حضرت براء بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ بہت ہی نامو رصحابی اورحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی ہیں ۔ بہت ہی بہادر اور نہایت ہی جنگجو اور سرفروش مجاہد ہیں ۔ مسیلمۃ الکذاب سے جنگ کے وقت جس باغ میں یہ جھوٹا مدعی نبوت چھپ کر اپنی فوجوں کی کمان کر رہا تھا، اس باغ کا پھاٹک کسی طرح فتح نہیں ہوتا تھا اوروہاں گھمسان کی جنگ ہور ہی تھی تو آپ نے مسلمان مجاہدین سے فرمایا کہ تم لوگ مجھے اٹھا کر باغ کی دیوار کے اس پار پھینک دو میں اندر جاکر پھاٹک کھول دوں گا۔ چنانچہ مسلمان
مجاہدوں نے ان کو اٹھا کر دیوار کے اس پار ڈال دیا اورانہوں نے بالکل تنہا دشمنوں سے لڑتے ہوئے باغ کا پھاٹک کھول دیااوراسلامی فوج باغ میں داخل ہوگئی۔ یہ واقعہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران ہوا مگر باغ کا پھاٹک کھولنے کی زبردست لڑائی میں حضرت براء بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم پر تیر وتلوار اور نیزوں کے زخم جب گنے گئے تو اسّی سے کچھ زائد زخم تھے ۔ چنانچہ ان کے علاج کے لئے امیر لشکرحضرت خالدبن الولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس جگہ ایک ماہ تک رکناپڑا۔
ان کی ایسی دلیرانہ جاں بازیوں کی بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں فوجوں کو سخت تاکیدفرماتے رہتے تھے کہ” خبردار !براء بن مالک کو کبھی فوج کا سپہ سالار نہ بنایاجائے ورنہ وہ ساری قوم کو ہلاکت میں ڈال دیں گے کیونکہ وہ انجام سے بے پرواہ ہوکردشمنوں کی صفوں میں گھس جاتے ہیں ۔” ان کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ ”بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے بال پراگندہ اوروہ گردوغبار میں اٹے ہوئے میلے کچیلے رہتے ہیں اورلوگ ان کی پروا بھی نہیں کرتے مگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے در بار میں اس قدر محبوب ومقبول ہوتے ہیں کہ اگر یہ لوگ کسی بات کی قسم کھالیں تو اللہ تعالی ان کی قسم کو پوری فرما دے گا اور براء بن مالک انہیں لوگوں میں سے ہیں۔”یہ بہت ہی خوش آواز بھی تھے اور بہترین حدی خواں تھے جن کے گیتوں کے نغموں پر اونٹ مست ہوکر چلاکرتے تھے اور شتر سوار بھی کیف ونشاط میں رہا کرتے تھے ۔ ان کی دلیری اورجوانمردی کے سلسلے میں یہ روایت بہت ہی مشہور ہے کہ عراق کی لڑائیوں میں یہ اپنے بھائی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ دشمنوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے جو موضع ”حریق”میں تھا۔
کفارگرم گرم زنجیروں میں لوہے کے آنکڑے لگا کر قلعہ کی دیوار سے مسلمانوں پر ڈالتے تھے اوران کوآنکڑوں میں پھنسا کر اپنی طرف کھینچ لیتے تھے ۔ ان کافروں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی آنکڑوں میں پھنسا لیا اوراوپر کھینچنے لگے جب حضرت براء بن مالک نے یہ منظر دیکھا تو تڑپ کر اچھلے اورقلعہ کی دیوار پر چڑھ کر جلتی ہوئی زنجیر کو پکڑااورپھراس رسی کو کاٹ دیا جس میں زنجیر بندھی ہوئی تھی اس طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان بچ گئی مگر حضرت براء بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گرم زنجیر کو جوہاتھ سے پکڑا تو ان کی ہتھیلیوں کا پورا گوشت جل گیااور سفید سفید ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔ ۲۰ھ جنگ تسترمیں ایک سو کافروں کو اپنی تلوار سے قتل کر کے خود بھی عروس شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ (1) (اسدالغابہ ،ج۱،ص۱۷۳واصابہ ،ج۱،ص۱۴۳)
کرامت
فتح وشہادت ایک ساتھ
ان کی ایک خاص کرامت دعاؤں کی مقبولیت ہے ۔ منقول ہے کہ ”جنگ تستر” میں جب طویل جنگ کے باوجود مسلمانوں کو فتح نصیب نہیں ہوئی تو مجاہدین اسلام نے جمع ہوکر ان سے گزارش کی کہ آپ اپنے رب کی قسم دے کر فتح کی دعا مانگیے۔ اس وقت آپ نے اس طرح دعا مانگی کہ یا اللہ ! عزوجل میں تجھ کو تیری ہی قسم دے کر دعا کرتاہوں کہ تو کفار کے بازو ہم لوگوں کے ہاتھوں میں دے دے اورمجھے اپنے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم کے پاس پہنچا دے ۔ فوراً ہی آپ کی دعا مقبول ہوگئی اور اسلامی لشکر فتح یاب ہوگیا اورکفارمسلمانوں کے ہاتھوں میں گرفتارہوگئے اورآپ اسی لڑائی میں شہادت سے سرفراز ہوکر حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دربار میں باریاب ہوگئے ۔ (1)
(اصابہ ،ج۱،ص۱۴۶)