سرقہء جسم انسانی :
سرقہء جسم انسانی :
علامہ فرید وجدی نے کنزالعلوم و اللغتہ میں لکھا ہے کہ : یہ امر مکرر تجربات اور تحقیقات سے یورپ میں مسلم ہو چکا ہے کہ رو حیں (جن) بلائے جا تے ہیں اوروہ بالکل آدمی کی شکل میں ظاہر ہو تے ہیں ،چنانچہ ان میں گوشت خون ہڈی وغیرہ بھی موجود رہتے ہیں ،اورجب ان سے دریافت کیا گیا کہ یہ اشیاء تم میں کہاں سے آگئے تو انہوں نے خبر دی کہ یہ سب عاریتی ہیں اس شخص سے لیتے ہیں جو ہمیں بلا تا ہے۔چنانچہ بلانے والے کا وزن کیا گیا تو فی الواقع اس کا نصف وزن کم تھا ،اور ان کے جانے کے بعد جب تولا گیا تو ان کا اصلی وزن پورا ہوگیا ۔دیکھئے ان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی کہ آدمی ہڈی اورگوشت وغیرہ چرا لیں او راس کو خبر نہ ہونے پا ئے !! یہ بات نہ آدمی کو دی گئی نہ کسی جانور کو ۔ اب کہاں ہے وہ قاعدہ جو ہزار اطباء کے تجربوں اور اقوال سے ثابت تھا کہ اذیت کا باعث تفرق اتصال ہے !یہاں تو سرسے پائوں تک ہر ہر ہڈی گوشت وغیرہ میں تفرق اتصال ہوگیا !اور وہ بھی کیسا کہ صرف تفرق ہی نیہں بلکہ ہر ایک چیز آدھی آدھی ہو کر جسم سے باہر نکل گئی او رپوست صحیح و سالم رہا اور خبر بھی نہ ہوئی کہ کوئی چیز اپنے جسم سے خارج ہوئی یا نہیں ! کیونکہ گوشت او رپوست اپنی حالت سابقہ پر ہے ، اگر ہڈی باہر نکل جا تی تو گوشت او ر پوست ضرور پھٹتا جس سے ایک دوسرا تفرق اتصال ہو کر اذیت پر اذیت ہو تی !! اب کہئے کہ اس قسم کی چوری کیا کوئی انسان یا حیوان کر سکتا ہے ؟!
یہ طریقہ خاص جن ہی سے متعلق ہے اس قسم کے صد ہا عجائبات ان سے ظہور میں آتے ہیں ۔چنانچہ لکھا ہے کہ جب کبھی کوئی نیا تجربہ کیا جاتا ہے تو نئی نئی باتیں دیکھنے میں آتی ہیں جن سے عقل حیران ہو جا تی ہے ۔
یہاں یہ امر خاص توجہ کے لائق ہے کہ جس انسان سے ہڈی گوشت وغیرہ چرایا گیا اس کا وجدان گواہی دیتا ہے کہ جس قدر جسم چوری سے پہلے اپنے پاس تھا اب بھی ہے کوئی جزواس میں سے کسی دوسرے کے جسم میں نہیں گیا اور حس بھی گواہی دیتی ہے کہ دونوں حالتوں میں کوئی فرق نہیں ،اور عقل بھی گواہی دیتی ہے کہ کوئی جزو اندرسے باہر چلا نہیں گیا ،ور نہ حس کا امان جا تا رہے گا جس سے لازم آئے گا کہ کوئی دلیل ثابت ہونے پائے ،کیونکہ جب تک نظریا ت کی انتہاء بدیہیات پر نہ ہو وہ ثابت نہیں ہوسکتے ۔پھر جب حواس ہی کا اعتبار نہ رہے اور یہ مسلّم ہوجائے کہ وہ اپنے کاموں میں غلطی کرتے ہیں مثلاًآدھا جسم کوئی آنکھوں کے سامنے سے چرا لے گیا اور ان کوخبر بھی نہ ہوئی !حالانکہ سوئی کے چبھنے سے ایک بال برابر جسم میںتفرق اتصال ہو جا تا ہے تو سرسے پائوں تک بیقراری ہو تی ہے بمصداق شعر :
جو عضو ے بدرد آورد روز گار ٭ دگر عضو ہا را نماند قرار
جب سرسے پائوں تک ہر ایک عضو میں تفرق اتصال ہوجائے اور قوت احساسی کو خبر تک نہ ہو تو کہئے کہ اب کس چیز پر بھروسہ ہوسکے ؟ ! عقل اس قابل نہ تھی کہ اس پر بھروسہ کیا جائے کیونکہ نظر و فکر ہمیشہ غلطیاں ہوا کرتی ہیں ،اسی وجہ سے کوئی عقل مسئلہ ایسا نہیں جس میں عقلاء کا اختلاف نہ ہو ۔ صرف حوا س اعتبار کے قابل سمجھے جا تے تھے جب ان کا بھی یہ حال ہوتو اب کس چیز کے اعتماد پر کوئی بات ثابت ہو سکے۔غرضکہ یہاں وجدان ،جس عقل کی گواہی سے پورا جسم اپنے مقام میں رہنا ثابت ہے اور آدھے جسم کا غائب ہوجا نا بھی مشاہدہ سے ثابت ہو گیا ،تواب عقل سے پوچھا جائے ان دونوں صورتوں میں کونسی صورت اختیار کی جائے گی ؟ جو کوئی اختیار کی جائے اس کے مقابلہ میں دوسری صورت موجود ہے جو اعتبار میں اس سے کم نہیں ۔
دائر ۃ المعارف میں فاضل فرید وجدی نے لکھا ہے کہ : یہ مسئلہ امر یکہ میں ۱۸۴۶ ء میں اور یورپ میں شائع ہو نے لگا تو ہر طرف چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ،مادّییٖن کے الحاد و زند قہ کا مدرا اس ہٹ دھر می پر تھا کہ اگر جن موجود ہیں یا ارواح بعد موت باقی رہتی ہیں تو بتائی جائیں ؟اور اہل مذہب بتا نہیں سکتے تھے ، او راب یہ دعویٰ سے کہا جا رہا ہے اور دعوتیں دی جا رہی ہیں کہ جن کو وجودِجنات و ارواح میں شک ہوتو اگر دیکھ لیں !تو اب اہل مذہب کے
مقابلے میں ما دّییٖن حیرا ن و مضطرب ہیں اور کبھی زچ ہوکر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور سخت و سست کہنے لگتے ہیں ،یہاں تک کہ ماپیٹ بلکہ جدال و قتال کی تک نوبت پہنونچ جا تی ہے ،مگر تابہ کے ؟آخر اہل انصاف مسلسل اور بار بار کے مشاہدات سے قائل ہو تے جا تے ہیں ۔چنانچہ اس وقت لاکھوں علمائے یورپ نے مان لیا کہ ارواح و جن کے وجود میں اب کوئی کلام نہیں ہوسکتا ۔ او رن کے احوال و افعال میں عقل بالکلیہ حیران ہے ۔جس کا جسم چرا یا جائے وہ سمجھتا ہے کہ میرا جسم میرے پاس موجود ہے اور حالانکہ اس کا جسم اس جن کے پاس ہے اور دونوں جگہ کام دے رہا ہے !!