اولیاء اللہ کا بیک وقت واحد کئی جگہ موجود رہنا :
اولیاء اللہ کا بیک وقت واحد کئی جگہ موجود رہنا :
جب یہ مشاہدہ سے ثابت ہوگیا اور لاکھو ں عقلاء نے اس کو تسلیم کر لیا ،تو ان وقائع کے انکار کی کوئی وجہ نہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ اولیاء اللہ وقت واحد میں کئی جگہ جا سکتے ہیں ۔امام سیوطی ؒ نے ’’القول المنجلی فی تطور الولی ‘‘میں لکھا ہے کہ : ایک مسئلہ میرے پاس پیش ہوا کہ ایک مجلس میں کسی نے کہا :آج رات شیخ عبد القادر طجطوطی ؒ میرے یہاں تشریف لائے تھے اور رات بھر وہیں رہے ! دوسر ے نے کہا کہتے ہو وہ تو رات بھرمیرے یہاں تھے اس نے کہا غلط کہتے ہو ! غرض کہ طرفین سے گفتگو بڑھی او ریہاں تک نوبت پہنچی کہ دونوں نے قسم کھا ئی کہ اگر وہ بزرگ گزشتہ رات میرے یہاں نہ تھے تو میری بیوی پر طلاق !اور فیصلہ اس پر ٹھہر ا کہ ٰخود ان ہی حضرت سے پوچھا لیا جائے کہ آپ گزشتہ رات کہاں تھے ؟جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر چار شخص بھی دعویٰ کریں کہ میں ان کے پاس تھا تووہ صحیح ہے !علماء میں گفتگو شروع ہوئی کہ کس کی بیوی پر طلاق واقع ہوئی ؟امام سیوطی ؒ نے یہ فیصلہ دیا کہ کسی
پر طلاق نہیں ہوئی ؟کیونکہ ایک شخص وقت واحد میں کئی مقامات میں کرامت سے رہ سکتا ہے ۔
اس کے بعد اسی میں لکھا ہے کہ تاج الدین سبکی ؒ نے طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں ابو العباس ؒ کے حال میں لکھا ہے کہ وہ صاحب کرامات تھے ،ان کے شاگرد عبدالغفار اپنی مصنفہ کتاب ’’وحید التوحید ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جمعہ کے روز ہم شیخ کی خدمت میں حدیث پڑھ رہے تھے اور ان کی با توں پرہمیں لذت حاصل ہو رہی تھی،ایک لڑکا وضو کرنے لگا شیخ نے کہا : اے مبارک کہا ںجائو گے ؟ کہا مسجد کو ! فرمایا :قسم ہے میں نے نماز پڑھ لی !لڑکا جب مسجد کو گیا تو لوگ نماز پڑھ کر مسجد سے باہرنکل رہے تھے، عبدالغفار کہتے ہیں کہ میں نے بھی نکل کر لوگوں سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ شیخ ابوالعباس مسجد میں ہیں اور لوگ ان پر سلام کر رہے ہیں !یہ سن کر میں نے شیخ کے پاس آکر حال دریافت کیا ؟فرمایا کہ : مجھے قوت ِتبدّلِ صورت دی گئی ہے ۔
اور لکھا ہے کہ صفی الدین بن ابی المنصور نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ شیخ مفرج کا عجیب واقعہ یہاں گزرا کہ ایک شخص نے حج سے آکر اپنے احباب میں ذکر کیا کہ شیخ مفرج کو میں نے عرفات میں دیکھا، دوسرے نے کہاکہ وہ تو دمائین سے کہیں نہیں گئے !دونوںمیں گفتگو یہاں تک بڑھی کہ ایک نے قسم کھا ئی اور کہا اگر میں جھوٹ کہہ رہا ہوں تو میری عورت پر طلاق ۔دونوں نے شیخ کے پا س جاکر کہا کہ ہم دونوں نے اس معاملہ میں طلاق کی قسم کھا ئی ہے ؟ فرما یا کسی کی عورت پر طلاق نہیں پڑی،میںنے پوچھا کہ جب ایک شخص سچا ہے تو دوسرے کی عورت پر ضرور طلاق پڑنی چاہئے ؟اس وقت مجلس میں بہت سے علماء حاضر تھے شیخ نے فرمایاکہ اس مسئلہ میں تم
لوگ گفتگو کرو !ہر ایک نے اپنی اپنی رائے بیا ن کی مگر تشفی نہ ہوئی ،آخر میں مجھ سے فرما یا کہ تم وضاحت سے بیان کرو ! میں نے کہا کہ جب کسی کی ولایت متحقق ہو جا تی ہے تو وہ ہر صورت کے ساتھ متشکل ہو سکتا ہے اور اپنی روحانیت کی وجہ سے متعد د جہات میں وقت واحد میں جا سکتا ہے ،اور یہ سب کام اس کے اردہ سے ظہور میں آتے ہیں ، اس وجہ سے جو صورت کہ عرفات میں دیکھی گئی حق تھی ،اورجو صورت کہ دمائین میں دیکھی گئی وہ بھی حق تھی ۔ شیخ نے فرمایا یہی بات صحیح ہے ۔
اور امام یافعی ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ اس قسم کی بات بعید نہیں ہے فقہا ء نے تصریح کی ہے کہ کعبہء معظمہ کو لوگوں نے دیکھا ہے کہ بعض اولیاء اللہ کے طواف کے لئے گیا ، حالانکہ اس وقت وہ مقام سے منتقل نہیں ہوا تھا ۔ اور لکھا ہے کہ شیخ خلیل مالکی جو امام سمجھے جا تے تھے اور جلالت شان ان کی مسلم ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک جماعت سے منقول ہے کہ یہ دیکھا گیا کہ کعبۃ اللہ نے بعض اولیاء اللہ کا طواف کیا ہے
اورلکھا ہے کہ بعض بزرگوں سے ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ لوگ جو ہوا پر اڑنے کی بڑی بات سمجھتے ہیں وہ کوئی بڑی بات نہیں ؟البتہ بڑی بات یہ
ہے کہ ایک شخص مشرق میں اور ادوسرا شخص معرب میں اور دنوں کو باہمی ملاقات کی خواہش ہواور دونوں ایک جگہ جمع ہو ں اور ملاقات کرکے واپس آجائیں اور لوگ ان کو اپنے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے دیکھیں ۔یعنی اپنے مقاموں میں بھی موجود رہیں اور دوسری جگہ بھی جائیں ۔
اور لکھا ہے کہ امام یافعی ؒ نے روض الریا حین میں ذکر کیا ہے کہ ایک شخص حج سے فارغ ہو کر جب گھر آیا تو باتو ں باتوں میں اپنے بھائی سے کہا کہ اس سال سہل ابن عبدا للہ تستریؒ بھی حج میں شریک تھے اور عرفات کے موقف میں میں نے انہیں دیکھا !بھائی نے کہا وہ تو یوم الترویہ یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تا ریخ اپنی رباط میں تھے جو تستر کے دروازہ پر ہے! اس نے کہا میںنے ان کو عرفات میں ضرور دیکھا ہے اگر یہ خلاف واقعہ ہے تو میری عورت پر طلاق ! دونوں شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا ؟شیخ نے تصدیق کرکے کہا ان امور کی دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ، اور قسم کھانے والے سے فرمایا کہ تمہاری عورت پر طلاق نہیں ہوئی ،مگر کسی سے یہ حال بیان نہ کرنا ۔
اور لکھا ہے کہ شیخ خلیل مالکی ؒ نے بھی اپنی کتاب میں شیخ عبد اللہ متوفی کا بھی ایک ایسا ہی واقعہ ذکر کیا ہے ۔اورلکھا ہے کہ شیخ ابو العباس موسی ٰ ؒ کے حال میں لکھتے ہیں کہ کسی شخص نے آپ کو جمعہ کے روز بعدنماز جمعہ اپنے گھر بلا یا آپ نے قبول کیا ،اس کے بعد یکے بعد دیگر پانچ شخصوں نے جمعہ کے بعد اپنے گھر آنے کو کہا آپ نے سب کو اچھا کہا ،جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے تو اپنے مکان میں تشریف لا کر فقراء کے ساتھ حسب عادت تشریف رکھی اور کہیں نہ گئے ، اس کے بعد پانچو ں نے آکر تشریف فرمائی کا شکریہ اداء کیا ۔
اور لکھا ہے کہ شیخ تاج الدین بن عطاء اللہ کے شاگردوں میں سے ایک شخص حج کو گیا ،جب واپس آیا تو شیخ کا حال دریافت کیا ؟ لوگوں نے کہا خیریت سے ہیں ! پھر کہا وہ بھی اس سال حج میں شریک تھے چنانچہ میں نے شیح کو مطاف او رمسعیٰ و عرفات وغیرہ مقامات میں دیکھا ۔لوگوں نے کہا وہ تو یہاں سے کہیں نہیں گئے ؟!وہ شخص شیح کی ملاقات کو گیا شیخ نے اثنا ئے کلام میں پوچھا کہ سفر میں کن کن بزرگوں کو تم نے دیکھا ؟کہا حضرت میں نے تو آپ کو بھی دیکھا ہے !شیح نے تبسم فرمایا ۔
اورلکھاہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے قضیب البان موصلیؒ کا حال دریافت کیا گیا ؟ فرمایا وہ ولی مقرب و صاحبِ حال و قدمِ صدق ہیں ۔ کسی نے کہا ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ انہو ںنے نماز پڑھی ہو !فرمایا وہ وہاں نماز پڑھتے ہیں کہ تم ان کو نہیں دیکھ سکتے ،ہیں میں انہیں دیکھتا ہوں کہ موصل میں یا او رکسی شہر میں نماز پڑھتے ہیں تو وہ باب کعبہ پر سجدہ کر تے ہیں ۔ ابوالحسن قرشی کہتے ہیں کہ میں بار قضیت البان ؒ کی ملاقات کو گیا دیکھا ان کا جسم اس قدر بڑا ہے کہ تمام گھر ان سے بھر گیا ،میں یہ دیکھ کر ڈر گیا ،پھر جب دوبارہ گیا تو دیکھا کہ وہ اپنی اصلی حالت پر ہیں ۔
او رلکھا ہے کہ شیخ برہان الدین ؒ انباسی نے اپنی کتاب ’’ تلخیص الکواکب المنیرۃ ‘‘میں لکھاہے کہ جب شیخ ابو العباسؒ مکہ معظمہ کو گئے تو حرم شریف میں شیخ ابوالحجاج اقصری ؒ سے ملاقات ہوئی اور اولیاء اللہ کا ذکر خیر دیر تک ہو تا رہا ، ابوالحجاج ؒ نے کہا کیا طواف کعبہ کی خواہش ہے ؟ابو العباس ؒ نے کہا کہ خداے تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں کہ اُس کا گھر اُن کا طواف کرتا ہے ! ابوالحجاج نے جو نظر اٹھاکر دیکھا تو فی الواقع بیت اللہ ان دونوں کے اطراف طواف کر رہا ہے ۔ انبا سی ؒ نے لکھا ہے کہ یہ کوئی انکار کے قابل بات نہیں ،اس کی نظریں اخبار صالحین میں بہت سی ملتی ہیں ۔
اور لکھا ہے کہ ابن قیم ؒ ’’کتاب الروح ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :روح کی وہ شان ہے جو بدن کو حاصل نہیں ، چنانچہ رفیق اعلیٰ میں رہتی ہے اوراسی حالت میں بدن کے ساتھ بھی اس کو اتصال ہو تا ہے ،اس طورپر کہ جب اس پر سلام کیا جائے تو جواب سلام دیتی ہے۔
جب یہ بات مسلم ہوئی کہ کرامت سے ایک شخص متعد ومقامات میں رہ سکتا ہے تو اس سے ایک بہت بڑا فائدہ حاصل ہوا ، وہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ ایک ایک جنتی کو اتنے باغ دیے جائیں گے جو زمین و آسمان کے برابر ہوں۔مطلب یہ کہ تمام رو ئے زمین کی سلطنت کے مساوی ہر شخص کو وہاں سلطنت دی جا ئے گی ۔اور یہ ظاہر ہے کہ آدھی بلکہ پائو زمین بھی سرسبز نہیں ہے اور اس میں باغ تو شاید لاکھوں حصہ بھی نہ ہوں گے ، بخلاف
جنت کے کہ اس کی شان میں حق تعالیٰ فرما یا ہے و جنات أ لفا فاً یعنی کثیر اشجا ر والی جنتیں ۔پھر صرف باغات ہی نہیں بلکہ عیش و عشرت کے جملہ سامان موقعہ موقعہ پر مہیا اور موتیوں وغیرہ کے محل او ران میں حو و غلمان وغیرہ موجود ہو ںگے ۔ غرضـکہ ایک شخص کے واسطے ایک اتنا بڑا ملک جس کی شان میں حق تعالیٰ وملکاً کبیراً فرما تا ہے معین فرما یا گیا، اگر تھوڑی تھوڑی دیر ایک ایک خط اورمکان میں سیر و تفرج ہو تو تمام ملک کی گشت کرنے کے لئے ایک مدت دراز درکا ہے ۔پھر جس چیز کو دیکھئے دلچسپ و دل فریب اور قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی مقام یا کوئی چیز پسند آجا تی ہے تواس کے چھوڑ نے کو دل نہیں چاہتا :
کرشمہ دامن ِدل می کشد کہ جا اینجا ست
اس لحاظ سے تو ہر مقام او رہرچیز ہی پاس اقامت کر نے پر مجبور کر ے گی ،اور تمام سلطنت کی اشیاء کا وجود اس شخص کے حق میں بیکار ہو گا ، حالانکہ وہاں کی کل اشیاء خاص اسی کے انتقاع کے لئے ہیں ۔ مگر جب ہمیں معلوم ہوا کہ کرامت سے ایک آدمی اِس عالَم میں متعد مقامات میں بوقتِ واحد رہ سکتا ہے تو جنت تو خاص ’’دار الکرا مت ‘‘ہے وہاں جس قدر کرامات اور اقتدارات مسلمانوں کو دیے جائیں گے ان کا شمار ہی نہیں۔ اس صورت میں یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ ہر مقام میں جتنی اپنی ذات سے رہ سکے گا اورکوئی چیز اس کے حق میں بیکا ر ثابت نہ ہوگی ۔