اِنقلابِ اَعیان
جن چیزوں کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کادست مبارک لگا ، یاحضور کے استعمال میں آئیں ان کی حقیقت و ماہیت بدل گئی۔ بغرضِ تو ضیح ذیل میں چند مثالیں درج کی جاتی ہیں :
ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈرگئے (گویا کوئی چو ریا دشمن آتاہے) آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابو طَلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار تھا اوراس پر بغیر زین کے سوار ہو کر اکیلے جنگل کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد لوگ بھی سوار ہوکر اس طرف نکلے۔ آنحضرت صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم ان کو واپس آتے ہوئے ملے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ ڈرو نہیں ڈرونہیں ‘‘ اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔ اس دن سے وہ گھوڑا ایسا چالاک بن گیا کہ کوئی دوسرا گھوڑا اس سے آگے نہ بڑھ سکتا تھا۔ (3 )
حضرت ام مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس ایک چمڑے کی کُپّی تھی جس میں وہ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں گھی بطور ہدیہ بھیجا کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس کو نہ نچوڑنا۔ یہ فرماکر آپ نے کُپّی ام مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو دے دی۔ وہ کیا دیکھتی ہیں کہ کُپّی گھی سے بھری ہوئی
ہے۔ ام مالک کے لڑکے آکر نان خورش (1 ) مانگتے تو وہ کُپّی میں گھی بدستور پاتیں ۔ غرض وہ گھی اسی طرح خرچ ہوتا رہا یہاں تک کہ ایک روز ام مالک نے کُپّی کو نچوڑا توخالی ہوگئی۔ (2 )
اُم اَوس بہزیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے کُپّی میں گھی ڈال کر بطور ہدیہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قبول فرمایا اور کُپّی میں سے گھی نکال لیااور اُم اَوس کے لئے دعائے برکت فرماکر کُپّی واپس کردی۔ جب اُم اَوس نے دیکھا تو گھی سے بھری ہوئی پائی اسے خیال آیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہدیہ قبول نہیں فرمایا اس لئے وہ فریاد کرتی ہوئی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد سے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس سے حقیقت حال بیان کردی ۔ ام اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہَا اس کُپّی میں آنحضر تصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بقیہ عمر شریف اور خلافت صدیقی وفاروقی وعثمانی میں گھی کھاتی رہی یہاں تک کہ حضرت علی وامیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے درمیان جنگ وقوع میں آئی۔ (3 )
حضرت عبدالرحمن بن زید بن خطاب قرشی عدوی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کوتاہ قد پیدا ہوئے تھے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے سر پر اپنادست مبارک پھیر ا او ر دعا فرمائی اس کا یہ اثر ہوا کہ عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب کسی قوم میں ہوتے تو قد میں سب سے بلند نظر آتے، جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔ (4 )
ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز عشاء کے لئے نکلے۔ رات اندھیری تھی اور بارش ہو رہی تھی۔ آپ نے حضرت قَتَادَہ بن نعمان اَنصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا۔ انہوں نے عرض کیا: میں نے خیا ل کیا کہ نمازی کم ہوں گے اس لئے میں نے چاہا کہ جماعت میں شامل ہوجاؤں ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
نماز سے فارغ ہوکر حضرت قَتَادَہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کو کھجور کی ایک ڈالی دی اور فرمایا کہ یہ ڈالی دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ پیچھے روشنی کرے گی، جب تم گھر پہنچو تو اس میں ایک سیاہ شکل دیکھو گے، اس کو مار کر نکال دینا کیونکہ وہ شیطا ن ہے۔ جس طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ویسا ہی ظہور میں آیا۔ (1 )
جنگ بدر میں حضرت عکاشہ بن محصن رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی خدمت میں آئے۔ حضور نے ان کوایک لکڑی عنایت فرمائی۔ جب عکاشہ نے ہاتھ میں لے کر ہلائی تو وہ ایک سفید مضبوط تلوار بن گئی جس سے وہ جنگ کرتے رہے۔ اس تلوار کانام عَوْن تھا۔ حضرت عکاشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسی کے ساتھ جہاد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد میں اَیَّام الرِّدَّۃ (2 ) میں شہید ہو گئے۔ ( 3)
جنگ احد میں حضرت عبداللّٰہ بن جحش رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو ایک کھجور کی شاخ عنایت فرمائی وہ ان کے ہاتھ میں تلوار بن گئی جس کے ساتھ وہ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ اس تلوار کو عرجون کہتے تھے۔ ( 4)
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک پانی کا مشکیزہ لیا اس کا منہ باندھ کر دعا فرمائی اور صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو عطافرمایا۔ جب نماز کا وقت آیا تو انہوں نے اسے کھولا کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں بجائے پانی کے تازہ دودھ ہے اور اس کے منہ پر جھاگ آرہی ہے۔ (5 )
حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلام نے حضرت سلمان فارسی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کیلئے جو کھجور کے پیڑ اپنے دست مبارک سے لگائے تھے وہ ایک ہی سال میں پھل لائے۔ ( 1) بانجھ بکری کے تھنوں پر آپ کادست مبارک پھر گیا وہ دودھ دینے لگی۔ (2 ) گنجے کے سرپر دست شفا پھیرا تواسی وقت بال اُگ آئے۔
________________________________
1 – بیٹے کے انتقال پر اس کی ماں سے تعزیت کی۔
2 – المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،ابراء ذوی العاہات واحیاء الموتی۔۔۔الخ،ج۷،ص۶۳۔ علمیہ
3 – بخاری، کتاب الجہاد، باب الصرعۃ والرکض فی الفزع۔ (صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب السرعۃ والرکض فی الفزع، الحدیث:۲۹۶۹،ج۲،ص۳۰۱۔ علمیہ)