کتب

امام صاحب کے تلامذہ کے اختلاف کی وجہ

امام صاحب کے تلامذہ کے اختلاف کی وجہ

یہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ امام صاحب کے تلامذہ نے امام صاحب سے جو اختلاف کیا ہے اُس کی کیا وجہ ؟
اُس کا جواب موفق ؒ نے ’’مناقب ‘‘میں لکھا ہے کہ سہل بن مزاحم کہتے ہیں کہ جن مسائل میں ابو یوسفؒ نے امام صاحب کا خلاف کیا ہے اُس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے امام صاحب کے اقوال کی وجہ نہیں سمجھی انتہی ۔
فی الحقیقت امام صاحب کی نظر نہایت غامض تھی ۔ چنانچہ پیشتر اس کا حال معلوم ہوا ۔ اور امام ابو یوسف ؒ خود بھی کہتے ہیں کہ جس مسئلہ میں میرا اور امام صاحب کا قول موافق ہوگیا

تو میرے دل میں قوت اور نور پیدا ہوتا تھا اور جس مسئلہ میں اُن کے قول کو چھوڑ دیا تو دل میں ضعف اور شک پہاڑوں کے برابر رہتا تھا ۔
خالد بن صبیح ؒکہتے ہیں کہ یہ بات میں نے خود ابو یوسف ؒ سے سنی ہے ۔ ذکرہ الامام الموفق فی المناقب ۔
قرائن پر غور کرنے سے اس اختلاف کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ جن مسائل کی تحقیق کے وقت وہ غیر حاضر رہے اور امام صاحب کی تقریر اُن مسائل میں نہیں سنی اُن میں غور اور اجتہاد کرنے کی اُن کو ضرورت ہوئی ، ورنہ تقریر اگر سن لیتے تو خود حالت اذعانی اور انکشافی پیدا ہوجاتی۔ جس کے بعد اجتہاد کرنے کی ضرورت ہی نہ رہتی ۔ کیونکہ وہاں یہ قاعدہ ٹہراہوا تھا کہ جب تک کوئی مسئلہ پورے طور پر طے نہ ہوجاتا لکھنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ اسی وجہ سے بعض مسائل میں ایک ایک مہینے تک مناظرے ہوتے رہتے اور اثنائے مناظرہ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ امام صاحب اپنے قول سے رجوع کرجاتے تھے ، مگر آخری تقریر جس پر فیصلہ کا انحصار تھا ایسی ہوا کرتی تھی کہ اُس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اُٹھا سکتا ، بلکہ سب کے دلوں میں اُس سے ایک انبساطی کیفیت پیدا ہوتی ، جس سے بے اختیار نعرۂ اللہ اکبر بلند ہوتاتھا ۔
الغرض جب تمام اہل حلقہ اُس کو تسلیم کرلیتے ، اُس وقت امام صاحب اُس کو لکھنے کا حکم دیتے ۔ یہ بات ہرگز قرین قیاس نہیں کہ امام ابو یوسفؒ جیسے شخص کسی مسئلہ میں اپنا شک بیان کرتے رہیں اور امام صاحب اُس پر توجہ نہ کر کے اُس مشکوک مسئلہ کو طے شدہ مسئلوں میں تصور کر لیتے ہوں گے ۔ پھر طرفہ یہ کہ امام صاحب ابو یوسف ؒ ہی کو طے شدہ مسائل لکھنے کو کہا کرتے تھے جیسا کہ ابھی معلوم ہوا ۔ اگر اُن کو کسی مسئلہ میں شک رہ جاتا تو کہدیتے کہ حضرت خود مجھی کو اس میں اب تک شک باقی ہے ، پھر اُس کو طے شدہ مسائل میں کیونکر لکھوں ؟ بہرحال یہ ہرگز قرین قیاس نہیں کہ ابو یوسفؒ کسی مسئلہ کی تحقیق میں شریک رہے

ہوں اور اُن کوشک رہ گیا ہو ۔
ہاں !یہ ممکن ہے کہ بعض مسائل کی تحقیق میں وہ شریک نہ ہوسکے ؛ کیونکہ تدوین فقہ سالہال سال ہوتی رہی ، اس مدت مدیدہ میں بالالتزام ہر روز صبح سے شام تک حاضر رہنا تقریباً ناممکن تھا ، اس غیر حاضری کے زمانہ میں جو مسائل طے ہوگئے تھے اُن میں اُن کو اجتہاد کرنے کی ضرورت تھی ؛ کیونکہ وہ بھی آخر مجتہد تھے ، پھر امام صاحب کے جن اقوال کی وجہ اُن کی سمجھ میں نہ آئی مجبوراً انہوں نے اُن میں خلاف کیا ۔

’’اذاصح الحدیث فھو مذہبی ‘‘کا مطلب

اگرچہ مقتضائے قیاس یہ تھا کہ حنفی المذہب کو صرف ابو حنیفہؒ کی اتباع چاہئے ، ابو یوسفؒ کا قول ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ، مگر چونکہ ابو یوسفؒ امام صاحب کے اعلیٰ درجہ کے شاگرد ہیں ، اور انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ اپنا ذاتی کوئی قول نہیں بلکہ امام صاحب کے کسی قول کو اختیار کرلیتے ہیں ، اس لئے اُن کی اتباع بھی امام صاحب ہی کی اتباع ہے ، چنانچہ ردالمحتار میں لکھا ہے:۔’’ و فی اٰخر الحاوی القدسی : و اذا اخذ بقول واحد منہم یعلم قطعاً انہ یکون بہ اٰخذا بقول ابی حنیفۃ ، فانہ روی عن جمیع اصحابہ من الکبار کأبی یوسف و محمد و زفر والحسن ، انہم قالوا ’’ ماقلنا فی مسئلۃ قولا الا وھو روایتنا عن ابی حنیفۃ ‘‘ و اقسموا علیہ ایماناً غلاظاً‘‘
دیکھئے جب ابو یوسف ؒ وغیرہ تلامذۂ امام صاحب سخت سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ کوئی قول اُن کا ذاتی نہیں بلکہ وہ بھی امام صاحب ہی کے قول ہیں ، تو اُن حضرات کی اتباع سے حنفی شخص حنفیت سے خارج نہیں ہوسکتا ،کیونکہ ممکن ہے کہ جو قول امام صاحب کی طرف منسوب ہے وہ مرجوع عنہ ہو ۔ اس میں شک نہیں کہ جب ایک مسئلہ میں متعدد قول امام صاحب کے مروی ہوں تو قطعی طور پر مفتی بہ قول معلوم کرنا ہر شخص کا کام نہیں ۔ اس لئے

فقہائے حنفیہ میں جو اصحاب الترجیح سمجھے گئے ہیں انہوں نے جس روایت کو مفتی بہ کہدیا وہی امام صاحب کا مفتیٰ بہ قول سمجھا جائے گا ، جس سے تقلید شخصی امام صاحب کی ثابت ہوگی۔
اس مقام میں صاحب ردالمحتار نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جو قول امام صاحب کا ظاہر الروایہ سے خارج ہو وہ مرجوع عنہ ہے ، اس لئے ابو یوسف وغیرہ کے اقوال پر عمل جائز نہ ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ ہم حنفی ہیں یوسفی وغیرہ نہیں ۔
پھر اُس کا یہ جواب دیا ہے کہ امام صاحب نے اُن صاحبوں کو اجازت دی تھی کہ جو قول اپنی دانست میں مُوَجَّہْ پائیں اُسی پر عمل کریں۔ اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’اذا صح الحدیث فھو مذھبی‘‘ اس وجہ سے ان حضرات نے جس قول کو مطابق حدیث پایا اُس پر عمل کیا ، اِس صورت میں ظاہر الروایہ سے خارج اقوال بھی من جمیع الوجوہ مرجوع عنہ نہ ہوئے اور اُن کی اتباع سے ہماری حنفیت میں فرق نہ آئیگا ۔ انتہی ملخصاً ۔
اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ظاہر الروایہ کے کسی قول سے امام صاحب نے رجوع کیا ہی نہیں ۔ ابو یوسف ؒ صاحب نے ظاہر حدیث پر عمل کیا ہے ، تو بھی ابو یوسفؒ حنفیت سے خارج نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے اگر وہ مجتہد بھی ہیں تو مجتہد فی المذہب ہیں مجتہد مطلق نہیں ۔ کیونکہ جو قواعد اجتہاد امام صاحب نے قرار دیئے ہیں وہ اُن سے خارج نہیں ہوسکتے تھے ، اس لئے اصحاب الترجیح اگر امام ابو یوسف ؒکے قول پر مثلاً فتویٰ دیں تو وہ بھی دراصل امام صاحب ہی کا قول سمجھا جائیگا ۔
یہ بات یاد رہے کہ ’’اذا صح الحدیث فھو مذھبی ‘‘کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اسناد کی صحت کافی بلکہ کسی حدیث پر عمل کرنے کے لئے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ حدیث منسوخ نہ ہو ؛ حالانکہ منسوخ حدیث کی اسناد صحیح بھی ہوا کرتی ہے اور یہ بھی ضرور ہے کہ قرآن کے یا قیاس صحیح کے معارض نہ ہو جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حدیث ’’ من قال لا الہ الا اللہ ‘‘ پر عمل نہیں کیا ، اس وجہ سے کہ قیاس صحیح کے معارض تھی ۔
غرضکہ آخری زمانہ والے امام صاحب کے اس قول سے نفع نہیں اُٹھاسکتے ، اس لئے کہ جب تک آدمی مجتہد نہ ہو تمامی ضروری امور کی پابندی کر کے حدیث سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں کرسکتا ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!