اسلاممقاصد الاسلام

الوسواس

الوسواس

اس لفظ کے معنی ’’وسوسہ انداز ‘‘ کے لئے جا تے ہیں ۔دراصل ’’وسواس ‘‘ بالفتح اسم ہے اور بالکسر مصدر ،’’وسوسہ ‘‘ خفی آواز کو کہتے ہیں جو ہوا کی سنی جاتی ہے ،اور زیور کی آواز کو بھی کہتے ہیں ،ہر چند وسوسہ دل میں ہو تا ہے جہاں کسی قسم کی آواز کا وجود نہیں ۔
مگر چونکہ وسوسہ میں باتیں ہوا کر تی ہیں اور باتوں کا تعلق آواز سے ہے اس لئے دل کی باتوں پر وسوسہ کیا اطلاق کیا گیا ہے جس کے معنی خفی آواز کے ہیں ۔ اور وسوسے چونکہ پلٹ پلٹ کر دل میں آتے جا تے ہیں اس لئے لفظ وسواس میں بھی تکرار ہوئی تاکہ تکرار لفظی تکرارا معنوی پر دلالت کرے ۔
اکثر استعما اس لفظ کابری باتوں میں ہوتا ہے جو دل میں آتی ہیں ،چناچہ ’’وسوسہ ء شیطانی ‘‘ کہا جا تا ہے ۔چونکہ شیطان ہمیشہ وسوسے ڈالتا رہتا ہے اور کوئی دم ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ وسوسہ نہ ڈالے یا اس کی فکر میں نہ ہو اس وجہ سے اس پر وسواس کا اطلاق فرمایا گیا ،جیسے زید عدل کہا جا تا ہے ، یعنی وسوسے ڈالتے ڈالتے وہ ہمہ تن وسوسہ ہی بن گیا ۔چونکہ شیا طین کی تخلیق اسی لئے ہے کہ اسباب شقاوت وضلالت قائم کیا کریں ،اسی لئے وہ کبھی اس کام سے تھکتے نہیں ،جس طرح فرشتوں کی تخلیق عبادت کے لئے ہے جس کے کرنے سے وہ تھکتے نہیں ،جیساکہ قرآن شریف سے ثابت ہے ۔

تصرف شیطانی در نفس

اب کہیئے کہ وسوسہ انداز جو پیچھے پڑگیا اور سوائے اِس کے اُس کو کوئی دوسرا کام ہی نہیں تو اس کے شر سے بچنا کیسا مشکل کام ہے !! نفس میں جتنی صفات رکھی گئی ہیں مثلاً شجاعت ، جبن ، بخل ، صبر ، بے صبری ، حیا ، بے حیائی ،قناعت ، حرص ،تکبر، تواضع، رحم، جور و جفا وغیرہ ان سب کے استعمال کے

طریقے ایسے بتلا تاہے کہ ذمیمہ تو ذمیمہ اخلاق حمیدہ بھی ذمیمہ ہو جا تے ہیں ۔مثلاً صفت سخاوت کسی میں ہوتوایسے مصرف پیش کردیتا ہے کہ مال تلف ہوجائے اور بجائے نام آوری کے بدنامی اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل ہو ،مثلاً عیاشی وغیرہ ۔ اور اگر اسیے کاموں سے نفرت ہوتو خیال نام آوری اور ریاء سمعہ ،عُجب وغیرہ پیش کردیتا ہے جس سے سوائے اتلاف مال کے آخرت میں کچھ فائدہ نہ ہو ۔
چونکہ نفس میں قواے شہوانیہ وغضبہ موجود ہیں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اپنی کل خواہشیں پوری کرے ، اور جتنی خواہشیں ہیں سب کو پوری کرنے کی اجازت بھی حق تعالیٰ نے دی ہے ۔ مثلاً عورت کی خواہش ہوتو نکاح کی اجازت ہے ،اسی طرح خواہشوں کا حال ہے ۔مگر شیطان جو آدمی کا دشمن ہے وہ نہیں چاہتا کہ حلال طریقہ سے خواہشیں پوری ہوں جس کی وجہ سے آدمی مستحق ثواب ہی ہوجائے ،بلکہ وہ مشورت دیتا ہے کہ ناجائز طریقہ سے پوری کی جائیں تاکہ بجائے اسکے مستحق ثواب ہونافرمانی کے جرم میں مستحق عذاب بنادے ۔
شیطان جس طرح بت پرستی پر لگا تا ہے ہوا پر ستی پر بھیی لگا تا ہے جو بت پر ستی سے بھی بدتر ہے،جیساکہ حدیث شریف میں ہے قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما تحت ظلل سماء من الٰہ یعبد من دون اللہ اعظم عند اللہ من ہوًیٰ متبع ( کذافی کنز العمال ) یعنی فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ :آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جس معبود باطل کی بھی عبادت ہوتی ہے ان میں ہواے متبع سے بدتر کوئی نہیں ۔ ’’ہوائے متبع ‘‘ کا مطلب ہے کہ خدا اور رسول کے حکم کے خلاف بھی کوئی خواہش ہو تو آدمی اس خواہش کا متبع رہے او رحکم شرعی کا کچھ خیال نہ کرے ۔ ہوا پرستی کے بت پرستی سے بدتر ہونے کی یہ وجہ ہے کہ بت پرستی بھی ہوا پرسی ہی کا ایک شعبہ ہے۔جب حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ ہوا پرستی بت پرستی سے بھی بدترہے تو مسلمانوں کو اپنی خواہشوں کے پورا کرنے میں کس قدر احتیاط کرنے کی ضرورت ہے !!غرضکہ شیطان بذریعہ ،ہواے نفسانی آدمی کو تباہ کرکے اپنی خواہشیں پور ی کرتا ہے ۔اگر وساوس شیطانی نہ ہو ںتو آدمی نہ دنیا کی پریشانی میں پڑے نہ آخرت میں مصیبت بھگتے ۔
جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ شیطان ہمارا جانی دشمن ہے جیساکہ خداے تعالیٰ
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کی عداوت اور اس کی مکاریاں ظاہر کرکے مسلمانوں کو ہدایت فرمادی ہے کہ اس سے احتراز کرو اور اس کہنا مانو ۔ اور اس کے کہنے کا طریقہ بھی معلوم کرا دیا کہ دل میں جو بیہودہ خیالات آتے ہیں وہ وساوس شیطانی ہیں۔ تو اب آدمی کو لازم ہے کہ علم کے ذریعہ سے معلوم کرے ۔
کنز العمال میں یہ حدیث وارد ہے عن الاشعت بین قیس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أشکر کم عند اللہ اشکرکم للناس یعنی :فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے : بڑا شکر گزار اللہ کا تم میں وہی شخص ہے جو لوگو ں کا شکر زیادہ کرے ‘‘۔ مطلب یہ کہ اپنے محسن کا شکر کرنا گویا خدا ے تعالیٰ کا شکر کرنا ہے ۔اگر محسن کا شکر زیادہ کروگے تو زیادہ شکر باری تعالیٰ کاہوجائے گا ، کیونکہ محسن صرف واسطہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا ے تعالیٰ کی نعمت پہونچی ہے ،اگر وسائط بالکلیہ ساقط کر دیے جائیں تو خداے تعالیٰ نے جوعالم اسباب میں مصلحتیں ،رکھی ہیں وہ فوت ہو جائیں گی اور ان کافوت ہونا خدا ے تعالیٰ کو منظور نہیں ، اسی وجہ سے حدیث شریف میں وارد ہے کمانی کنزالعمال : عن ابن عباس قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من أنعم اخیہ نعمۃ فلم یشکر ہا فدعا علیہ یستجیب لہ ۔یعنی جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کوئی نعمت عطاء کرے اوروہ اس کا شکر یہ ادا نہ کرے او رمحسن اس کی نا شکری کی وجہ سے اس کے حق میں بد دعاء کرے تو خدا ے تعالیٰ اس کی بد کو قبول فر ما لیتا ہے ‘‘ ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ احسان کا شکر نہ کرنا محسن کے دل کو دُکھا نا ہے ، اس دل آزاری کی سزا یہ مقرر ہوئی کہ وہ جوکچھ بارگاہ کبریا ئی میں اس کی نسبت عرض کرے گا وہ قبول ہوجا ئے گی ۔اس سے ظاہر ہے کہ چند انعام و عطاء حق تعالیٰ کی جانب سے ہے مگر جن وسائط و ذرائع سے وہ نعمت حاصل ہو تی ہے وہ بھی قابل اعتبا رہیں ۔
اگر وسائط نہ ہوں تو انتظام درہم برہم ہو جائے گا ،جس کا جی چاہے گا کسی پر ظلم کرکے کہہ دے گا کہ میں نے کیا کیا وہ تو خدا ے تعالیٰ کا فعل تھا ۔ اور ہر شخص بحسب اقتضائے شہوات نفسا نیہ گناہوں کا مرتکب ہو کر کہے گا کہ میں بری الذمہ ہو ںجو چاہا خدانے کیا ۔ یہ درست ہے کہ بغیر مشیت الٰہی کوئی کام

نہیں ہوتا ،مگر برا کام کر نے کے وقت آدمی کا مقصود صرف یہی ہو تا ہے کہ اپنی خواہش پوری کرے جس سے تلذذخلاف امر الٰہی نفس کو حاصل ہو ۔ اس مقصود کو پوار کرنے کے بعد اگر یہ چا ہے کہ خدا ے تعالیٰ پر الزام لگا کر آپ بر الذمہ ہو جائے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ براکام تم نے کیا اس میں فعل الٰہی کو کیا دخل ؟ تو اس کایہی جواب دے گا کہ یہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے !تو ہم کہیں گے کہ جس طرح قرآن شریف سے وہ ثابت ہے یہ بھی ثابت ہے !تو ہم کہیں گے کہ جس طرح قرآن شریف سے وہ ثابت ہے یہ بھی ثابت ہے کہ برے کامو ں سے خدا ے تعالیٰ نے منع فر مایا ہے اور اس کی سزا مقرر فرمائی ہے۔اگر قرآ ن شریف اس قابل ہے کہ اس پرایمان لایا جائے تواس کے کل احکام پر ایمان لانا چاہئے ،اس کے کیا معنی کہ اپنے مطلب کی آیتوں پر ایمان لاکر استد لال میں پیش کریں اور جن کا اثر نفسانی خو ا ہشوں پر پڑتا ہے ان کو نظر انداز کر دیں !!اس سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ سواے آیات مشیت الٰہی کے دوسری آیات پر ایمان ہی نہیں۔جو شخص بعض آیات پر ایمان لائے اور بعض آیات پر ایمان نہ لائے تو اس بارے میں حق تعالیٰ فرما تاہے أفتؤ منون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض فما جزاء من یفعل ذٰلک منکم الا خزی فی الحیوٰۃ الدنیا ویوم القیامۃ یردون الی أشد العذاب یعنی : ’’کیا تم بعض آیات پر ایمان لاتے ہو اور بعض پر کو نہیں مانتے !تو ایسے لوگوں کی جزاء یہی ہے کہ دنیا میں رسواہوں اور آخرت میں سخت عذاب میں ڈالے جائیں ‘‘۔
الحاصل ایمان کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جوکچھ فرمایا ہے سب پر ایمان لائیں ،اور یہ نہ کہیں کہ یہ بات فلاں آیات کے خلاف ہے !بلکہ ایسے مواقع پر یہ خیال کریں کہ ہربات خداے تعالیٰ کی قابل تسلیم ہے ۔اگر اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہ ہو تو ہمیں اس کی تحقیق ضرورت نہیں ہمارا کام بقدر استطاعت عمل کرنا ہے ،چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے المؤ من کا لجمل الانف حیثما انقید انقاد (اوکما قال صلی اللہ علیہ وسلم ) یعنی :’’مسلمان کی مثل اس اونٹ کی سی ہے جس کے نکیل لگی ہوئی ہو اس کا حال یہی ہے کہ جدھر کھینچیں ادھر مطیع ومنقاد وفر مان بردار ہورکر چلا جا تاہے ‘‘۔اگر یہ بات حاصل نہ ہوتو سمجھا جائے گا کہ وہ سرکش ہے،پھر خداے تعالیٰ کے مقابلے میں کس کی سرکشی چل سکتی ہے ؟ الغرض مسئلہ ء تقدیر و مشیت پیش کرکے گنا ہوں پر جرأت کرنا مسلمان کا کام نہیں ۔
مروی ہے کہ شیطان نے بارگاہ کبریانی میں عرض کی کہ مجھ سے جو معصیت ہوئی وہ بحسب تقدیر تھی تو پھر یہ لعنت کیوں کی گئی ؟ارشاد ہواکہ تو نے جس وقت نافرمانی کی کیا جانتا تھا کہ وہ تقدیر میں ہے ؟ کہا نہیں !ارشاد ہوا کہ اسی کی سزا ہے جو تو ملعون ہوا ۔ فی الحقیقت جس وقت اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اس وقت حسد اور تکبر اس پر اس قدر غالب تھا کہ تقدیر کا خیال بھی اس کو نہ آیا ہوگا ، ورنہ صاف کہہ دیتا کہ الٰہی تونے میری تقدیر میں مخالفت لکھی ہے اس لئے میں سجدہ نہیں کرتا،بلکہ بجائے اس کے اس نے یہ کہا کہ میں ہرگز سجدہ نہ کروںگا کیونکہ تونے مجھے آگ سے پیدا کیا جو لطیف ہے اور ان کومٹی سے جو کثیف ہے اور لطیف کا کثیف کے روبرو سر جھکا نا عقلاً خلاف وضع ہے ۔غرضکہ اپنی وضعدار ی اس وقت اس کے پیش نظر تھی ۔
اسی طرح ہر گناہ کے وقت ایک خیال متمکن رہتا ہے جس کی وجہ سے آدمی مرتکب گنا ہو جا تاہے ،اور بعد گناہ اگر تقدیر او رمشیت وغیرہ کے مسئلہ میں استدلال کرے تو وہی جواب ہوگا جو شیطان کو دیا گیا تھا ۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!