اسلامواقعات

آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آثار شریفہ کی تعظیم

آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آثار شریفہ کی تعظیم

 

{1} حضرت ابن سیرین تابعی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت عبیدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کچھ بال مبارک ہیں جو ہمیں حضرت انس یا اہل انس سے ملے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عبیدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میرے پاس ان بالوں میں سے ایک بال کا ہونا میرے نزدیک دنیا و ما فیہا سے محبوب تر ہے۔ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے سر مبارک کے بال منڈواتے تو حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے موئے مبارک لیتے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوضو، باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان) (۳ )
{2} حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا

کہ حجام آپ کے سر مبارک کو مونڈ رہا تھا۔صحابہ کرام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے۔ وہ سب یہ چاہتے تھے کہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جو بال مبارک گرے وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں ہو۔ (۱ )
( صحیح مسلم، باب قربہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم من الناس و تبرکہم بہ)
{3} حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (مزدلفہ سے) منیٰ میں آئے اور جمرہ عقبہ میں کنکریاں پھینک کر اپنے مکان پر تشریف لائے ۔ ( ۲) پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حجام کو بلایااور سر مبارک کے داہنی طرف کے بال منڈوائے اور ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بلا کر عطا فرمائے۔ بعد ازاں حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بائیں طرف کے بال منڈواکر ابو طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بلا کر عنایت کیے اور ان سے فرمایا کہ یہ تمام بال لوگوں میں تقسیم کردو۔ ( ۳) (مشکوۃ بحوالہ صحیحین، کتاب المناسک ، باب الحلق)
مرا ا ز زلف تو موئے بسند است فضولی مے کنم بوئے بسند است
{4} حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کچھ سرخ رنگ کے بال تھے جو ایک ڈبیا بشکل جلجل ( ۴) میں رکھے ہوئے تھے۔لوگ ان بالوں سے نظر بد اور دیگر بیماریوں کا علاج کیا کرتے تھے۔کبھی تو ان کو پانی کے پیالہ میں رکھتے پھر پانی کو پی لیتے اور کبھی جلجل کو پانی کے مٹکے میں رکھ دیتے پھر اس پانی میں بیٹھ جاتے۔ (۵ ) یہ ما حصل حدیث بخاری ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب)

{5} امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے تاریخ میں بروایت ابوسلمہ نقل کیا ہے کہ محمد بن عبد اللّٰہ بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد (عبد اللّٰہ بن زیدرائی الاذان) منحر (۱ ) میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر تھے حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ضَحایا (۲ ) تقسیم فرمائے اور اس کو اپنے بالوں میں سے دیا۔ (۳) (اصابہ)
طبقات ( ۴) ابن سعد میں اس روایت میں اتنا اور ہے کہ محمد مذکور فرماتے ہیں کہ وہ بال مہندی اور وَسمہ (۵ ) سے رنگا ہوا ہمارے پاس موجود ہے۔ (۶ )
{6} حضرت ابو محذورہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (موذن اہل مکہ) کے سر کے سامنے کے حصے میں بالوں کا ایک جوڑا تھاجب وہ زمین پر بیٹھتے اور اس کو کھول دیتے تو بال زمین سے لگ جاتے۔کسی نے ان سے کہا کہ ان بالوں کو منڈوا کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ان کو منڈوا نہیں سکتا کیونکہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دست مبارک ان کو لگا ہوا ہے۔ (۷ ) (شفاء شریف)
{7} حضرت خالد بن وَلید قرشی مخزومی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ٹوپی جنگ یرموک میں گم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ تلاش کرو تلاش کرتے کرتے آخر کار مل گئی۔لوگوں نے ان سے سبب پوچھا تو فرمایا کہ ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عمرہ ادا فرمایا۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سر مبارک منڈوایا تو لوگ آپ کے موئے مبارک لینے کے لئے دوڑے۔ میں نے بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیشانی مبارک کے بال لے کر اس ٹوپی میں رکھ لئے جس لڑائی میں یہ ٹوپی میرے پاس رہی مجھے فتح نصیب ہوتی رہی۔ ( ۸) (اصابہ، ترجمہ خالد بن ولید)
’’ شفاء شریف ‘‘ میں اس طرح ہے کہ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ٹوپی میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کچھ بال تھے۔وہ ٹوپی کسی غزوہ میں گر گئی۔حضرت خالد نے اس کے لئے مڑ کر سخت حملہ کیا جس میں بہت سے مسلمان کام آئے۔صحابہ کرام نے ان پر اعتراض کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے یہ حملہ ٹوپی کے لئے نہیں کیا بلکہ موئے مبارک کے لئے کیا تھا جو اس ٹوپی میں تھے کہ مبادا (۱ ) ان کی برکت میرے پاس نہ رہے اور وہ کافروں کے ہاتھ لگ جائیں ۔ (۲ )
{8} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ام سلیم (والدۂ انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا) کے ہاں چمڑے کے فرش پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔جب آپ سوجاتے تو وہ آپ کے پسینہ مبارک کو ایک شیشی میں جمع کرلیتیں اور شانہ کرتے وقت ( ۳) جو بال گرتے ان کو اور پسینہ مبارک کو سک (۴ ) میں ملا دیتیں ۔ حضرت ثمامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ جب حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت آیا تو مجھے وصیت کی کہ اس سک میں سے کچھ میرے حنوط ( ۵) میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (۶ ) (صحیح بخاری، کتاب الاستیذان، باب من زار قوما فقال عند ہم)
{9} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ام سلیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر میں آکر ان کے بستر پر قیلولہ فرمایا کرتے اور وہ گھر میں نہ ہوا کرتیں ۔ایک روز حسب معمول حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ان کے بستر پر سوئے ہوئے تھے جب ان کو خبر ہوئی تو آکر دیکھا کہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پسینہ بستر پر ایک چمڑے کے ٹکڑے پر پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے ڈبے میں سے ایک شیشی نکالی اور پسینہ مبارک کو اس میں نچوڑنے لگیں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھ کھلی تو پوچھا کہ ام سلیم ! تم کیا کر رہی ہو؟ ام سلیم نے عرض کیا کہ ہم اپنے بچوں کے لئے آپ کے پسینے کی برکت کے امیدوار ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تم نے سچ کہا۔ ( ۷) (صحیح مسلم، باب طیب عرقہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم والتبرک بہ)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پسینۂ مبارک کو بچوں کے چہرے اور بدن پر مل دیا کرتے تھے جس سے وہ تمام بلاؤں سے محفوظ رہاکرتے تھے۔
{10} حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خادم حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھ سے کہا کہ یہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بالوں میں سے ایک بال ہے جب میں مرجاؤں تو اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ چنانچہ میں نے حسب وصیت ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور وہ اسی حالت میں دفن کیے گئے۔ (اصابہ، ترجمہ انس بن مالک) (۱ )
{11} جب حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کچھ بال اور ناخن منگوائے اور وصیت کی کہ یہ میرے کفن میں رکھ دیئے جائیں ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ( ۲)
(طبقات ابن سعد، جزء خامس، ص۳۰۰)
{12} حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ کے خدام اپنے برتن (جن میں پانی ہوتا) لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوتے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر ایک برتن میں اپنا دست مبارک ڈبو دیتے۔بعض وقت سردی ہوتی تو بھی اسی طرح کرتے۔ (۳ )
(صحیح مسلم، باب قربہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم من الناس وتبرکہم بہ وتواضعہ لہم)
{13} جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وضو فرماتے تووضوکے پانی کے لئے حاضرین میں لڑائی تک نوبت پہنچنے لگتی۔ (صحیح بخاری، کتاب الوضوئ، باب استعمال فضل وضوء الناس) ( ۴)
{14} حضرت ابوجُحَیْفَہ (وہب بن عبد اللّٰہ سوائی) کا بیان ہے کہ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چرمی سرخ قبہ میں تھے۔ میں نے حضرت بلال کو دیکھاکہ انہوں نے

رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وضو کا پانی لیا اور لوگ اس پانی کو لینے کے لئے دوڑ رہے تھے۔ جس کو اس میں سے کچھ ملتا وہ اسے اپنے ہاتھوں پر ملتا اور جس کو کچھ نہ ملتا وہ دوسرے کے ہاتھ کی تری لے کر مل لیتا۔ (۱ )
(صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب القبۃ الحمراء من ادم)
{15} حضرت طلق بن علی یمامی کا بیان ہے کہ ہم اپنے وطن سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف نکلے۔ حاضر خدمت ہوکر ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بیعت کی اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نماز پڑھی اور عرض کیا کہ ہمارے وطن میں ہمارا ایک گرجا ہے۔پھر ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے درخواست کی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے وضو کا بچا ہوا پانی عنایت فرمائیں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پانی طلب فرمایا اوروضو کر کے بقیہ آب کی ایک کلی ہمارے واسطے چھاگل میں ڈال دی اور روانگی کی اجازت دے کر فرمایا کہ جب تم اپنے وطن میں پہنچ جاؤ تو اپنے گرجا کو توڑ ڈالو اور اس کی جگہ پر اس پانی کو چھڑک دو اور گرجا کی جگہ پر مسجد بنالو۔ہم نے عرض کیا کہ ہمارا شہر مدینہ منورہ سے دور ہے گرمی سخت ہے یہ پانی خشک ہو جائے گا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس میں اور پانی ڈال لینا برکت زیادہ ہوجائے گی۔ (۲ )
(مشکوٰۃ بحوالہ نساءی، باب المساجدومواضع الصلوٰۃ)
{16} ایک روز حضرت خداش بن ابی خداش مکی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ایک پیالے میں کھانا کھاتے دیکھا۔انہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے وہ پیالہ بطور تبرک لے لیا۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب حضرت خداش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاں تشریف لے جاتے تو ان سے وہی پیالہ طلب فرماتے۔اسے آب زمزم سے بھر کر پیتے اور چہرے پر چھینٹے مارتے۔ (اصابہ، ترجمہ خداش) (۳ )
{17} حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا بیان کرتی ہیں کہ ہم نے بعض ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاں بطور عروس بھیجا۔ جب ہم خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں تو آپ صَلَّی

اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک بڑا پیالہ دودھ کا نکالا اور اس میں سے پی کر اپنی بیوی کو دیا۔ وہ بولیں کہ مجھے اشتہاء نہیں ۔ (۱ ) حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تو بھوک اور جھوٹ کو جمع نہ کر۔ پھر مجھے عنایت فرمایامیں اس پیالہ کو اپنے ہونٹوں پر پھرانے لگی حالانکہ میں پیتی نہ تھی محض بدیں غرض (۲ ) پھراتی تھی کہ میرے ہونٹ اس جگہ سے لگ جائیں جہاں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہونٹ مبارک لگے تھے۔ بعد ازاں ہم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بیوی کو چھوڑ آئے۔ (معجم صغیر طبرانی، اسم عبدالحمید ) (۳ )
{18} حضرت عاصم احول رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاپیالہ دیکھا جو عریض و عمدہ اور چوب نضار (درخت گز یا شمشاد) کا بنا ہوا تھا وہ ٹوٹ گیا تھا۔ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے چاندی کے تار سے جوڑا ہو ا تھا۔ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے اس پیالہ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بارہا پانی پلایا ہے۔بقول ابن سیرین اس میں لوہے کا ایک حلقہ تھا حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چاہا کہ بجائے لوہے کے سونے یا چاندی کا حلقہ بنائیں مگر ابوطلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کہا کہ جس چیز کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بنایا ہو اُسے تبدیل نہ کرنا چاہیے، یہ سن کر ویسا ہی رہنے دیا۔ (۴ ) (صحیح بخاری، کتاب الاشربہ، باب الشرب من قدح النبیصلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم واٰنیتہ)
پھر یہ پیالہ حضرت نضر بن انس کی میراث سے آٹھ لاکھ درہم کو خریدا گیا۔ امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے روایت ہے کہ میں نے اس پیالے کو بصرہ میں دیکھا اور اس میں پانی پیا ہے۔ (شرح شمائل للبیجوری بحوالہ شرح مناوی) (۵ )
{19} ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب سقیفہ بنی ساعِدہ میں رونق افروز تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ ہمیں پانی پلاؤ۔چنانچہ حضرت سہل

نے ایک پیالہ میں حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اور آپ کے اصحاب کو پانی پلایا۔ حضرت ابو حازم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ حضرت سہل نے وہی پیالہ ہمارے واسطے نکالا اور ہم نے پانی پیا۔ اس پیالہ کو خلیفہ عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت سہل سے مانگ کر لے لیا۔ (صحیح مسلم، باب اباحۃ النبیذالذی لم یشتدولم یصرمسکراً) (۱ )
{20} رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عبد اللّٰہ بن انیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو عرنہ میں خالد بن سفیان بن نُبَیْح ہذلی (۲ ) کے قتل کرنے کے لئے بھیجا۔ حضرت عبد اللّٰہ نے اسے قتل کردیا اور اس کا سر لے کر ایک غار میں داخل ہوئے، اس غار پر مکڑی نے جالا تن دیا، دشمن جو تعاقب میں آئے انہوں نے وہاں کچھ نہ پایا، اور نا امید واپس ہوگئے۔ حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار سے نکل کراٹھارہ دن کے بعد خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور خالد کے سر کو سامنے رکھ کر قصہ بیان کیا۔ حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے دست مبارک میں عصا تھا۔ آپ نے عبد اللّٰہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کو عطا فرمایا اور یوں ارشاد فرمایا: ’’ تخصّر بھٰذہ فی الجنّۃ ‘‘ بہشت میں اس پر ٹیک لگانا۔ وہ عصا حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس رہاجب ان کی وفات کا وقت آیا تو وصیت کی کہ اس عصا کو میرے کفن میں رکھ کر میرے ساتھ دفن کردینا۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (۳ )
{21} امام ابن مامون کا بیان ہے کہ ہمارے پاس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیالوں میں سے ایک پیالہ تھاہم اس میں بغرض شفاء بیماروں کو پانی پلایا کرتے تھے۔ (شفاء شریف) (۴ )
{22} رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اُونی جبہ کسروانی تھا جس کی جیب اور دونوں چاکوں پر دِیبا کی سنجاف (۵ )

تھی۔ یہ جبہ پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس تھاان کے بعد حضرت اسماء بنت ابی بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے لے لیا۔ وہ فرماتی ہیں کہ اس جبہ کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہنا کرتے تھے۔ہم اسے دھو کر بغرضِ شفاء بیماروں کو پلاتے ہیں ۔ (۱ )
{23} حضرت محمد بن جابر کے دادا سیار بن طلق یمامی وفد بنی حنیفہ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ایمان لائے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے اپنی قمیص کا ایک ٹکڑا عنایت فرمائیے میں اس کے ساتھ اپنا دل بہلایا کروں گا۔حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی درخواست منظور فرماکر اپنی قمیص کا ایک ٹکڑا عنایت فرمایا۔ محمد بن جابر کا بیان ہے کہ میرے باپ نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ ٹکڑا ہمارے پاس تھاہم اسے دھو کر بغرض شفاء بیماروں کو پلایا کرتے تھے۔ (اصابہ، ترجمہ سیار بن طلق) (۲ )
{24} جب حضرت وَلید بن وَلید بن مغیرہقرشی مخزومی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مکہ میں قید سے بھاگ کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا کہ میں مرا جاتا ہوں آپ مجھے کسی زائد کپڑے میں جو آپکے جسد اطہر پر رہا ہو کفنانا! چنانچہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو اپنی قمیص میں کفنا یا۔ (۳ ) (اصابہ، ترجمہ ولید بن ولید بن مغیرہ)
{25} حضرت عبد اللّٰہ بن خازم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (۴ ) کے پاس ایک سیاہ عمامہ تھا جسے وہ جمعہ اور عیدین میں پہنا کرتے تھے۔لڑائی میں جب فتح پاتے تو بطور تبرک اس عمامہ کو پہنتے اور فرماتے کہ یہ عمامہ مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پہنایا تھا۔ (اصابہ) (۵ )

 

{26} ایوب بن نجار بروایت ابو عبد اللّٰہ نقل کرتے ہیں کہ ان کے دادا کے پاس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا لحاف تھا۔جب حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے ان کے داداکوکہلا بھیجا۔ چنانچہ وہ اس لحاف کو چمڑے میں لپیٹ کر لائے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس سے اپنے چہرے کو ملنے لگے۔ (تاریخ صغیر للبخاری، ص ۱۱۱) (۱ )
{27} رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بعض وقت شفاء بنت عبد اللّٰہ قرشیہ عدویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کے گھر میں قیلولہ فرماتے۔حضرت شفاء نے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ایک بچھونا اور ایک چادربنوائی تھی جس میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سوجایا کرتے۔ وہ بچھونا اور چادر حضرت شفاء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے خاندان میں رہی یہاں تک کہ مروان بن الحکم نے لے لی۔ (استیعاب واصابہ) (۲ )
{28} جب حضرت کعب بن زُہیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان لاکر اپنا قصیدہ بَانَتْ سُعَاد پڑھا تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو اپنی چادر اڑھائی۔ حافظ ابن حجر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اِصابہ میں بروایت سعید بن مسیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نقل کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جسے خلفاء عیدین میں پہنتے ہیں ۔ (انتہی) (۳ )
ابو بکر بن اَنباری (متوفی ۱۰ذی الحجہ ۳۲۸ھ) کی روایت میں ہے کہ جب حضرت کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس شعر پر پہنچے : ؎
انّ الرّسول لنور یستضاء بہٖ مھند من سیوف اللّٰہ مسلول
تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی طرف چادر مبارک پھینک دی۔ حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس چادر کے لئے دس ہزار درہم خرچ کیے مگر حضرت کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی چادر کے لئے میں کسی کو اپنی ذات پر ترجیح نہیں دیتا۔ حضرت کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات

کے بعد حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کے وَرَثہ سے وہ چادر بیس ہزار درہم کولے لی۔ابن انباری کا قول ہے کہ وہی چادر آج تک سلاطین کے پاس ہے۔ (شرح قصیدہ بانت سعاد لابن ہشام المتوفی ۷۶۱ ھ) (۱ )
{29} حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت ایک چادر لے کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ چادر میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے میں آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں ۔ آپ کو ضرورت تھی اس لئے آپ نے قبول فرمائی۔پھر آپ اسے بطورِ تہبند باندھ کر ہماری طرف نکلے۔ صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے ایک نے دیکھ کر عرض کیا: کیا اچھی چادر ہے یہ مجھے پہنا دیجئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ہاں ! کچھ دیر کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجلس سے اٹھ گئے پھر واپس آئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس سائل صحابی کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس سے کہا کہ تونے اچھا نہ کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس چادر کا سوال کیا۔حالانکہ تجھے معلوم ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی کا سوال رد نہیں فرماتے۔ اس صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: اللّٰہ کی قسم! میں نے صرف اس واسطے سوال کیا کہ میرے مرنے پر یہ چادر میرا کفن بنے۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ چادر اس کا کفن ہی بنی۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس ، باب البرود والحبرۃ والشملۃ) ( ۲)
{30} حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے ہمیں ایک کملی جو پیوندوں کی کثرت سے نَمْدہ (۳ ) کی مثل تھی اور ایک موٹا تہبند نکال کر دکھایا اور فرمایا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان دونوں میں وصال فرمایا۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب الاکسیۃ والخمائص) (۴ )
{31} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خاتَم شریف (۵ ) جس میں تین سطریں یوں تھی ( اللہ محمد رسول ) حضرت ابو بکر

رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تھی پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس رہی بعدازاں حضرت عثمان غنی کو ملی۔ جب ان کی خلافت کو چھ برس ہو گئے تو ایک روز وہ چاہِ اریس پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ہاتھ میں سے کوئیں میں گر پڑی تین دن تلاش کرتے رہے کوئیں کا تمام پانی نکالا گیامگر نہ ملی۔
جب حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلام کی خاتم گم ہو گئی تھی تو ان کی باد شاہت جاتی رہی تھی۔ یہی راز حضور ختم المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خاتم گم ہو نے میں تھا۔ چنانچہ اس کے بعد اس فتنہ کا آغاز ہوا جس کا انجام حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت پر ہوا۔ (وفاء الوفائ، جزء ثانی، ص ۱۲۱) (۱ )
{32} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہِ وَسَلَّم کی تلوار ذوالفقار حضرت امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تھی۔ جب وہ حضرت امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کے بعد یزید کے پاس مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت مسوربن مخرمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت امام سے وہی تلوار مانگی تھی اور عرض کیا تھاکہ ’’ آپ سے لے لیں گے، جب تک میرے جسم میں جان ہے کوئی مجھ سے نہ لے سکے گا۔ ‘‘ ( ۲)
(صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب ماذکر من درع النبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم وعصاہ وسیفہ الخ)
امام اصمعی (متوفی ۲۱۳ھ) ذکر کرتے ہیں کہ ایک روز میں خلیفہ ہارون رشید کے ہاں گیاانہوں نے مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تلوار ذوالفقار دکھائی جس سے بہتر میں نے کوئی تلوار نہیں دیکھی۔ ( ۳) (زرقانی، جزء ثالث، ص۳۷۸)
{33} حضرت عیسیٰ بن طہمان کا بیان ہے کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہمیں دو پرانے نعلین نکال کر دکھائے جن میں سے ہر ایک میں بندش کے دو دو تسمے تھے۔اس کے بعد حضرت ثابت بنانی نے بروایت انس مجھ سے
بیان کیا کہ یہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نعلین شریفین ہیں ۔ (۱ )
(صحیح بخاری، باب ما ذکر من درع النبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم الخ)
{34} جنگ بدر میں حضرت زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو برچھی عبیدہ بن سعید بن عاص کی آنکھ میں ماری تھی وہ یادگار رہی بدیں طور کہ حضرت زُبیر سے حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مُستَعار لی پھر آپ کے چاروں خلفاء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے پاس بطورِ تبرک منتقل ہوتی رہی بعد ازاں حضرت عبد اللّٰہبن زُبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس رہی یہاں تک کہ حَجَّاج نے ان کو ۷۳ھ میں شہید کردیا۔ (۲ ) (صحیح بخاری، باب شہود الملائکۃ ببدر)
{35} جنگ احد میں حضرت عبد اللّٰہ بن جحشرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو ایک کھجور کی شاخ عطا فرمائی وہ ان کے ہاتھ میں تلوار بن گئی۔اس تلوار کو عرجون کہتے تھے۔یہ بطور تبرک ان کے خاندان میں رہی یہاں تک کہ بغا ترکی ( ۳) کے ہاتھ جو معتصم باللّٰہ ابراہیم بن ہارون رشید کے امیروں میں سے تھا بغداد میں دوسو دیناروں میں فروخت ہوئی۔ ( ۴) (زرقانی علی المواہب، جزء ثانی، ص۴۳)
{36} حضرت عتبان بن مالک انصاری خزرجی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میری بصارت جاتی رہی۔ میں نے ایک شخص کو بھیج کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قدم رنجہ فرمائیں اور میرے مکان میں نماز پڑھیں تاکہ میں آپ کی جائے نماز کو مسجد مقرر کرلوں ۔ چنانچہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مع اصحاب تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے مکان میں نماز پڑھی۔ (۵ ) (صحیح مسلم، کتاب الایمان)

{37} ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ابو مریم جہنی کی عیادت کو تشریف لے گئے اور وہیں میدان میں نماز پڑھ کر واپس ہوگئے۔ قبیلہ جہینہ کے چند اشخاص نے ابو مریم سے کہا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے درخواست کریں کہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنفس نفیس ہمارے واسطے ایک مسجد کی حد بندی کردیں ۔ چنانچہ ابو مریم راستے ہی میں حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جاملے اور عرض کیا کہ آپ میری قوم کے لئے ایک مسجد کی حد بندی کردیں ۔ چنانچہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے واپس ہوکر بنو جہینہ میں ایک مسجد کی حد بندی کر دی۔ (۱ ) (اصابہ، ترجمہ ابو مریم جہنی)
{38} آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے منبر شریف کے تین درجے تھے۔ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے اوپر کے درجہ پر بیٹھتے اور درمیانی درجہ پر اپنے پاؤں مبارک رکھتے۔ حضوراقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے عہد خلافت میں بپاس ادب درمیانی درجہ پر کھڑے ہوتے اور جب بیٹھتے تو پاؤں سب سے نیچے کے درجہ پر رکھتے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی خلافت میں سب سے نیچے کے درجہ پر کھڑے ہوتے اور جب بیٹھتے تو پاؤں زمین پر رکھتے ۔حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی خلافت کے پہلے چھ سال حضرت عمر فاروق کی طرح کرتے رہے پھررسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جلوس کی جگہ (۲ ) چڑھے۔ ( ۳) (وفا ء الوفائ، جزء اول، ص۲۸۰)
کشف الغمہ للشعرانی (جزء اول، ص۱۶۱) میں ہے کہ جب حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا عہد آیا تو انہوں نے منبر شریف کے درجات زیادہ کردیئے۔وہ اوپر کے تینوں درجوں کو چھوڑ کر زیادت کے پہلے درجہ پر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ (۴ )

{39} حضرت ابن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کو دیکھا گیا کہ منبر منیف میں جو جگہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بیٹھنے کی تھی اسے ہاتھ سے مس کیاپھر اس ہاتھ کو اپنے منہ پر مل لیا۔ (۱ ) (شفاء شریف وطبقات ابن سعد)
{40} یحییٰ بن سعید جو امام مالک کے استاد تھے جب عراق کو جاتے تو منبر شریف کے پاس آکر اسے مس کرتے اور دعا مانگتے۔ ( ۲) (وفاء الوفائ، جزء ثانی، ص۴۴۲)
{41} مسجد نبوی میں پہلی آتشزدگی یکم رمضان ۶۵۴ ھ میں ہوئی، اس میں منبر نبوی کا بقایا بھی جل گیا چنانچہ ابو الیمن بن عساکِر جو آتشزدگی کے وقت زندہ تھے ’’ تحفۃ الزائر ‘‘ میں یوں لکھتے ہیں :
’’ منبر نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بقایا جل گیا۔اس منبر کے رمانہ کو جس پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیٹھنے کے وقت اپنا دست مبارک رکھا کرتے تھے، زائرین مس کیا کرتے تھے اور دو خطبوں کے درمیان اورپیشتر حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر کی جس جگہ پر بیٹھا کرتے تھے اس جگہ کو اور منبر پر رونق افروز ہونے کے وقت جس جگہ پر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہر دو قدم ہوا کرتے تھے اس جگہ کو بھی زائرین مس کیا کرتے تھے۔ اب آتشزدگی سے وہ اس برکت عامہ و نفع عائد سے محروم ہوگئے۔ (۳ ) (وفاء الوفائ، جزء اول، ص۲۸۰)
{42} حضرت اَسعد بن زِرارَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ایک چارپائی بطور ہدیہ پیش کی تھی جس کے پائے ساگوان ( ۴) کی لکڑی کے تھے۔حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اس پر سویا کرتے تھے۔ جب وفات شریف ہوئی تو حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اسی پر رکھا گیا۔حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی وفات پانے پر اسی پر رکھا گیا۔ بعد ازاں عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو

بھی اسی پر رکھا گیا۔ پھر لوگ بطور تبرک اپنے مردوں کو اسی پر رکھا کرتے تھے۔یہ چارپائی بنو اُمَیَّہ کے عہد میں میراث عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا میں فروخت ہوئی۔ عبد اللّٰہ بن اسحاق نے اسکے تختوں کو چار ہزار درہموں میں خرید لیا۔ (۱ ) (زرقانی علی المواہب بحوالہ ابن عماد، جزء ثالث، ص۳۸۲)
{43} روایت ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے متروکات میں سے بعض چیزیں حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تھیں ۔وہ ایک کمرے میں محفوظ تھیں ۔ ابن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہر روز ایک بار ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔ اَشراف میں سے اگر کوئی ان سے ملنے آتا تو اس کو بھی ان کی زیارت کرایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس کمرے میں ایک چارپائی، چمڑے کا تکیہ جس میں خرما کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک ایک جوڑا موزہ، قطیفہ (لحاف) ، چکی اور ترکش تھی جس میں چند تیر تھے۔ لحاف میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سر مبارک کے میل کا اثر (۲ ) تھا۔ ایک شخص کو سخت بیماری لاحق تھی جس سے شفاء نہ ہوتی تھی۔ابن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اجازت سے اس میل میں سے کچھ دھو کر بیمار کی ناک میں ٹپکا دیا گیا وہ چنگا (۳ ) ہوگیا۔ (۴ ) (مدارج النبوت، جزء ثانی، ص ۶۰۸)
{44} دلائل اَبی نُعَیم میں ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے سخت پتھر ایسے نرم ہوگئے کہ غار بن گئے۔ چنانچہ احد کے دن حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا سر مبارک پہاڑ کی طرف مائل کیاتاکہ مشرکین سے اپنا جسم

مبارک چھپائیں ۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے پتھر کو ایسا نرم کیا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا سر مبارک اس میں داخل کردیا۔ وہ پتھر اب تک باقی ہے اور لوگ اس کی زیارت کرتے ہیں ۔اسی طرح مکہ مشرفہ کے ایک دَرَّہ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز میں ایک سخت پتھر سے قرار پکڑا وہ ایسا نرم ہوگیا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہر دو بازوئے مبارک نے اس میں اثر کیا وہ پتھر مشہور ہے جو لوگ حج کرنے کو جاتے ہیں اس کی زیارت کرتے ہیں ۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے لئے شب معراج میں صخرائے بیت المقدس (۱ ) خمیر کی مانند ہوگیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے اپنا براق باندھا۔لوگ آج تک اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے ہیں ۔ (۲ ) (دلائل النبوۃ للحافظ ابی نعیم الاصبہانی المتوفی ۴۳۰ھ، ص۳۱۵)
{45} عبد الرحمن بن زید عراقی کا بیان ہے کہ ہم ربذہ میں (۳ ) حضرت سلمہ بن اَکوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔انہوں نے اپنا ہاتھ ہماری طرف بڑھایا جو ایسا ضخیم تھا کہ گویا اونٹ کا سم تھااور فرمایا کہ میں نے اس ہاتھ سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بیعت کی ہے، پس ہم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیا۔ (۴ ) (طبقات ابن سعد، جزء رابع، قسم ثانی، ص۳۹)
{46} اسماعیل بن یعقوب تیمی روایت کرتے ہیں کہ ابن منکدر (متوفی ۲۰۵ھ ) مسجد نبوی کے صحن میں ایک خاص جگہ پر لَوٹتے اور لیٹتے۔ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اس جگہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا ہے۔ راوی کا قول ہے کہ میرا گمان ہے کہ ابن منکدر نے کہا کہ خواب میں دیکھا ہے۔ (۵ ) (وفاء الوفائ، جزء ثانی، ص۴۴۵)

اَمثلہ مذکورہ بالا کے مطالعہ کے بعد کسی مسلمان کو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آثار شریفہ سے تبرک کا انکار نہیں ہوسکتا۔اولیاء و علماء جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی برکات کے وارث ہیں ان کے آثار شریفہ میں بھی برکت ہوتی ہے۔اس سے انکار کرنا حرمان و بد نصیبی کی علامت ہے۔زیادہ تفصیل کی اس مختصر میں گنجائش نہیں ۔
شیخ الاسلام حافظ ابو الفتح تقی الدین بن دقیق العید (متوفی ۱۱ صفر ۷۰۲ ھ) رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مدح میں یوں فرماتے ہیں :
یا سائرًا نحو الحجاز مشمّرًا اجھدفدیتک فی المسیروفی السریٰ
واذا سھرت اللیل فی طلب العلا فحذار ثم حذار من خدع الکریٰ
فالقصد حیث النّور یشرق ساطعًا و الطرف حیث تری الثریٰ متعطرًا
قف بالمنازل والمناہل من لدن وادی قباء الی حمی امّ القریٰ
و توخّ آثار النّبیّ فضع بھا متشرفا خدّیک فی عفر الثریٰ
و اذا رأیت مھابط الوحی الّتی نشرت علی الآفاق نورا انورا
فاعلم بانّک ما رأیت شبیھہا مذ کنت فی ماضی الزمان ولا تریٰ
اے حجاز کی طرف تیزی سے چلنے والے! میں تجھ پر فدا تو رات دن چلنے میں کوشش کرنا۔ اور جب تو بزرگیوں کی طلب میں رات کو جاگے تو اونگھ کے فریب سے بچنا پھر بچنا۔ تو اس جگہ کا قصد کرنا جہاں نور خوب چمک رہا ہے۔اور جہاں خاک خوشبودار نظر آتی ہے تو ان منازل اور چشموں پر ٹھہر جاناجو وادیٔ قباء کے قریب سے ام القری (مکہ معظمہ) کے سبزہ زار تک ہیں ۔اور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آثار کا قصد کرنا اور ان کی زیارت سے مشرف ہوتے ہوئے وہاں اپنے ہر دو رخسار کو روئے خاک پر رکھ دینا۔اور جب تو وحی کے اترنے کی جگہوں کو دیکھے جنہوں نے تمام دنیا پر نورا نور پھیلا دیا ہے تو جان لینا کہ تونے اپنی گزشتہ عمر میں ان کی مثل نہیں دیکھا اور نہ آیندہ دیکھے گا۔ (فوات الوفیات، ترجمہ ابن دقیق العید) (۱ )

 

________________________________
1 – الشفاء،القسم الثانی۔۔۔الخ،الباب الثالث فی تعظیم امرہ،فصل: فی سیرۃ السلف ۔۔۔الخ، ج۲،ص۴۴۔علمیہ
2 – الشفاء،القسم الثانی۔۔۔الخ،الباب الثالث فی تعظیم امرہ،فصل:فی سیرۃ السلف ۔۔۔الخ، ج۲،ص۴۶۔علمیہ
3 – صحیح البخاری،کتاب الوضوئ،باب الماء الذی یغسل بہ شعرالانسان،الحدیث:۱۷۰۔۱۷۱،ج۱،ص۸۲۔۸۳۔علمیہ

________________________________
1 – صحیح المسلم،کتاب الفضائل،باب قرب النبی علیہ السلام من الناس۔۔۔الخ،الحدیث : ۲۳۲۵،ص۱۲۷۰۔علمیہ
2 – ’’ مشکاۃ المصابیح ‘‘ میں یہاں یہ الفا ظ بھی ہیں : و نحر نسکہ اور قربانی کا جانور ذبح کیا ۔ علمیہ
3 – مشکاۃ المصابیح،کتاب المناسک،باب الحلق،الحدیث:۲۶۵۰،ج۱، ص۴۹۳ ۔علمیہ
4 – چھوٹی گھنٹی نما۔
5 – صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب مایذکر فی الشیب،الحدیث:۵۸۹۶،ج۴، ص۷۶۔علمیہ

________________________________
1 – اونٹوں کو نَحْرکرنے کی جگہ۔
2 – قربانی کے جانور۔
3 – الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف العین المھملۃ،ترجمۃعبد اللّٰہ بن زید بن ثعلبۃ،ج۴، ص۸۵۔علمیہ
4 – طبقات ابن سعد، جزء ثالث، قسم ثانی، ص ۸۷۔
5 – ایک قسم کا خضاب جس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ سرخ ہوتا ہے ۔و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔علمیہ
6 – الطبقات الکبری لابن سعد طبقات البدریین من الانصار،عبد اللّٰہ بن زید۲۱۸، ج۳، ص۴۰۶۔علمیہ
7 – الشفاء،الباب الثالث فی تعظیم امرہ،فصل:ومن اعظامہ ۔۔۔الخ، ج۲،ص۵۶۔علمیہ
8 – الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف الخاء المعجمۃخالد بن ولید المخزومی،ج۲، ص۲۱۷۔علمیہ

________________________________
1 – کہیں ایسا نہ ہو۔
2 – الشفاء،الباب الثالث فی تعظیم امرہ،فصل:ومن اعظامہ ۔۔۔الخ، ج۲، ص۵۶۔علمیہ
3 – کنگھی کرتے وقت۔
4 – ایک قسم کی خوشبو ہے جو مرکب ہوتی ہے۔۱۲منہ
5 – کافور وصندل وغیرہ جو مردے کے کفن و جسم پر مل دیا جاتا ہے۔۱۲منہ
6 – صحیح البخاری،کتاب الاستئذان،باب من زارقوما فقال عندھم، الحدیث:۶۲۸۱،ج۴، ص۱۸۲-۱۸۳۔علمیہ
7 – صحیح المسلم ،کتاب الفضائل ، باب طیب عرق النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ ، الحدیث :(۸۴) ۔ (۲۳۳۱)، ص۱۲۷۲۔علمیہ

________________________________
1 – الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف الالف انس بن مالک انصاری،ج۱، ص۲۷۶۔علمیہ
2 – الطبقات الکبری لابن سعد،الطبقۃ الثالثۃ من اھل المدینۃ من التابعین عمر بن عبد العزیز۹۹۵،ج۵،ص۳۱۸۔علمیہ
3 – صحیح المسلم،کتاب الفضائل،باب قرب النبی علیہ السلام من الناس۔۔۔الخ،ص۱۲۷۰،الحدیث: ۲۳۲۴۔علمیہ
4 – صحیح البخاری،کتاب الوضو ء،باب استعمال فضل وضوء الناس، الحدیث:۱۸۹،ج۱، ص۸۹ملخصا۔علمیہ

________________________________
1 – صحیح المسلم،کتاب الاشربۃ،باب اباحۃ النبیذ الذی لم یشتد۔۔۔الخ، الحدیث:۲۰۰۷، ص۱۱۱۲۔علمیہ
2 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’نیج ہذلی‘‘ لکھا ہے لیکن زرقانی علی المواہب، حیاۃ الحیوان اور دیگر کتب میں ’’ نُبَیح ہُذلی‘‘ ہے لہٰذا ہم نے کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے یہاں ’’نیج ہذلی‘‘کے بجائے ’’ نبیح ہذلی ‘‘ لکھا ہے۔ علمیہ
3 – حیاۃ الحیوان للدمیری تحت عنکبوت۔ زرقانی علی المواہب، باب ہجرۃ المصطفٰے واصحابہ الی المدینۃ۔ (حیاۃالحیوان الکبری،باب العین المھملۃ،العنکبوت،ج۲،ص۲۲۶، و شرح الزرقانی علی المواہب،باب الہجرۃ المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۲۶۔علمیہ)
4 – الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی،القسم الاوّل، الباب الرابع، فصل فی کراماتہ،ج ۲،ص ۳۳۱۔علمیہ
5 – ایک قیمتی ریشمی جھالر۔

________________________________
1 – صحیح مسلم، باب تحریم اناء الذہب والفضۃ علی النساء والرجال۔ (صحیح المسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم استعمال اناء الذھب والفضۃ علی الرجال والنساء۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۰۶۹ص۱۱۴۷۔علمیہ)
2 – الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف السین المھملۃ،سیار بن طلق الیمامی ج۳، ص۱۹۴۔علمیہ
3 – الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف الواو، الواوبعدھااللام،الولید بن الولید بن المغیرۃ ۹۱۷۲ج۶، ص۴۸۶۔علمیہ
4 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’عبداللّٰہ بن حازم‘‘ لکھا ہے لیکن اصابہ اور دیگر کتب میں ’’عبداللّٰہ بن خازم‘‘ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے اصابہ کے مطابق ’’ عبداللّٰہ بن خازم ‘‘ لکھا ہے۔علمیہ
5 – الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف العین المھملۃ،عبد اللّٰہ بن خازم ،ج۴، ص۶۱۔علمیہ

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!