اسلامواقعات

حرب فجار میں شرکت

حرب فجار میں شرکت

آغازِ اسلام سے پہلے عرب میں جو لڑ ائیاں ان مہینوں میں پیش آتی تھیں جن میں لڑ نا ناجائزتھا حروب فِجَار کہلاتی تھیں ۔چو تھی یعنی اَخیر حربِ فجار میں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی شر کت فرمائی تھی۔اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ نعمان بن مُنْذِر شاہِ حِیْرَہ ہر سال اپنا تجار تی مال بازارِ عُکَاظ میں فروخت ہو نے کے لئے اَشرافِ عرب میں سے کسی کی پناہ میں بھیجاکر تا تھا اس دفعہ جو اس نے اونٹ لدواکر تیار کیے، اتفاقاً عرب کی ایک جماعت اس کے پاس حاضر تھی جن میں بنی کِنانہ میں سے بَرّاض اور ہَوَازِن میں سے عُرْوَہ رَ حَّال مو جو دتھا۔نعمان نے کہا: اس قافلہ کو کون پناہ دے گا ؟ بَرّاض بو لا: میں بنی کِنانہ سے پنا ہ دیتا ہوں ۔نعمان نے کہا: میں ایسا شخص چاہتا ہوں جو اہل نجد و تِہامَہ سے پنا ہ دے۔ یہ سن کر عروہ نے کہا: (1) اَ کَلْبٌ خَلِیعٌ یَجِیْرُھَا لَک.میں اہل نجد وتِہامَہ سے پناہ دیتا ہوں ۔ بَرّاض نے کہا: اے عر وہ کیا تو بنی کِنانہ سے پنا ہ دیتا ہے ؟ عروہ نے کہا: تمام مخلوق سے۔ پس عروہ اس قافلہ کے ساتھ نکلا۔ بَرّاض بھی اس کے پیچھے روانہ ہو ااور موقع پاکر عر وہ کا ماہ حرام میں قتل کر ڈالا۔ ہَوَازِن نے قصاص میں بَرّاض کو قتل کر نے سے انکار کیا کیونکہ عروہ ہَوَازِن کا سردار تھا، وہ قریش کے کسی سر دار کو قتل کر نا چاہتے تھے مگر قریش نے منظور نہ کیا اس لئے قریش و کِنانہ اور ہَوَازِن میں جنگ چھڑ گئی کِنانہ کا سپہ سالا رِا عظم حرب بن امیہ تھا جو ابو سفیان کا باپ اور حضرت امیر معاویہ کا دادا تھا اور ہَوَازِن کا سپہ سالارِ اعظم مسعود بن مُعَتب ثقفی تھا۔لشکر کِنانہ کے ایک پہلو پر عبد اللّٰہ بن جُدْ عَان اور دوسرے پر کُرَیْز بن ربیعہ اور قلب میں حرب بن امیہ تھا۔اس جنگ میں کئی لڑ ائیاں ہوئیں ، ان میں سے ایک میں حضرت کے چچا آپ کو بھی لے گئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک چو دہ سال کی تھی مگر آپ نے خود لڑ ائی نہیں کی بلکہ تیر اٹھا اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دیتے رہے چنانچہ فرماتے ہیں : (2) ’’ وَ کُنْتُ اُ نَـبِّلُ عَلٰی اَعْمَامِی ‘‘ بعضے کہتے ہیں : آپ نے بھی تیر پھینکے تھے بہرحال اَخیر میں فریقین میں صلح ہو گئی۔ (3)

________________________________
1 – کیاراندہ قوم کتاتیرے قافلہ کو پناہ دے گا؟ دیکھو عقد الفرید لابن عبدربہ۔۱۲منہ
2 – اور میں تیر اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دے رہاتھا۔ ۱۲منہ
3 – العقد الفرید، الفجار الآخر،ج۶،ص۱۰۳۔۱۰۶ملتقطاً علمیہ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!