اسلامسوانحِ كربلا مصنف صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ القویفضائل

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد فضل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرتبہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجداد کے اسماء یہ ہیں : عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العُزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قُرْط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لُوءَ ی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام فیل کے تیرہ برس بعد پیدا ہوئے ( نووی) آپ اشرافِ قریش میں سے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں منصبِ سِفارَت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف مُفَوَّض تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو حَفْص اور لقب فاروق ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قدیم ُالاسلام ہیں۔ 40 مردوں ،11 عورتوں یا39 مردوں، 23عورتوں یا45 مردوں 11عورتوں کے بعد اسلام لائے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہونے سے اسلام کی قوت و شوکت زیادہ ہوئی۔ مسلمان نہایت مسرور ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سا بقین اولین اور عشرۂ مبشرہ بالجنۃ اور خلفائے راشدین میں سے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کِبار علماءِ زُہاد میں آپ کا ممتاز مرتبہ ہے۔ (1)
ترمذی کی حدیث میں ہے کہ حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا فرماتے تھے کہ یارب عزوجل! عمر بن خطاب اورابو جہل بن ہشام میں سے جو تجھے پیارا ہو اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے۔(2)

حاکم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : اَللّٰہُمَّ اَعِزِّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّۃً ” یا رب! عزوجل اسلام کو خاص عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ غلبہ وقوت عطافرما۔” (1)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبوت کے چھٹے سال 27 برس کی عمر میں مشرف باسلام ہوئے۔
ابو یعلی وحاکم و بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر نکلے۔ راہ میں آپ کو قبیلۂ بنی زُُہْرہ کا ایک شخص ملا۔کہنے لگا کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ نے کہا کہ میں(حضرت) محمد ( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ) کے قتل کا ارادہ رکھتاہوں۔ اس نے کہا کہ انھیں قتل کرکے تم بنی ہاشم اور بنی زہرہ کے ہاتھوں کیسے بچو گے ۔ آپ نے کہا کہ میرے خیال میں تو بھی دین سے پھر گیا۔ اس نے کہا: میں آپ کو اس سے عجیب تر بتاتاہوں آپ کی بہن اور بہنوئی نے آپ کا دین ترک کردیا ۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے پاس پہنچے۔ وہاں حضرت خبّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور وہ لوگ سورۂ طہ پڑھ رہے تھے، جب انہوں نے حضرت عمر کی آہٹ سنی تو مکان میں چھپ گئے۔ حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکان میں داخل ہوکر کہا:تم کیا کہہ رہے ہو؟ کہا ہم آپس میں باتیں کررہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے :شاید تم لوگ بے دین ہوگئے ہو۔ آپ کے بہنوئی نے کہا :اے عمر!اگر تمہارے دین کے سوا کسی اور دین میں حق ہو۔ اتنا کلمہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن پر ٹوٹ پڑے اورانھیں بہت مارا۔ انھیں

بچانے کیلئے آپ کی بہن آئیں ، انھیں بھی ماراحتیٰ کہ ان کا چہرہ خون آلود ہوگیا۔ انہوں نے غضب ناک ہوکر کہاکہ تیرے دین میں حق نہیں۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں اور حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ حضرت عمر نے کہا: مجھے وہ کتاب دو جو تمہارے پاس ہے میں اسے پڑھوں ۔ ہمشیرہ صا حبہ نے فرمایا کہ تم ناپاک ہواور اس کو پاکوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا۔ اٹھو غسل کرو یا وضو کرو۔ آپ نے اٹھ کر وضو کیا اور کتاب پاک لے کر پڑھا:

طٰہٰ ۚ﴿۱﴾ مَاۤ اَنۡزَلْنَا عَلَیۡکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤ ۙ﴿۲﴾ یہاں تک کہ آپ اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِكْرِیۡ ﴿۱۴﴾ تک پہنچے تو حضرت عمر نے فرمایا مجھے (حضور پرنور)محمد (مصطفی) صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلو۔ یہ سن کر حضرت خبّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر نکلے اور انہوں نے کہا: مبارک ہو اے عمر! میں امید کرتاہوں کہ تم ہی دعائے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام ہو ۔ پنج شنبہ کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تھی، یارب عزوجل !اسلام کو عمربن خطاب یا ابوجہل بن ہشام سے قوت عطا فرما۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مکان پر آئے جس میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرماتھے۔ دروازہ پر حضرت حمزہ وطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دوسرے لوگ تھے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:یہ عمر ہیں اگر اللہ تعالیٰ کو ان کی بھلائی منظور ہوتو ایمان لائیں ورنہ ہمیں ان کا قتل کرنا سہل ہے، حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر اس

وقت وحی آرہی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور حضرت عمر کے کپڑے اور تلوار کی حمائل پکڑ کر فرمایا: اے عمر !تو باز نہیں آتا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر وہ عذاب و رسوائی نازل فرمائے جو ولید ابن مغیرہ پر نازل فرمائی۔ حضرت عمر نے عرض کیا: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّکَ عَبْدُ اللہِ وَرَسُوْلُہٗ. (1)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت میں نے قرآن شریف پڑھا اسی وقت اس کی عظمت میرے دل میں اثر کرگئی اور میں نے کہا کہ بد نصیب قریش ایسی پاکیزہ کتاب سے بھاگتے ہیں۔ اسلام لانے کے بعد آپ باجازت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام دو صفیں بناکر نکلے۔ ایک صف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسری میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ یہ پہلا دن تھا کہ مسلمان اس اعلان اور شوکت کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوئے، کفارِ قریش دیکھ دیکھ کر جل رہے تھے اور انھیں نہایت صدمہ تھا۔ آج اس ظہورِ اسلام اور حق و باطل میں فرق و امتیاز ہوجانے پر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ (2)
ابن ما جہ وحاکم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے۔ حضرت جبریل علیہ السلام بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اہلِ آ سمان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کی خوشیا ں منار ہے ہیں۔(3)

ابن عساکِرنے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، آپ نے فرمایا کہ میں جہاں تک جانتا ہوں جس کسی نے بھی ہجرت کی چھپ کر ہی کی۔ بجز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجرت کی یہ شان تھی کہ مسلح ہوکر خانہ کعبہ میں آئے، کفار کے سردار وہاں موجود تھے،آپ نے سات مرتبہ بیت اللہ شریف کا طواف کیا اور مقام ابراہیم میں دو رکعتیں ادا کیں پھر قریش کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے اور للکار کر فرمایا کہ جو اس کے لئے تیار ہو کہ اس کی ماں اسے روئے اور اس کی اولاد یتیم ہو،بیو ی رانڈ ہو وہ میدان میں میرے مقابل آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ کلمات سن کر ایک سناٹا ہوگیا کفار میں سے کوئی جنبش نہ کرسکا۔ (1)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت میں بہت کثرت سے حدیثیں وارد ہوئیں اور ان میں بڑی جلیل فضیلتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ ترمذی و حاکم کی صحیح حدیث میں وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد نبی ممکن ہوتا، حضرت عمر بن خطاب ہوتے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اس سے جلالت و منزلت و رفعتِ درجت امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ظاہر ہے۔ ابن عسا کر کی حدیث میں وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان کا ہر فرشتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توقیر کرتا ہے اور زمین کا ہر شیطان ان کے خوف سے لرزتا ہے۔ (2)
طبرانی نے اوسط میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب رکھا۔(1)
طبرانی و حاکم نے ر وایت کی کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علم میزان کے ایک پَلّے میں رکھاجائے اور روئے زمین کے تمام زندہ لوگوں کے علوم ایک پَلّہ میں تو یقینا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علم ان سب کے علوم سے زیادہ وزنی ہوگا۔ ابواسامہ نے کہا جانتے ہو ابوبکر وعمر کون ہیں یہ اسلام کے پدرو مادر ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں اُس سے بری وبیزارہوں جوحضرت ابوبکر و عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہما کا ذکر بدی کے ساتھ کرے۔(2)

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص۸۶
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب رضی
اللہ تعالیٰ عنہ،الحدیث:۳۷۰۱،ج۵،ص۳۸۳

1۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب النہی عن لبس الدیباج…الخ،
الحدیث:۴۵۴۱،ج۴،ص۳۴

1۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لہے نہ اتاراکہ تم مشقت میں پڑو۔
(پ۱۶،طٰہٰ :۱،۲)
2۔۔۔۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: بیشک میں ہی ہوں اللہ کہ میرے سوا کوہی معبود نہیں تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لہے نماز قاہم رکھ۔ (پ۱۶،طٰہٰ:۱۴)

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب، فصل فی الاخبار الواردۃ فی اسلامہ، ص۸۷۔ ۸۸
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب، فصل فی الاخبار الواردۃ…الخ،ص۹۰ ملخصاً
3۔۔۔۔۔۔سنن ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب فی فضاہل اصحاب رسول اﷲ،فضل عمر،
الحدیث:۱۰۳،ج۱،ص۷۶

1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عمر بن الخطاب، فصل فی ہجرتہ رضی اﷲ عنہ،ص۹۱
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب،
الحدیث:۳۷۰۶،ج۵،ص۳۸۵
وتاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب، فصل فی الاحادیث الواردۃ…الخ، ص۹۳

1۔۔۔۔۔۔المعجم الاوسط للطبرانی، الحدیث:۶۷۲۶،ج۵،ص۱۰۲
2۔۔۔۔۔۔المعجم الکبیر للطبرانی، الحدیث:۸۸۰۹،ج۹،ص۱۶۳
وتاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب، فصل فی اقوال الصحابۃ والسلف فیہ،ص۹۶

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!