرتا۔ جب آپ نماز جنازہ سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو آیندہ کے لئے حکمِ ممانعت نازل ہوا۔ (1 )
فُرات بن حَیَّان جو انصار میں سے ایک شخص کا حلیف تھا ابو سفیان کی طرف سے مسلمانوں کی جاسوسی پر مامور تھا۔ غزوۂ خند ق (ذیقعد ہ ۵ھ ) میں وہ جاسوسی کرتا ہوا پکڑا گیا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ لوگ اس کو پکڑ کر لے چلے۔ راستے میں اس کا گز رانصار کے ایک حلقہ پر ہوا تو کہنے لگا کہ میں مسلمان ہوں ۔ ایک انصاری نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اطلاع دی کہ فرات کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ آپ نے فرمایاکہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو ہم ان کے ایمان پر چھوڑتے ہیں ان میں سے ایک فرات ہے۔ حضرت فرات بعد میں صدق دل سے ایمان لائے اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کو یمامہ میں ایک قطعہ زمین عطا فرمائی جس کی آمد نی چار ہزار (2 ) دوسوتھی۔ (3 )
ثُمَامہ بن اُثال الیَمامی جواہل یمامہ کا سر دار تھا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو قتل کر نا چاہتا تھا۔ آپ نے دعا فرمائی تھی کہ خدایا! اس کو میرے قابو میں کر دے۔ حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہروایت کر تے ہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سواروں کا ایک دستہ نجدکی طرف بھیجاوہ بنو حنیفہ میں سے ایک شخص ثمامہ بن اُثال کو پکڑ لائے اور اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کی طرف نکلے تو پو چھا:

ثمامہ! کیا کہتے ہو؟ ثمامہ نے کہا: یا محمد ! اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک خونی کو قتل کر یں گے اور اگراحسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اگر آپ زر فد یہ چاہتے ہیں تو جس قدر مانگیں دے دوں گا۔ آپ نے یہ سن کر کچھ جواب نہ دیا۔ دوسرے روز بھی یہی گفتگو ہوئی۔ تیسرے روز آپ نے اس کا وہی جواب سن کر حکم دیا کہ ثمامہ کو کھول دو۔ یہ عنایت دیکھ کر اس نے مسجد کے قریب ایک درخت کی آڑ میں غسل کیا اور مسجد میں آکر کلمہ شہادت پڑ ھا اور کہنے لگا: ’’ اے محمد ! خدا کی قسم! میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض نہ تھااب وہی چہرہ میرے نزدیک سب چہر وں سے زیادہ محبوب ہے۔ اللّٰہ کی قسم! میرے نزدیک کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مبغوض (1 ) نہ تھااب وہی دین میرے نزدیک سب دینوں سے زیادہ محبوب ہے۔ اللّٰہ کی قسم! میرے نزدیک کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مبغوض نہ تھا اب وہی شہر میرے نزدیک سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ ( 2) وفاء الوفاء میں ہے کہ حضرت ثمامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی گرفتاری شروع ۶ھ میں ہوئی۔
حضرت اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت (3 ) کرتے ہیں کہ اہل مکہ میں سے اَسّی مر د کوہِ تَنْعِیم ( 4) سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر آپڑے۔ وہ ہتھیار لگا ئے ہو ئے تھے اور چاہتے تھے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب کو غافل پائیں ۔ آپ نے ان کو لڑائی کے بغیر پکڑ لیا اور زند ہ رکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کو چھوڑ دیا۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی :
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ (فتح، ع ۳)
اور خدا وہ ہے جس نے مکہ کے نواح میں ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے بازر کھا۔ (5)

(1 ) یہ واقعہ قَضْیَہ حُدَیبِْیَہ (ذیقعد ہ ۶ھ) میں ہوا تھا۔
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غزوۂ خیبر ( محرم ۷ ھ) سے واپس تشریف لا ئے تو ایک روز سلام بن مِشکَم یہودی کی زَوجہ زَینب بنت حارث نے بکری کا گو شت بھون کر زہر آلودہ کر کے آپ کی خدمت میں بطورِ ہد یہ بھیجاجسے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اور آپ کے چند اصحاب نے کھا یا۔ باوجود اعتراف کے آپ نے اس یہود یہ کواپنی طرف سے معاف کر دیامگر جب اس کے سبب سے ایک صحابی نے انتقال فرمایا تو قصاص میں اس کو قتل کر دیا گیا۔ (2 ) جیسا کہ اس کتاب میں پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اسی سال ماہ محرم ہی (3 ) میں لَبِیْد بن اَعْصَم یہودی منافق نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جادو کر دیامعلوم ہو جانے پر آپ نے اس سے بھی کچھ تَعَرُّض نہ فرمایا۔ (4 )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میری ماں مشرکہ تھیں ۔ میں ان کو دعوت اسلام دیا کر تا تھا۔ ایک دن میں نے ان کو دعوت اسلام دی تو انہوں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں مجھے مکروہ الفاظ سنائے۔ میں روتا ہوا آپ کی خدمت اقدس میں گیا اور واقعہ عرض کر کے دعا ئے ہدایت کی درخواست کی۔ آپ نے یوں دعا فرمائی: ’’ خدا یا! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے۔ ‘‘ میں اس دعا سے خوش ہو کر گھر آیا تو دیکھا کہ کواڑ بند ہیں ۔ میری ماں نے میرے قدم کی آہٹ سن کر کہا: ابو ہریرہ! یہیں ٹھہر و۔ میں نے پانی کی آواز سنی۔ انہوں نے غسل کر کے جلدی کپڑے پہنے اور دروازہ کھولتے ہی کلمہ شہادت پڑھا۔ ( 5)
جن دنوں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فتح مکہ (رمضان ۸ھ) کے لئے پوشیدہ تیار یاں کر رہے تھے۔ حضرت حاطب بن ابیبَلْتَعَہنے بغر ضِ اِطلاعِ قریش ایک خط لکھا اور ایک عورت کی معرفت مکہ روانہ کیا وہ خط راستے میں
پکڑا گیابا و جود ایسے سنگین جرم کے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت حاطب کو معاف کر دیا اور اس عورت سے بھی کسی قسم کا تَعَرُّض نہ کیا۔
ابو سفیان بن حرب جو اسلام لا نے سے پہلے غز وۂ اُحد وغزوۂ اَحزاب میں رأس المشرکین تھے۔ غز وۂ فتح میں مقامِ مَرُّالظَّہران میں مسلمانوں کی جاسوسی کر تے ہوئے گر فتار ہوئے۔ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ان کو لے کر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئے۔ آپ ابو سفیان سے مروت سے پیش آئے اور وہ اسلام لائے۔
قریش آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مُذَمَّم کہہ کر گالیاں دیا کر تے تھے۔ مگر آپ فرمایا کر تے: ’’ کیا تم تعجب نہیں کر تے کہ اللّٰہ تعالٰی قریش کی دُشْنَام (1 ) و لعنت کو کس طرح مجھ سے بازر کھتا ہے وہ مُذَمَّم کہہ کر گالیاں دیتے اور لعنت کر تے ہیں حالانکہ میں محمد ہوں ۔ ‘‘ (2 )
اعلانِ دعوت سے ساڑھے سترہ سال تک قریش نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب کو جوجو اَذِیتیں دیں ان کی داستان دُہر انے کی ضرورت نہیں ۔ فتح مکہ کے دن وہی قریش مسجد حرام میں نہایت خوف و بیقرار ی کی حالت میں آپ کے حکم کے منتظر ہیں ۔ آپ ان اذیتوں کا ذکر تک زبان مبارک پر نہیں لا تے اور یہ حکم سناتے ہیں : اِذْھَبُوا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء (جاؤتم آزاد ہو۔) اس عالی حو صلگی کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔ اس عفوعام کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ حنین میں دوہزار طُلَقا ء لشکر اسلام میں شامل تھے۔
ہندبنت عُتْبَہ (زوجہ ابو سفیان بن حرب ) جو حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چباگئی تھیں فتح مکہ کے دن نقاب پو ش ہو کر ایمان لا ئیں تا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہچان نہ لیں ۔ بیعت کے موقع پر بھی گستاخی سے بازنہ رہیں ۔ ایمان لا کر نقاب اُٹھا دیا اور کہنے لگیں کہ میں ہندبنت عتبہ ہوں ۔ مگر حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسی امر کاذکر تک نہ کیا۔ یہ دیکھ کر ہند نے کہا: ’’ یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! رو ئے زمین پر کوئی اہل خیمہ

میری نگاہ میں آپ کے اہل خیمہ سے زیادہ مبغوض نہ تھے لیکن آج میری نگاہ میں روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہل خیمہ سے زیادہ محبوب نہیں رہے۔ ‘‘ (1 )
عِکرَمہ بن اَبی جہل قُرَشی مخزومی اپنے باپ کی طرح رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سخت دشمن تھے۔ فتح مکہ کے دن وہ بھاگ کر یمن چلے گئے۔ ان کی بیوی جو مسلمان ہو چکی تھی وہاں پہنچی اور کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے بڑھ کر صلہ رحم اور اِحسان کر نے والے ہیں ۔ غرض وہ عکرمہ کو بار گاہ رسالت میں لائی۔ عکرمہ نے آپ کو سلام کہا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور ایسی جلد ی سے ان کی طرف بڑھے کہ چادر مبارک گر پڑی اور فرمایا: (2 ) مرحبا بالرّاکب المھاجر (3 ) ہجرت کر نے والے سوار کو آنا مبارک ہو۔
صَفوَان ابن اُمَیَّہ جاہلیت میں اَشرافِ قریش میں سے تھے اور اسلام کے سخت دشمن تھے۔ فتح مکہ کے دن بھاگ گئے تھے۔ حضرت عُمیر بن وَہْب نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ صفوان میری قوم کے سردار ہیں وہ بھاگ گئے ہیں تاکہ اپنے آپ کو سمند رمیں ڈال دیں ۔ اَحمرو اَسود کو آپ نے امان دی ہے ان کو بھی امان دیجئے۔ آپ نے فرمایا: تو اپنے چچیر ے بھائی کو لے آ! اسے امان ہے۔حضرت عمیر نے عرض کیا کہ امان کی کوئی نشانی چاہیے جو میں اسے دکھا دوں ۔ آپ نے اپنا عمامہ جو فتح مکہ کے دن پہنے ہو ئے تھے عطا فرمایا۔ صفوان جدہ میں جہاز پر سوا رہو نے کو تھے کہ حضرت عمیر جاپہنچے اور ان کو مژدۂ امان سنایا۔ صفوان نے کہا : مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت عمیر نے کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حلم وکرم اس سے برتر ہے۔ غرض صفوان حاضر خدمت اقدس ہو ئے اور عرض کیاکہ یہ عمیر کہتا ہے کہ آپ نے مجھے امان دی ہے۔ آپ نے فرمایا: عمیر سچ کہتا ہے ۔ یہ سن کر صفوان نے کہا: یارسول اللّٰہ!

دو ماہ کی مہلت دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ تجھے چار ماہ کی مہلت ہے۔ (1 ) حضرت صفوان غز وۂ طائف کے بعد بر غبت و رضاایمان لائے۔
جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم محاصر ۂ طائف (شوال ۸ھ) سے واپس آنے لگے تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ ثَقِیف پر بد دعافرمائیں ۔ مگر آپ نے یوں دعافرمائی: اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا۔ (خدا یا! ثقیف کو ہدایت دے۔) چنانچہ وہ دعا قبول ہوئی اور ثقیف ۹ھ میں ایمان لائے۔
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جِعْرَ انہ میں غَنَائم حنین تقسیم فرمائیں تو ایک منافق انصاری نے کہا کہ اس تقسیم سے رضا ئے خد امطلوب نہیں ۔ حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ ماجراآپ سے عرض کیا تو فرمایا: ’’ خدا موسیٰ پر رحم کر ے ان کو اس سے زیادہ اذیت دی گئی، پس صبر کیا۔ ‘‘ (2 )
جب ابو العاص بن رَبِیع نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادی حضرت زینب کو مکہ سے مدینہ بھیجا تو را ستے میں چند سُفَہا ئے قریش نے مزاحمت کی۔ ان میں سے ہَبَّار بن اَسو د قریشی اَسد ی نے حضرت زینب کو اونٹ سے گر ادیا۔ وہ حاملہ تھیں پتھر پر گریں حمل ساقط ہو گیا اور ان کو سخت چوٹ آئی اور اسی میں جاں بحق ہوئیں ۔ فتح مکہ کے دن ہَبَّار مذکور وَاجب القتل اشتہار یوں میں تھاوہ مکہ سے بھاگ گیا اور چاہتا تھا کہ ایر ان چلا جائے۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جِعرانہ سے واپس تشریف لائے تو وہ بار گاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور یوں عرض کر نے لگا: ’’ یانبی اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں آپ کے ہاں سے بھا گ کر شہر وں میں پھر تا رہا میرا ارادہ تھا کہ ایر ان چلا جاؤں پھر مجھے آپ کی نفع رسانی، صلہ رحمی اور عفو و کرم یاد آئے مجھے اپنی خطا وگنا ہ کا اعتراف ہے آپ در گزر فرمائیں ۔ ‘‘ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’ میں نے تجھے معاف کر دیا۔ ‘‘ (3 )

کَعْب بن زُہَیر اور ان کے بھائی بُجَیْرْ (1 ) ’’ اَبرَ ق عَزَّاف ‘‘ (2 ) میں بکریاں چرایا کر تے تھے۔ بُجَیْرْنے کعب سے کہا: ’’ تم یہاں ٹھہر ومیں اسی مد عی نبوت کے پاس جاتا ہوں تاکہ دیکھوں وہ کیا کہتا ہے۔ ‘‘ بجیر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں آئے اور آپ کا کلام سن کر مسلمان ہو گئے۔ کعب کو یہ خبر لگی تو انہوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہجو اور اسلام کی تو ہین میں یہ اشعاربجیر کو لکھ بھیجے :
الا ابلغا عنی بُجَیرا رسالۃ فھل لک فیما قلت ویحک ھل لکا
سقاک ابوبکر بکأس رَوِیّۃ فانھلک المامون منھا و علکا
ففارقت اسباب الھدی و اتبعتہ علی ایّ شیٍٔ ریب غیرک دلکا
علی خلق لم تلف اُ مًّا و لَا ابًا علیہ و لم تعرف علیہ اخا لکا
فان انت لم تفعل فلست باٰسف و لا قائل اما عثرت لعًا لکا
آگا ہ ر ہو میری طرف سے بجیر کو یہ پیغام پہنچا دو کہ کیاتو نے دل سے کلمہ شہادت پڑھ لیا ہے۔ تجھ پر افسوس! کیا تو نے دل سے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ ابو بکر نے تجھے سیراب کر نے والا پیالہ پلادیا اور امین (حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) نے تجھے اس پیالہ سے پہلی بار اور دوسری بار پلا دیا۔ اس لئے تو اسباب ہدایت چھوڑ کر اس کا پیروبن گیا اس نے تجھے کیا بتا یا تو اَوروں کی طرح ہلاک ہو گیا۔ اس نے ایسا مذہب بتا یاجس پر تو نے اپنے ماں باپ کو نہ پایا اور نہ اپنے بھائی کو اس پر دیکھا۔اگر تو نے میرا کہا نہ ماناتو میں تجھ پر تا سف نہ کروں گا اور تو ٹھو کر کھا کر گر پڑے تومیں دعا نہ کروں گا کہ تو اٹھ کر کھڑاہوجائے۔
حضرت بُجَیر نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ ماجر اعرض کر دیا۔ آپ نے کعب کا خون ہَدْر (3 ) فرما دیا۔ پھر حضرت بجیر نے کعب کو اطلا ع دی اور تر غیب دی کہ حاضر خدمت اقدس ہو کر معافی مانگیں ۔ چنانچہ وہ ۹ھ میں غز وۂ تبوک سے پہلے حاضر خدمت ہو ئے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس وقت مسجد میں اپنے

اَصحاب میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کَعْب سے واقف نہ تھے کَعْب نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عرض کیا: یارسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کَعْب بن زُہَیر مسلمان ہو کر امان طلب کر تا ہے اجازت ہو تو میں اسے آپ کے پاس لے آؤں ۔ آپ نے اجازت دی پھر کعب نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! کعب میں ہی ہوں ۔ بعد ازاں اسلام لاکر انہوں نے اپنا قصید ہ پڑھا جس میں اشعار تو طیہ کے بعد یہ شعر ہے :
اُ نْبِئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَوْعَدَنِیْ وَ الْعَفْوُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ مَامُوْل
مجھے خبر دی گئی ہے کہ بار گاہِ رسالت سے میری نسبت وعید قتل صادِر ہو ئی ہے حالانکہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عفوکی امید کی جا تی ہے۔
اس قصیدہ سے خوش ہو کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت کعب کو اپنی چادر (بردہ) عطا فرمائی اور ان کی گز شتہ خطا کا ایک حرف بھی زبان پر نہ لائے۔ (1 )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے چچا حضرت امیر حمزہ کا قاتل وَحشی حبشی غلام سفیان بن حرب جنگ اُحد کے بعد مکہ میں رہا کر تا تھا۔ جب مکہ میں اسلام پھیلا تو وہ بھاگ کر طائف چلا گیاپھر وہ وفدطائف کے ساتھ ماہ رمضان ۹ھمیں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ایمان لا یاآپ نے ان سے صرف اتنا فرمایا کہ مجھے اپنا چہرہ نہ دکھایا کرو۔ (2 )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نہ فاحِش (3 ) تھے اور نہ مُتَفَحِّش اور نہ بازار میں شور کر نے والے تھے۔ آپ بدی کا بدلہ بدی سے نہ دیا کرتے تھے بلکہ معاف کر دیتے اور در گزر فرماتے۔ (4 )

اب ہم چند متفرق مثالیں اور پیش کر تے ہیں ۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے مسجدنبوی میں پیشاب کر دیالوگ اسے مار پیٹ کر نے کے لئے اٹھے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ اسے جانے دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہادوکیونکہ تم نرم گیر بنا کر بھیجے گئے ہوسخت گیر بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ ‘‘ ( 1)
حضرت اَنَس کا بیان ہے کہ ایک روز میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ جار ہاتھاآپ سخت حاشیہ والی (2 ) نجرانی چادر اَوڑ ھے ہوئے تھے۔ ایک بَدُّو آپ کے پاس آیااس نے آپ کی چادر کے ساتھ آپ کو ایسا سخت کھینچاکہ چادر پھٹ گئی۔ آپ کی گر دن مبارک کو جو میں نے دیکھااس میں چادر کے حاشیہ نے اثر کیا ہوا تھاپھر اس بَدُّو نے کہا: ’’ اے محمد ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) آپ کے پاس جو خدا کا مال ہے اس میں میرے واسطے حکم کیجئے۔ ‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی طرف دیکھا پھر ہنس کے اس کے لئے بخشش کا حکم دیا۔ ( 3)
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خطابخشی کا یہ عالم تھا کہ حسب بیان حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاآپ نے کبھی کسی عورت یا خادم کو اپنے دست مبارک سے نہیں مارا۔ ( 4)
حضرت زید بن سَعْنَہ جو اَحبارِ یہود ( 5) میں سے تھے اپنے اسلام لا نے کا قصہ یوں بیان کر تے ہیں کہ میں نے تو رات میں نبی آخر الزماں کی نبوت کی جو علامات پڑھی تھیں ۔ وہ سب میں نے رُوئے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھتے ہی پہچان لیں ۔ صرف دو خصلتیں ایسی تھیں جن کا آزمانا باقی رہایعنی آپ کا حلم آپ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور دوسرے کی شدت جہالت وایذاء آپ کے حلم کو اور زیادہ کردیتی ہے ان دونوں کی آزمائش کے لئے میں موقع

کا منتظر تھا اور آپ سے تَلَطُّف (1 ) سے پیش آتا تھاایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے دولت خانہ سے نکلے آپ کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب تھے۔ ایک سوار جو بظاہر کوئی بادیہ نشین (2 ) تھا آپ کی خدمت میں آیا اور یوں عرض کرنے لگا: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فلاں قبیلے کے لوگ ایمان لائے ہیں میں ان سے کہا کر تا تھا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو تمہیں رزق بکثرت ملے گا۔ اب ان کے ہاں اِمساک باراں ( 3) اور قحط ہے۔ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے اندیشہ ہے کہیں وہ طمع کے سبب سے اسلام سے برگشتہ نہ ہو جائیں ۔ (4 ) کیونکہ طمع کے لئے ہی وہ اسلام میں داخل ہو ئے ہیں ۔ اگر آپ کی ر ائے مبارک ہو توکچھ ان کی دستگیر ی فرمائیے۔ ‘‘ یہ سن کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے پہلو میں ایک شخص (جو میرے گمان میں حضرت علی تھے ) کی طرف دیکھا۔ اس نے عرض کیا کہ اس میں سے تو کچھ با قی نہیں رہا۔ یہ دیکھ کر میں آگے بڑھا اور آپ سے کھجوروں کی میعاد معین میعاد معلوم پر خرید کی اور اس کی قیمت اَسّی مثقال سونا اپنی ہمیان (5 ) سے نکال کر پیشتر دے دی۔ آپ نے وہ اَسی مثقال اس سوار کو دے دیئے اور فرمایا کہ جلدی جاؤ اور اس قبیلے کے لوگوں میں اسے تقسیم کر دو۔ جب میعاد ختم ہو نے میں دو تین دن باقی رہ گئے تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک انصاری کے جنازے کے ساتھ نکلے۔آپ کے ہمراہ منجملہ دیگر اصحاب حضرت ابو بکر وعمرو عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمتھے۔ جب آپ نمازِ جنازہ سے فارغ ہو ئے اور بیٹھنے کے لئے ایک دیوار کے قریب پہنچے تو میں نے آگے بڑھ کر آپ کی قمیص اور چادر کے دامن پکڑ لیے اور تُند نگاہ (6 ) سے آپ کی طرف دیکھ کر یوں کہا: ’’ اے محمد ! کیا تو میرا حق ادا نہیں کر تا۔ اے عبد المطلب کے خاندان والو! قسم بخدا ! تم ادائے حق سے گریز کر نے کے لئے حیلے حوالے کیا کر تے ہو۔ ‘‘ حضرت عمر نے تیز نگاہ سے میری طرف دیکھ کر کہا: ’’ او دشمن خدا! کیا تو ر سول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ کہتا ہے جو سن رہاہوں اور آپ کے ساتھ یہ سلوک کر تا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں ۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔اگر مجھے مسلمانوں اور تیری قوم کے درمیان صلح کے فوت ہو جانے کا ڈر نہ ہو تا تو اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ ‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آرام و آہستگی اور تبسم کی حالت میں حضرت عمر کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’ عمر! مجھے اور اسے بجائے اس سختی کے اس بات کی زیادہ ضرورت تھی کہ تم مجھے
حسن ادا ئے حق اور اسے حسن تقاضا کا امر کر تے۔ اے عمر! اس کو لے جاؤ اور اس کا حق ادا کر دواور اسے جو تم نے دھمکایا ہے اس کے عوض بیس صاع کھجوریں اور دے دو۔ ‘‘ حضرت عمرمجھے اپنے ساتھ لے گئے اور میرا حق اداکردیااور بیس صاع کھجوریں علاوہ دیں ۔ میں نے پوچھا کہ یہ زائد کیسی ہیں ؟ حضرت عمر نے اس کو جواب دیا پھر میں نے کہا: عمر! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ جواب دیاکہ نہیں ۔ میں نے کہا کہ میں زیدبن سَعْنہ ہوں ۔ فرمایا: وہی زید جو یہودیوں کا عالم ہے؟ میں نے کہا: ہاں ۔ پھر پوچھا کہ تو نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟ میں نے کہا: اے عمر! جس وقت میں نے روئے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا وہ تمام علامات جو میں تو رات میں پڑ ھتا تھا موجود پائیں ۔ ان میں صرف دو علامتیں باقی تھیں جو میں نے اب آزمالیں ۔ ’’ اے عمر! میں تجھ کو گو اہ بناتا ہوں کہ میں اللّٰہ کو اپنا پر ور دگار اور اسلام کو اپنا دین اور محمد کو اپنا پیغمبر ماننے پر راضی ہو گیا اور میں تجھے گو اہ بناتاہوں کہ میرا آدھا مال امت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر صدقہ ہے۔ ‘‘ پھر حضرت عمر اور زید دونوں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور حضرت زید نے بارگاہ رسالت میں اظہار اسلام کیا۔ (1 ) اسلام لانے کے بعد حضرت زید بن سَعْنہ بہت سے غز وات میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ رہے اور غزوہ تبوک میں دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے شہید ہوئے۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔

 

________________________________

 

 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!