اسلامواقعات

اعجاز القرآن کی تیسری وجہ غیب کی خبریں

اعجاز القرآن کی تیسری وجہ
غیب کی خبریں :

 

قرآن میں پہلے نبیوں اور گزشتہ اُمتوں اور قُرُونِ مَاضیہ ( 5) کے قصے مذکور ہیں مثلاً حضرت آدم و حوا کا قصہ، حضرت نوح و طوفان کا قصہ، حضرت ابراہیم و سارہ کا قصہ، حضرت اسحاق اور حضرت لوط کے حالات، حضرت مریم و تولد مسیح ( 6) کا قصہ، ابتدائے پیدائش کا حال، ان میں بعض قصے جو علمائے اہل کتاب کو بھی شاذو نادر ہی معلوم تھے یہود کے سوال کرنے پر بتائے گئے مثلاً اصحاب کہف کا قصہ، ذوالقرنین کا قصہ، حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کا قصہ، حضرت موسیٰ وخضر کا قصہ۔ یہ تمام قصے قرآن مجید میں کتب سابقہ الہامیہ (7 ) کے مطابق مذکور ہیں ۔
قرآن میں شرائع سابقہ کے اَحکام مذکور ہیں ۔ مثلاً سورۂ مائدہ رکوع اوَّل میں ہے:

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ
حرام ہوا تم پر مردہ اور لہو اور گوشت سور کا اور جس چیز پر نام لیا گیا اللّٰہ کے سوا کا اور جو مر گیا گلا گھٹ کر۔ ( 1)
اعمال باب ۱۵، آیہ ۲۹ میں ہے:
’’ تم بتوں کے چڑھاوؤں اور لہو اور گلاگھونٹی ہوئی چیزوں اور حرامکاری سے پرہیز کرو۔ ‘‘
اس آیت میں جو سور کے گوشت کی جگہ حرامکاری لکھا ہے درست نہیں کیونکہ اس مقام پر حلال و حرام خوراک کا ذکر ہے حرام کاری سے کیا عَلَاقَہ۔ (2 )
قرآن میں بعض احکام بحوالہ کتب الہامیہ سابقہ مذکور ہوئے ہیں مثلاً سورۂ مائدہ رکوع ۷ میں ہے:
وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِۙ-وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّۙ-وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌؕ-
اور لکھ دیا ہم نے ان پر قصاص اس کتاب (تورات ) میں کہ جی کے بدلے جی اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخم کا بدلہ برابر۔ ( 3)
تورات، کتاب الخروج، باب ۲۱، آیہ ۲۳۔ ۲۵ میں یوں ہے:
’’ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت، ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں ، جلانے کے بدلے جلانا، زخم کے بدلے زخم، چوٹ کے بدلے چوٹ۔ ‘‘
بعض احکام یہود کے طعن کے جواب یا ان کی تردید میں وارد ہوئے ہیں چنانچہ سورۂ آل عمران، رکوع ۱۰ میں ہے:

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِیْلُ عَلٰى نَفْسِهٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُؕ- قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (۹۳)
سب کھانے کی چیزیں حلال تھیں بنی اسرائیل کو مگر جو حرام کرلی تھیں اسرائیل ( یعقوب) نے اپنی جان پر تورات نازل ہونے سے پہلے۔ توکہہ لاؤ تورات اور پڑھو اسے اگر سچے ہو۔ ( 1)
اس آیت کا شانِ نزول موضح القرآن میں یوں لکھاہے: ’’ یہود آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہتے کہ تم کہتے ہو ہم ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم کے گھرانے میں جو چیزیں حرام ہیں سوکھاتے ہو، جیسا کہ اونٹ کا گوشت اور دودھ۔ اللّٰہنے فرمایا کہ جتنی چیزیں اب لوگ کھاتے ہیں سب ابراہیم کے وقت میں حلال تھیں یہاں تک کہ تورات نازل ہوئی۔ تورات میں خاص بنی اسرائیل پر حرام ہوئی ہیں مگر ایک اونٹ کہ تورات سے پہلے حضرت یعقوب نے اس کے کھانے سے قسم کھائی تھی ان کی تَبْعِیَّت (3 ) سے ان کی اولاد نے بھی چھوڑدیا تھااور قسم کا سبب یہ تھا کہ ان کو ایک مرض ( عرق النساء) ہوا تھا انہوں نے نذر کی کہ اگر میں صحت پاؤں تو جو میری بہت بھاؤ کی چیز (2 ) ہے وہ چھوڑ دوں گا۔ ان کو یہی بہت بھاتا تھا سو نذر کے سبب چھوڑدیا۔ ‘‘
اسی طرح خود یہود پر جو چیزیں حرام تھیں ان کی نسبت وہ کہتے کہ یہ ہم ہی پر حرام نہیں ہوئیں بلکہ حضرت نوح و حضرات ابراہیم اور پہلی امتوں پر بھی حرام تھیں ۔ ان کے اس خیال کی تردید آیۂ ذیل میں مذکور ہے:
وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍۚ-وَ مِنَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍؕ-ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ ﳲ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ (۱۴۶) ( انعام، ع۱۸)
اور ان پر ہم نے حرام کیاتھا ہر ناخن والا اور گائے اور بکری میں سے ہم نے حرام کی ان پر ان دونوں کی چربی مگر جو لگی ہو پشت پر یا آنت میں یا ملی ہو ہڈی کے ساتھ۔ یہ ہم نے ان کو سزا دی تھی ان کی شرارت (4 ) پر اور ہم سچ کہتے ہیں ۔ (5 )

جانوروں کے حلال وحرام کے احکام کی طرح اَحکامِ جنب و حائض و نُفَسَاء بھی قرآن میں کتب سابقہ کے مطابق بیان ہوئے ہیں ۔
ناظرین کرام! موافق و مخالف سب کو معلوم ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُمی تھے۔نہ کبھی کسی استاد کے آگے زانوئے شاگردی تہ کیااور نہ کبھی علمائے اہل کتاب میں سے کسی عالم کی صحبت سے اِستفادہ فرمایا۔ جیسا کہ پہلے آچکا ہے۔ پس تَعلُّم و مُجالَسَتِ علماء کے بغیر قصص مذکورہ بالا اور احکام ملل سابقہ کی خبر اس طرح دینا کہ مصدق کتب الہامیہ سابقہ ہو (1 ) ا س امر کی دلیل ہے کہ یہ سب اللّٰہ تعالٰی نے حضور کو وحی کے ذریعے بتایا۔ اسی واسطے یہود و نصاریٰ کی ایک جماعت آپ پر ایمان لائی اور باقی جو اس نعمت سے محروم رہے اس کا سبب محض حسدو عناد تھا۔
قصص و احکام کے علاوہ قرآن میں کتب سابقہ کے بعض اور مضامین صراحۃً یا اشارۃً بصورت اعمال کتب مذکور ہیں ۔ دیکھو آیاتِ ذیل:
… {1}
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ (۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ (۱۵) بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ (۱۶) وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ (۱۷) اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰىۙ (۱۸) صُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى۠ (۱۹) ( سورۂ اعلٰی)
بیشک بھلا ہوا اس کا جو سنورا اور پڑھا نام اپنے رب کا پھر نماز پڑھی۔ بلکہ تم آگے رکھتے ہودنیا کا جینا اور آخرت بہتر ہے اور رہنے والی۔ یہ لکھا ہے پہلے صحیفوں میں ، صحیفوں میں ابراہیم کے اور موسیٰ کے۔ (2 )
… {2}
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْــٴَـلْ بَنِیْۤ
اور ہم نے دیں موسیٰ کو نونشانیاں صاف سوپوچھ بنی اسرائیل سے

اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا (۱۰۱) ( بنی اسرائیل، ع۱۲)
جب آیا وہ ان کے پاس تو کہا اس کو فرعون نے میری اٹکل میں اے موسیٰ تجھ پر جادو ہوا ہے۔ ( 1)
اس آیت میں نو نشانیوں سے وہ نو معجزے مراد ہیں جو اللّٰہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو فرعون کے مقابلے میں عطا کیے۔ ان نو نشانیوں کا ذکر تورات ( کتاب الخروج، باب ۷ تا ۱۰) میں بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔
… {3}
ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﱠ كَزَرْعٍ اَخْرَ جَ شَطْــٴَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ- (سورۂ فتح، ع۴)
یہ صفت ہے اُن کی تورات میں اور صفت ہے ان کی انجیل میں جیسا کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا پھر اس کی کمر مضبوط کی پھر پٹھا موٹا ہوا پھر کھڑا ہوا اپنی نال پر خوش لگتا ہے کھیتی والوں کو تاجلاوے ان سے جی کافروں کا۔ ( 2)

تورات موجودہ ( کتاب پیدائش، باب ۲۶، آیہ۱۲۔۱۳) میں یہ تفصیل یوں پائی جاتی ہے:
’’ اور اسحق نے اس زمین میں کھیتی کی اور اسی سال سوگنا حاصل کیااور خداوند نے اسے برکت بخشی اور وہ مرد بڑھ گیااور اس کی ترقی چلی جاتی تھی یہاں تک کہ بہت بڑا آدمی ہوگیا۔ ‘‘
اور انجیل مَتّٰی، باب ۱۳، آیہ۳۱۔۳۲ میں یوں ہے:
’’ وہ ان کے واسطے ایک اور تمثیل لایاکہ آسمان کی بادشاہت خردَل کے دانے (3 ) کی مانند ہے جسے ایک شخص نے لے کر اپنے کھیت میں بو یا وہ سب بیجوں میں چھوٹا، پَر جب اُگاسب ترکاریوں سے بڑا ہوتااور ایسا پیڑ ہوتا کہ ہوا

کی چڑیاں آکے اس کی ڈالیوں پر بسیر اکرتیں ۔ ‘‘
… {4}
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ- وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِؕ- ( سورۂ توبہ، ع۱۴)
اللّٰہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور مال اس قیمت پر کہ ان کے لئے بہشت ہے۔ لڑتے ہیں اللّٰہ کی راہ میں پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں ۔ وعدہ ہوچکا اس کے ذمے پر تورات اور انجیل اور قرآن میں ۔ (1 )
موجودہ کتب عہد عتیق و جدید میں بہت جگہ جہاد کا ذکر ہے۔ تفصیل کے لئے مصابیح الظلام اردو اور فارسی مولفہ خاکسار دیکھو۔ پولوس عبرانیوں کو اپنے نامہ (باب ۱۱، آیہ ۳۲۔۳۳) میں یوں لکھتا ہے:
’’ اب میں کیا کہوں فرصت نہیں کہ جِدعُون اور برق اور سَمْسُون اور افتح اور داؤد اور سموئیل اور نبیوں کا حال بیان کروں ۔ انہوں نے ایمان سے بادشاہوں کو مغلوب کیااور راستی (2 ) کے کام کیے او ر وعدوں کو حاصل کیا اور شیرببر کے منہ بند کیے۔ ‘‘
… {5}
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ (۱۰۵) (انبیاء، ع۷)
اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں بعد ذکر (تورات ) کے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔ ( 3)
زبور ۷ ۳، آیہ ۲۹ میں ہے: ’’ صادِق زمین کے وارث ہوں گے۔ ‘‘

… {6}
لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ (۷۸)
( مائدہ، ع۱۱)
لعنت کھائی منکروں نے بنی اسرائیل میں سے داؤد اور مریم کے بیٹے عیسٰی کی زبان پر۔ یہ اس سبب سے کہ گنہگار تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔ (1 )
حضرت داؤد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام فرماتے ہیں :
’’ وے جو میری برائی سے خوش ہوتے ہیں شرمندہ اور رسوا ہو ویں اور جو میری دشمنی پر پھولتے ہیں شرمندگی اور رسوائی کا لباس پہنیں ۔ ‘‘ (زبور ۳۵، آیہ ۲۵)
حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام فرماتے ہیں :
’’ اے ریا کار فقیہو اور فَرِیسیو! (2 ) تم پر افسوس کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو باہر سے بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔ پَربھیتر ( 3) مُردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی ناپاکی سے بھری ہیں ۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں لوگوں کو راست بازدکھائی دیتے ہو پر باطن میں ریا کار اور شرارت سے بھرے ہو۔ ‘‘ (انجیل متی، باب ۲۳، آیہ ۲۸)
… {7}
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (۶) ( صف، ع۱)
جب کہا عیسیٰ مریم کے بیٹے نے اے بنی اسرائیل! میں بھیجا آیا ہوں اللّٰہ کا تمہاری طرف سچا کرتا اس کو جو مجھ سے آگے ہے تورات سے اور خوشخبری سناتا ایک رسول کی جو آوے گا مجھ سے پیچھے اس کا نام احمد ہے۔ پھر جب آیا ان کے پاس وہ رسول کھلے نشان لے کر بولے یہ جادو ہے صریح۔ ( 4)

اس آیت کا پہلا حصہ متی، باب۵، آیہ ۱۷۔۱۸۔ اور پچھلا حصہ یوحنا، باب ۱۴، آیہ ۱۶ میں ہے۔ مگر یوحنا کے موجودہ یونانی نُسخوں میں آیہ زیر استدلال میں بجائے لفظ احمد کے لفظ پاراقلیطوس (Paracletos) ہے جس کے معنی انگریزی میں کمفرٹر اور اردو میں تسلی دینے والا درج کردیئے گئے ہیں ۔ مگر یہ صاف تحریف لفظی ہے۔ اصل میں یونانی لفظ پر یقلیطوس (Pariclytos) تھا جس کے معنی ہیں بہت سراہا ہوا یعنی احمد، اہل کتاب جو اپنی کتابوں میں تحریف کرتے رہے ہیں انہوں نے لفظ پر یقلیطوس کو بدل کر پار اقلیطوس بنادیا۔ جروم جس نے چوتھی صدی مسیحی میں انجیل کا لاطینی ترجمہ کیا اس نے لفظ زیر بحث کو لا طینی میں پیر قلی طاس لکھا ہے جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اصلی نسخہ یونانی جو جروم کے پاس تھا اس میں پریقلیطوس تھانہ کہ پاراقلیطوس۔ اسی طرح انجیل برنباس میں بھی پریقلیطوس موجود ہے۔ علاوہ ازیں اگر انجیل میں بشارت احمد نہ ہوتی تو علمائے اہل کتاب کبھی قرآن کی صداقت پر ایمان نہ لاتے بلکہ اس کے بر عکس قرآن مجید کی تکذیب کرتے۔
… {8}
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- ( مائدہ، ع۵)
اسی سبب سے لکھا ہم نے بنی اسرائیل پر کہ جو کوئی مارڈالے ایک جان بغیر بدلے جان کے فساد کے بیچ زمین کے تو گویا مار ڈالا اس نے سب لوگوں کو اور جس نے جلایا ایک جان کو تو گویا جلایا اس نے سب لوگوں کو۔ (1 )
اس آیت کے متعلق تفسیر موضح القرآن میں یوں لکھا ہے: ’’ یعنی ا وَّل روئے زمین میں بڑا گناہ یہی ہوا اور اس سے آگے رسم پڑی۔ اسی سبب سے تورات میں اس طرح فرمایا کہ ایک کو مارا جیسے سب کو مارا یعنی ایک کے کرنے سے اور دلیر ہوتے ہیں تو سب کے گناہ میں اول بھی شریک تھے اور جیسا ایک کو جلایا سب کو جلادیایعنی ظالم کے ہاتھ سے بچادیا۔ ‘‘

آیت مذکورہ بالا کا مضمون اب تورات موجودہ میں نہیں ملتا مگر تلمود (1 ) یعنی احادیث یہود سے پایا جاتا ہے کہ اس میں تھا۔ چنانچہ کتاب پیدائش، باب ۴، آیت ہذا میں لفظ خون اصل عبرانی میں بصیغہ جمع ہے۔ اس کی تفسیر میں شناہ سنہدرین (2 ) میں مفسر یہودی نے جو کچھ عبرانی میں لکھا ہے۔ اس کا ترجمہ ولیم سینٹ کلرئزل واعظ مشن جلفہ واقع ایران فارسی میں یوں کرتا ہے:
’’ نسبت بقاین کہ برادر خو درا کشت یافتہ ایم کے دربارۂ وے گفتہ: آواز خوں ہائے برادرت فریاد برمے آورد نمے گوید خون برادرت بلکہ خونہائے برادرت یعنی خون وے و خون اولادش بنا بریں انسان بہ تنہائی آفریدہ شد۔ برائے آزمودنِ توکہ ہرکہ ہلاک کردیکے نفسے از اسرائیل را کتاب بروے حسابش رامے نماید کہ گویا ہمہ عالم را ہلاک کردہ باشدو ہر کہ یکے نفسے از اسرائیل را زندہ کردکتاب بر وے حسابش را مے نماید کہ گویا ہمہ عالم را زندہ کردہ باشد۔ ‘‘ (ینابیع الاسلام، صفحہ ۳۹۔۴۰)
اس ترجمے میں کتاب سے مراد بظاہر تورات ہے۔ فَافْہَمْ! ( 3) …
{9} وَّ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ (نساء، ع۲۲)
اور ان کے سود لینے پر حالانکہ وہ اس سے منع کیے گئے۔ (4 )
تفسیر حسینی میں ہے: ’’ حالانکہ نہی کردہ شدہ اند از اخذ ربو در تورات۔ ‘‘ تورات میں یہ ممانعت احبار، باب۲۵، آیہ ۳۶ میں ہے۔
آیات مذکورہ بالا کا اس نبی اُمی ( بِاَبِی ہُوَ وَ اُ مِّی) کی زبان مبارک سے نکلنا بجز وحی الٰہی نا ممکن تھا لہٰذا یہ سب اِخْبَار بِالْمُغِیبات (5 ) کی قسم سے ہیں اور ان کی صحت میں کسی مخالف نے چون و چرا نہیں کی۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اہل کتاب کو وہ باتیں بتادیں جنہیں وہ چھپاتے تھے۔ (مائدہ، ع ۳) حالانکہ وہ ان کی کتابوں میں موجود تھیں مثلاً نبی آخر الزمان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت پیشین گوئیاں ، آپ کے اوصاف، حکم رجم وغیرہ مگر ان

میں سے کوئی بھی اپنی کتاب پیش کرکے آپ کی تکذیب نہ کر سکا۔ اس سے بڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صداقت کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ (۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ (۴) (سورۂ نجم) (1 )
کتب اِلہامیہ کا محاورہ بھی قابل غور ہے دیکھئے آیات ذیل:
{1} … فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ (۳۳) (انعام، ع۴)
سو وہ تجھ کو نہیں جھٹلاتے لیکن بے انصاف اللّٰہکے حکموں سے منکر ہوئے جاتے ہیں ۔ (2 )
اول سموئیل، باب ۸، آیہ ۷ میں ہے:
’’ وہ تجھ سے منکر نہیں ہوئے ہیں بلکہ مجھ سے منکر ہوئے ہیں ۔ ‘‘
{2} … نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَۗۙ-كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘ (۱۰۱) ( بقرہ، ع۱۲)
پھینک دی ایک جماعت نے کتاب پانے والوں میں سے اللّٰہ کی کتاب اپنی پیٹھوں کے پیچھے گویا کہ ان کو معلوم نہیں ۔ ( 3)
نحمیاہ، باب ۹، آیہ ۲۶ میں ہے:
’’ اور انہوں نے تیری شریعت کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔ ‘‘
{3} … وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (۴۷) (حج، ع۶)
اور ایک دن ( 4) تیرے رب کے ہاں ہزار برس کے برابر ہے ۔ جو تم گنتے ہو۔ ( 5)

زبور۹۰، آیہ ۴ میں ہے:
’’ ہزار برس تیرے آگے ایسے ہیں جیسے کل کا دن جو گز رگیا۔ ‘‘
{4} … تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّؕ-وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْؕ- (بنی اسرائیل، ع۵)
اس کی ستھرائی بولتے ہیں آسمان ساتوں اور زمین اور جوکوئی ان میں ہے اور کوئی چیز نہیں جو نہیں پڑھتی خوبیاں اس کی لیکن تم نہیں سمجھتے ان کا پڑھنا۔ (1 )
زبور ۱۹، آیہ ۲۔۳میں ہے:
’’ آسمان خدا کا جلال بیان کرتے ہیں اور فضا اس کی دستکاری دکھاتی ہے۔ ایک دن دوسرے دن سے باتیں کرتا ہے ا ور ایک رات دوسری رات کو معرفت بخشتی ہے۔ ان کی کوئی لغت اور زبان نہیں ان کی آواز سنی نہیں جاتی۔ ‘‘
{5} … كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ- (حدید، ع۳)
جیسے کہاوت ایک مینہ کی جو خوش لگا کسانوں کو اس کا سبزہ اگنا پھر زور پر آتا ہے پھر تو دیکھے اس کو زرد ہوگیا پھر ہوجاتا ہے روندن۔ ( 2)
زبور۹۰، آیہ ۶ میں ہے:
’’ وے (3 ) فجر کو اس گھاس کی مانند ہیں جو اُگی ہو وہ صبح کو لہلہاتی ہے اور تروتازہ ہوتی ہے شام کو کاٹی جاتی ہے

اور سوکھ جاتی ہے۔
{6} … اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ- (اعراف، ع۵)
بیشک جنہوں نے جھٹلائی ہماری آیتیں اور ان کے سامنے تکبر کیا نہ کھلیں گے ان کو دروازے آسمان کے اور نہ داخل ہوں گے جنت میں یہاں تک کہ داخل ہو اونٹ سوئی کے ناکے میں اور ہم یوں بدلہ دیتے ہیں گنہگاروں کو۔ (1 )
اس آیت کا اخیر حصہ انجیل لوقا، ( با ب ۱۸، آیہ ۲۵) میں یوں ہے:
’’ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا ا س سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو۔ ‘‘
{7} … وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ وَ لَا یَضُرُّكَۚ- (یونس، ع۱۱)
اور مت پکار اللّٰہ کے سوا ایسے کو کہ نہ بھلا کرے تیر ا اور نہ برا کرے تیرا۔ ( 2)
یرمیاہ، باب ۱۰، آیہ ۵ میں ہے:
’’ ان کے معبودوں سے مت ڈرو کہ ان میں ضرر پہنچانے کی سکت نہیں اور نہ ان میں قوت ہے کہ فائدہ بخشے۔ ‘‘
{8} … یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِؕ-
جس دن ہم لپیٹ لیں آسمان کو جیسے لپیٹتا ہے طور مار رقعوں کو جیسے

كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗؕ-وَعْدًا عَلَیْنَاؕ-اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ (۱۰۴) (انبیآء، ع۷)
سرے سے بنایا ہم پہلی بار پھر ا س کو دہرا دیں گے۔ وعدہ ہوچکا ہے ہم پر ہم کو کرنا ہے۔ (1 )
یسعیاہ، باب ۳۴، آیہ ۴ میں ہے:
’’ اور آسمان کا غذ کے تاؤ کے مانند لپیٹے جائیں گے۔ ‘‘
مکاشفات، باب ۶، آیہ ۱۴ میں ہے :
’’ اور آسمان طور مار کی طرح ( 2) جب آپ سے لپیٹا جائے دوحصے ہوگیا۔ ‘‘
… {9} اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ- (بقرہ، ع۳۴)
جیتا ہے سب کا تھامنے والا نہیں پکڑتی ہے اس کو اونگھ اور نہ نیند۔ (3 )
زبور ۲۱، آیہ ۴ میں ہے:
’’ دیکھ وہ جو اسرائیل کا محافظ ہے ہر گز نہ اونگھے گا اور نہ سوئے گا۔ ‘‘
… {10} اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ (۱۵) (بقرہ، ع۲)
اللّٰہہنسی کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی شرارت میں بہکے ہوئے۔ (4 )
زبور ۲، آیہ ۴ میں ہے:
’’ وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسے گااور خداوند انہیں ٹھٹھوں میں اڑادے گا۔ ‘‘
اسی طرح زبور۵۹، آیہ۸ میں ہے:
’’ پر تو اے خداوند ان پر ہنسے گا تو ساری قوموں کو مسخرہ بنادے گا۔ ‘‘
ناظرین! آپ اَمثِلہ بالا سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ’’ قرآن و دیگر کتب الہامیہ ‘‘ میں بلحاظ محاورہ کس قدر مطابقت

ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ نزولِ قرآن اور نزولِ کتب سابقہ میں کتنا عرصہ دراز گزرا ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کتب سابقہ میں تحریف معنوی اور تحریف لفظی اس کثرت سے ہوئی ہے کہ کتابوں تک کا پتہ نہیں چلتا۔ بایں ہمہ قرآن و کتب سابقہ موجودہ میں محاورہ کی ایسی مطابقت کا پایا جانا صاف بتارہا ہے کہ دونوں صورتوں میں ’’ متکلم ‘‘ ایک ہی ہے وہ خدائے علیم جس نے تورات حضرت موسیٰ پر، زبور حضرت داؤد پر، انجیل حضرت عیسیٰ پر اور دیگر صحیفے دوسرے نبیوں پر بھیجے اسی نے قرآن مجید اپنے پیارے نبی اُمی (بابی ہو وامی) پر نازل فرمایا جو بخلاف دیگرکتب عبارت میں بھی مُعْجِز (1 ) ہے اور مکمل ایسا کہ اس کی موجود گی میں کتب سابقہ جو اپنے اپنے وقت میں مکمل وکافی تھیں نامکمل و منسوخ ہوگئیں ۔
قرآن و کتب الہامیہ سابقہ میں مطابقت مذکورہ بالا کو دیکھ کر آج کل کے عیسائی بھی کفارِ قریش کی طرح کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ باتین اہل کتاب میں سے کسی عالم کی مدد سے لکھی گئی ہیں چنانچہ کبھی یہ گپ اڑاتے ہیں کہ بحیرا راہب نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو یہ سب کچھ سکھایا تھااور کبھی بڑبڑاتے ہیں کہ آپ نے دین مسیحی کا کچھ علم صہیب رُومی سے حاصل کیا تھا ( 2) اور کبھی یہ بَڑ ہانکتے ہیں کہ ظن غالب تو ان راہبوں میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس وقت ملک عرب میں عزیز الوجود نہ تھے اور قرآن اکثر جگہوں میں ان کا ذکر تحسین و مدح کے الفاظ میں کرتا ہے۔ (3 ) مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اس تمام ہرزہ سرائی (4 ) کا کیا ثبوت ہے۔ ایسے عناد سے اپنی عاقبت کیوں خراب کررہے ہو۔ پامر عیسائی جس نے قرآن کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے یوں لکھتا ہے:
’’ عیسائی مصنفین (حضرت) محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کی وحی کا بڑا حصہ ایک نصرانی راہب کی تعلیم کا نتیجہ ہے مگر اس الزام کی تائید میں کوئی شہادت موجود نہیں ۔ ‘‘ (5 )

ہم عیسائیوں سے کھلے الفاظ میں پکار کر کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو پہلے ثابت کرو کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسی یہودی یا عیسائی سے تعلیم پائی اور پھر جواب دو کہ مضامین زیر بحث کو ایسے معجز نظام کلام میں کس نے ادا کیا۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے اور سچا دعویٰ ہے کہ قرآن افتراء نہیں اور ناممکن ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی ایسا قرآن بنائے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا جو ہوگا وہ مخلوق ہوگا اور مخلوق ایسا قرآن بنانے پر قادر نہیں ۔ مگر یہ اصول دین اور بعض دیگر مضامین میں کتب سابقہ کے مطابق ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کتابیں منجانب اللّٰہ اور اپنے اپنے وقتوں میں مَعْمُوْل بِہَا تھیں ۔ (1 ) اس لحاظ سے یہ ان کتابوں کا مُصَدِّق (2 ) اور ان کی صحت کی دلیل ہے کیونکہ یہ معجزہ ہے اور وہ معجزہ نہیں اس لئے وہ اپنے مضامین کی صحت کیلئے اس کی شہادت کی محتاج ہیں نہ کہ یہ۔ پس جب قرآن کتب سابقہ کا مصدق ٹھہرا تو یہ نتیجہ نکلا کہ یہ افتراء نہیں بلکہ اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ہے کیونکہ یہ ایک ایسے بندۂ کامل کے ہاتھ پر ظاہر ہوا جو نہ کوئی علم پڑھا اور نہ علمائے اہل کتاب میں سے کسی کی صحبت میں بیٹھا۔ پھر جو اس کی پیش کردہ کتاب کے مضامین کتب سابقہ کے مطابق پائے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ کتاب وحی الٰہی ہے۔ وہ کتاب جو کتب الہامیہ سابقہ کا صدق ثابت کرے خود افتراء کیسے بن سکتی ہے بلکہ وہ تو اَولیٰ بالصدق ہے۔ (3) یہ تقریر آیۂ ذیل کی تفسیر ہے:
وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰى مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۫ (۳۷) (یونس، ع۴)
اور نہیں یہ قرآن کہ کوئی بنالے اللّٰہ کے سوا اور لیکن سچا کرتا ہے اگلے کلام کو اور تفصیل ہے کتاب کی اس میں شبہ نہیں جہاں کے پروردگار سے ہے۔ (4)
قرآن میں مومنوں کے دل کی بعض ایسی باتیں مذکور ہیں جہاں عَلَّامُ الغُیُوب (5 ) کے سوا اور کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ دیکھو اَمثلہ ذیل :

… {1}
وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآىٕفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ (۷) (انفال، ع۱)
اور جس وقت وعدہ دیتا تھا اللّٰہ تم کو ایک ان دوجماعت میں سے کہ تم کو ہاتھ لگے گی اور تم چاہتے تھے کہ بن شوکت والا ملے تم کو اور اللّٰہ چاہتا تھا کہ سچا کرے سچ کو اپنے کلاموں سے اورکاٹے پیچھا کافروں کا۔ (1 )
اس آیت میں ایک ایسے امر کی خبر ہے جو مومنوں کے دل میں آیا تھا اور جسے وہ پسند کرتے تھے مگر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے وہ امر پوشیدہ تھا۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرماکر آپ کو اطلاع بخشی۔ اس کا بیان یوں ہے کہ جب مسلمانوں کو خبر لگی کہ ابو سفیان لدے ہوئے اونٹوں کا قافلہ ملک شام سے لارہا ہے تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تین سو آٹھ کی جمعیت کے ساتھ نکلے اور وادیٔ ذفران میں اللّٰہ تعالٰی نے آپ سے دو امروں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا قافلہ کا ہاتھ آنا یا گروہِ قریش کا مغلوب ہونا جو مکہ سے اس قافلہ کے چھڑانے کے لئے نکلا تھا۔ صحابہ کرام اپنے دلوں میں قافلہ کی گرفتاری پسند کرتے تھے۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے چاہا کہ وہ دشمنوں سے مقابلہ کریں تاکہ کفر کا زور ٹوٹ جائے اور دین حق کو تقویت پہنچے چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیاکیونکہ بدر کی لڑائی میں ستّر کافر مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے اور مسلمانوں میں سے صرف چودہ شہید ہوئے۔
… {2}
اِذْ هَمَّتْ طَّآىٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَاۙ-وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَاؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (۱۲۲) (آل عمران، ع۱۳)
جب قصد کیا دو فرقوں نے تم میں سے کہ نامردی کریں اور اللّٰہ مددگار تھا ان کا اور اللّٰہ ہی پر چاہیے بھروسہ کریں مسلمان۔ (2 )
اس آیت میں مومنوں کے ایک خطرۂ قلبی کا اظہار ہے۔جس کا بیان یوں ہے کہ جنگ بدر سے اگلے سال (غزوۂ احد میں ) کافر جمع ہو کر مدینہ پر چڑھ آئے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں سے مشورہ کیا اکثر کہنے لگے کہ ہم شہر ہی میں لڑیں گے اور حضور کی مرضی بھی یہی تھی۔ بعض کہنے لگے کہ یہ عار ہے بلکہ ہم میدان میں مقابل ہوں گے۔ آخر اسی مشورہ پر عمل کیا گیا۔ جب حضور شہر سے باہر چلے عبداللّٰہ بن ابی منافق مدینے کا رہنے والا تھا وہ بھی شریک جنگ تھا مگر وہ ناخوش ہو کر پھر گیا کہ ہمارے کہنے پر عمل نہ کیا۔ اس کے بہکانے سے انصار کے دو قبیلے (خزرج سے بنو سلمہ اور اوس سے بنی حارثہ) بھی پھر چلے۔ آخر ان کے سردار عوام کو سمجھا کرلے آئے۔ اس آیت میں انہیں دو قبیلوں کے خطرہ قلبی کا ذکر ہے حالانکہ ان سے نہ کوئی قول ظہور میں آیا اور نہ کوئی بزدلی۔ (موضح القرآن)
قرآن مجید میں منافقوں کے راز کھول کر بتائے گئے ہیں جن کو وہ اپنے دلوں میں چھپاتے تھے یا اپنی ہی جماعت سے کہتے تھے۔ دیکھو آیات ذیل :
… {1}
یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَؕ-یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَاؕ- (آل عمران، ع۱۶)
اپنے جی میں چھپاتے ہیں جو تجھ سے ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ اگر کچھ کام ہوتا ہمارے ہاتھ تو ہم مارے نہ جاتے۔ (1 )
اس آیت سے ظاہر ہے کہ جنگ احد کے دن جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو منافقین خلوت میں ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ اگر لڑائی کے لئے نکلنا ہمارے اختیار میں ہوتا تو ابن ابی کی رائے پر عمل کرتے اور شہر مدینے سے باہر قدم نہ دھرتے اور نہ مارے جاتے۔ اس قول کو وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے چھپاتے تھے مگر اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو بذریعۂ وحی خبر دے دی۔
… {2}
وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْؕ-وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ
اور قسمیں کھاتے ہیں اللّٰہ کی کہ وہ بیشک تم میں سے ہیں حالانکہ

وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ (۵۶) (توبہ، ع ۷)
وہ تم میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لوگ ڈرتے ہیں ۔ (1 )
اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ منافقین جو قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم میں سے ہیں جھوٹ ہے۔
… {3}
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِۚ-فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ (۵۸) (توبہ، ع۷)
اور بعضے ان میں سے ہیں کہ تجھ کو طعن دیتے ہیں زکوٰۃ بانٹتے میں ۔ سو اگر ان کو ملے اس میں سے تو راضی ہوں اور اگر نہ ملے اس میں سے تب ہی وہ ناخوش ہوجاویں ۔ ( 2)
یہ آیت ابوالجواظ منافق کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ اس نے کہا تھا کہ تم اپنے صاحب کو نہیں دیکھتے کہ تمہارے صدقات ریوڑ چرانے والے گڈریوں میں تقسیم کردیتا ہے اور پھر سمجھتا ہے کہ میں عادل ہوں ۔ (تفسیر روح البیان) (3 )
… {4}
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌؕ- ( توبہ، ع۸)
اور بعضے ان میں سے بدگوئی کرتے ہیں نبی کی اور کہتے یہ شخص کان ہے۔ ( 4)
بعض منافقین مثلاً جلاس اور اس کے ساتھی حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں ایسی باتیں کہا کرتے تھے کہ جن سے انسان کو اذیت پہنچے اور جب انہیں منع کیا جاتا تو کہتے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تو کان ہی کان ہیں ہم ان کے سامنے قسم کھالیں گے اور انکارکردیں گے وہ مان لیں گے کیونکہ وہ جو سنتے ہیں مان لیتے

ہیں ان میں ذَکاء و فَطانت (1 ) نام کو نہیں ۔ ( تفسیر روح البیان) (2 )
… {5}
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ-وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْاۚ- (توبہ، ع۱۰)
قسمیں کھاتے ہیں اللّٰہ کی ہم نے نہیں کہا بیشک کہا ہے لفظ کفر کا اور منکر ہوگئے ہیں مسلمان ہو کر اور فکر کیا تھا انہوں نے جو نہ ملا۔ (3 )
غزوۂ تبوک میں ان منافقین کی فَضِیحَت (4 ) میں آیات نازل ہوئیں جو اس غزوہ میں مدینہ منورہ میں پیچھے رہ گئے تھے اس لئے جُلاس بن سُوید نے کہا: اللّٰہ کی قسم! جو کچھ حضرت ہمارے بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں اگر وہ سچ ہے تو ہم گدھوں سے بدتر ہیں ۔ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے جلاس کو بلا کر پوچھا وہ قسم کھا گیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا اس پر یَحْلِفُوْنَ بِاﷲِ مَا قَالُوْا۔الآیہ (5 ) اُتری۔ اگرچہ اس قصے میں قائل ایک ہے مگر چونکہ باقی منافق جلاس کے قول پر راضی تھے اس لئے وہ بھی بمنزلہ جلاس ہوگئے اور صیغہ جمع کا لایا گیا۔ مطلب یہ کہ وہ قسم کھا گئے کہ ہم نے کوئی کلمہ ایسا نہیں کہاجس سے آنحضرت یا آپ کے دین کی توہین ہوتی ہو حالانکہ بے شک انہوں نے کلمہ کفر کہااور اسی پر اکتفانہ کیا بلکہ اپنے افعال سے بھی کفر باطنی ظاہر کردیا۔ چنانچہ منجملہ ان افعال کے ایک یہ ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے وقت ان میں سے پندرہ نے اتفاق کرلیا کہ حضرت جب تبوک اور مدینہ کے درمیان عقبہ (گھاٹی) پر ہوں گے تو ہم ان کو سواری سے وادی میں دھکیل کر مارڈالیں گے مگر اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو منافقین کے اس ارادے سے آگاہ کردیا۔ اس لئے جب لشکر عقبہ میں پہنچا تو آپ تو عقبہ میں چلے اور باقی سب آپ کے ارشاد سے وادی میں چلنے لگے مگر ان منافقین نے منہ پر دہان بند ڈال کر عقبہ میں چلنا شروع کیا۔ حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ صَلَّی اللّٰہُ

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن الیمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُپیچھے سے ہانک رہے تھے اتنے میں حذیفہ نے اونٹوں کے پیروں کی آہٹ اور ہتھیاروں کی آواز سنی۔ اس لئے حذیفہ اندھیری رات میں ان کی طرف بڑھے اور للکار کر کہا: اے اللّٰہ کے دشمنو! رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے دور ہو جاؤ۔ یہ سن کر وہ وادی کی طرف بھاگ گئے اور لوگوں میں مل گئے۔ (روح البیان وروح المعانی) (1 )
… {6}
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًاۚ- (توبہ، ع۱۶)
اور جب نازل ہوئی ایک سورت تو بعضے ان میں کہتے ہیں کس کو تم میں زیادہ کیا اس سورت نے ایمان۔ ( 2)
یعنی جب منافق لوگ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں نہ ہوتے اور کوئی سورت نازل ہوتی جس میں دلائل قاطِعَہ ہوں تو وہ ایک دوسرے سے بطورِ اِستہزاء (3 ) کہتے کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا۔
… {7}
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍؕ-هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْاؕ- (توبہ، ع ۱۶)
اور جب نازل ہوئی ایک سورت دیکھنے لگے ایک دوسرے کی طرف کہ کوئی بھی دیکھتا ہے تم کو پھر چلے گئے۔ ( 4)
یعنی جب منافقین حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حضور میں ہوتے اور کوئی سورت اترتی جس میں ان کے چھپے عیبوں کا بیان ہوتا تو وہ مومنوں سے آنکھ بچا کر مجلس سے کھسک جاتے اور اگر جانتے کہ کوئی مومن ان کو دیکھ رہا ہے تو وہیں بیٹھے رہتے اور اختتام مجلس پر چلے جاتے۔

… {8}
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُؕ-وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ (۱۰۷) (توبہ، ع ۱۳)
اور جنہوں نے بنائی ایک مسجد ضد اور کفر پر اور پھوٹ ڈالنے کو مسلمانوں میں اور گھات اس شخص کے لئے جو لڑ رہا ہے اللّٰہسے اور رسول سے پہلے سے اور اب قسمیں کھاویں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی چاہی تھی اور اللّٰہ گواہ ہے کہ و ہ جھوٹے ہیں ۔ ( 1)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسجد ضرار والے سب منافق تھے۔ منافقین کے مزید حال کیلئے سورۂ منافقون دیکھئے۔
قرآنِ مجیدمیں منافقین کی طرح یہودیوں کے چھپے عیب بھی ظاہر کردیئے گئے ہیں ۔ دیکھو آیات ِذیل :
… {1}
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ یَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ ٘-وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِهِ اللّٰهُۙ-وَ یَقُوْلُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُؕ-حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُۚ-یَصْلَوْنَهَاۚ-فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (۸) (مجادلہ، ع۲)
کیا تونے نہ دیکھے جن کو منع ہوئی کانا پھوسی پھر وہی کرتے ہیں جو منع ہوچکا ہے اور کان میں باتیں کرتے ہیں گناہ کی اور تعدی کی اور رسول کی نافرمانی کی اور جب آویں تیرے پاس تجھ کو دعا دیں جو دعا نہیں دی تجھ کو اللّٰہنے اور کہتے ہیں اپنے دلوں میں کیوں نہیں عذاب کرتا ہم کو اللّٰہاس پر جو ہم کہتے ہیں۔ بس ہے ان کو دوزخ داخل ہوں گے اس میں سو بری ہے جگہ پھر جانے کی۔ (2 )
موضح القرآن میں ہے: ’’ حضرت کی مجلس میں بیٹھ کر منافق کان میں باتیں کرتے، مجلس کے لوگوں پر ٹھٹھے کرتے

اور عیب پکڑتے اور حضرت کی بات سن کر کہتے: یہ مشکل کام ہم سے کب ہوسکے گا۔ پہلے سورۂ نساء میں اس کا منع آچکا تھا مگر پھر وہی کرتے تھے اور دعایہ کہ یہود آتے اور السَّلَامُ عَلَیْکَ کے بدلے السَّامُ عَلَیْکَ کہتے۔ یہ بددعا ہے کہ تجھ پر پڑے مرگ۔ پھر آپس میں کہتے کہ اگریہ رسول ہے تو اس کہنے سے ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا اور کوئی منافق بھی کہتا ہوگا۔ ‘‘
… {2}
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْاۚۛ-سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَۙ-لَمْ یَاْتُوْكَؕ-یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖۚ-یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْاؕ-وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ۚۖ-وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۴۱) (مائدہ، ع۶)
اے رسول تو غم نہ کھا ان پر جو جلدی منکر ہونے لگتے ہیں ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اپنے منہ سے اور ان کے دل مسلمان نہیں اور ان لوگوں میں سے جو یہودی ہیں سننے والے ہیں واسطے دوسری جماعت کے جو تجھ تک نہیں آئے بدل ڈالتے ہیں بات کو اس کا ٹھکانا چھوڑ کر کہتے ہیں اگر تم کو یہ ملے تو لو اور اگر نہ ملے تو بچتے رہو اور جس کو اللّٰہنے بچلانا (1 ) چاہا سو تو اس کا کچھ نہیں کر سکتا اللّٰہ کے یہاں وہی لوگ ہیں جن کو اللّٰہنے نہ چاہا کہ ان کے دل پاک کرے ان کو دنیا میں ذلت ہے اور ان کو آخرت میں بڑی مارہے۔ (2 )
موضح القرآن میں اس آیت کے متعلق یوں لکھا ہے: ’’ بعضے منافق تھے کہ دل میں یہود سے ملتے تھے اور بعضے یہود تھے کہ حضرت کے پاس آمد ورفت کرتے تھے۔ اللّٰہ نے فرمایا کہ یہ لوگ جاسوسی کو آتے ہیں کہ تمہارے دین میں سے کچھ عیب چن کر لے جاویں اپنے سرداروں کے پاس جو یہاں نہیں آتے اور فی الحقیقت عیب کہاں ہے لیکن بات کو

غلط تقریر کرکے ہنر کا عیب کرتے ہیں ۔ یہود میں کئی قصے ہوئے کہ اپنے قضایا (1 ) لائے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس فیصلے کو وہ سردار یہود آپ نہ آتے بیچ والوں کے ہاتھ بھیجتے اور کہہ دیتے کہ ہمارے معمول کے موافق حکم کریں تو قبول رکھو نہیں تو نہ رکھو۔ غرض یہ تھی کہ حکم تو رات کے خلاف معمول باندھے تھے کہ ایک بھی اگر اس کے موافق حکم کردے تو ہم کو اللّٰہ کے یہاں سند ہوجاوے اور جانتے تھے کہ ان کو تورات کی خبر نہیں جو ہمارا معمول سنیں گے سو حکم کریں گے۔ اللّٰہ تعالٰی نے حضرت کو خبردار کیا۔ موافق تورات ہی کے حکم فرمایااور تورات میں سے ثابت کر کے ان کو قائل کیا۔ ایک قصہ رجم کا تھا کہ وہ منکر ہوئے تھے۔ پھر تورات سے قائل کیااور ایک قصاص کا تھا کہ وہ اشراف اور کم ذات کا فرق کرتے تھے اور تورات میں فرق نہیں رکھا۔ ‘‘
… {3}
مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا وَاسْمَعْ غَیْْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّام بِاَلْسِنَتِہِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ ( نسآء، ع۷)
وہ جو یہودی ہیں بدل ڈالتے ہیں بات کو اس کی جگہ سے اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نہ مانا اور سن نہ سنایا جائیو اور راعنا موڑدے کر اپنی زبان کو اورطعن کرکے دین میں ۔ (2 )
موضح القرآن میں ہے کہ ’’ یہود حضرت کی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت کلام فرماتے۔ بعض بات جو نہ سنی ہوتی چاہتے کہ پھر تحقیق کریں تو کہتے: راعنا۔ یعنی ہماری طرف توجہ ہو۔ یہود کو اس لفظ کہنے میں دغا تھی اس کو زبان دبا کر کہتے تو را عینا ہوجاتا یعنی ہمارا چرواہا اور ان کی زبان میں راعنا احمق کو بھی کہتے تھے۔ اسی طرح حضرت فرماتے تو جواب میں کہتے: سنا ہم نے اس کے معنی یہ ہیں کہ قبول کیا لیکن آہستہ کہتے کہ نہ مانا۔ یعنی فقط کان سے سنااور دل سے نہ سنااور حضرت سے خطاب کرتے تو کہتے: سن، نہ سنایا جائیو۔ ظاہر میں یہ دعا نیک ہے کہ تو ہمیشہ غالب رہے کوئی تجھ کو بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ بہرا ہوجائیو۔ ایسی شرارت کرتے۔ پھر دین میں عیب دیتے کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہمارا فریب
معلوم کرلیتا۔ وہی اللّٰہصاحب نے واضح کردیا۔ ‘‘
ناظرین کرام! مومنوں کے دلوں کے راز ظاہر کرنا، منافقوں کا بھانڈا پھوڑنا اور یہودیوں کے فریبوں کی قلعی کھولنا، (1 ) یہ تمام ازقبیل اِخْبَار بِالْمُغَیِّبات (2 ) ہے جس سے قرآن کا اعجاز ثابت ہے کیونکہ انسان اس سے عاجز ہے۔
بیان بالا سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ قرآن میں صرف غیوب ماضیہ کی خبریں ہیں کیونکہ غیوب مستقبلہ کی خبریں بھی اس میں کثرت سے ہیں

 

 

پیشین گوئی… {1}

وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (۲۳) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ-اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ (۲۴)
( بقرہ، ع۳)
اور اگر ہوشک میں اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تولے آؤ ایک سورۃ اس قسم کی اور بلاؤ جن کو حاضر کرتے ہو اللّٰہ کے سوا اگر تم سچے ہو۔ پھر اگرنہ کرواور البتہ نہ کر سکو گے تو بچو آگ سے جس کی چھپٹیاں ہیں آدمی اور پتھر تیار ہے منکروں کے واسطے۔ (3 )
ان آیتوں میں یہ پیشین گوئی ہے کہ قرآن مجید کی ایک سورت کی مثل بنانے پر کوئی قادر نہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ مبارک میں اور اُس وقت سے اب تک کہ تیرہ سو چھپن ہجری مقدس ہے کثرت سے مخالفین و معاندین اسلام رہے مگر کوئی بھی قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثل بنا کر پیش نہ کرسکا اور نہ آئندہ کرسکے گا۔

پیشین گوئی… {2}

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً
تو کہہ اگر تم کو ملنا ہے گھر آخر کا اللّٰہکے ہاں الگ سوائے

مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (۹۴) (بقرہ، ع۱۱)
اور لوگوں کے تو تم مرنے کی آرزو کرو اگر سچ کہتے ہو۔ (1 )
اس آیت میں اخبار عن الغیب ہے کہ یہود میں سے کوئی موت کی تمنانہ کرے گا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔ کسی یہودی نے باوجود قدرت کے موت کی تمنانہ کی۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اگر یہود موت کی تمنا کرتے تو البتہ مرجاتے اور دوزخ میں اپنی جگہ ضرور دیکھ لیتے۔ (2 )

 

پیشین گوئی… {3}

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۱۱۴) (بقرہ، ع۱۴)
اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے منع کیا اللّٰہ کی مسجدوں میں کہ ذکر کیا جائے وہاں نام اس کا اور دوڑا ان کے اجاڑنے کو۔ ایسوں کو نہیں لائق تھا کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کو دنیا میں ذلت ہے اور ان کو آخرت میں بڑی مار ہے۔ (3 )
اس آیت میں اُولٰٓئِکَسے مراد نصاریٰ (طیطوس رومی اور اس کے اَتباع) ہیں جنہوں نے یہود پر غلبہ پا کر مسجد بیت المقدس کو ویران کیااور ان کی مسجدیں اجاڑیں ۔ یہ پیشین گوئی حضرت عمر بن الخطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت میں پوری ہوئی جب کہ یروشلم مع ملک شام عیسائیوں سے لے لیا گیااور ہیکل یروشلم کی خاص بنیاد پر اسلامی مسجد تعمیر کی گئی۔

بعض کے نزدیک اُولٰٓئِکَ سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے حدیبیہ کے سال آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بیت الحرام میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ اس صورت میں یہ پیشین گوئی ہجرت کے نویں سال پوری ہوئی جب کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ارشاد سے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہٗنے موسم حج میں منادی کرادی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگا بیت اللّٰہ کا طواف کرے۔ (1 )

پیشین گوئی… {4، 5، 6، 7، 8، 9}

لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًىؕ-وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ۫-ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ (۱۱۱) ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُؕ- (آل عمران، ع ۱۲)
وہ ہر گز ہر گزضرر نہ پہنچائیں گے تم کو مگر ستانا تھوڑا اور اگر تم سے لڑیں گے تو تم سے پیٹھ پھیر دیں گے پھر وہ مدد نہ دیئے جائیں گے ماری گئی ان پر ذلت جہاں پائے جائیں سوائے دستاویز اللّٰہ کے اور دستاویز لوگوں کے اور کما لائے غصہ اللّٰہ کا اور ماری گئی ان پر محتاجی۔ ( 2)
ان آیات میں یہود کی نسبت کئی پیشین گوئیاں ہیں :
… {۱} یہود مسلمانوں کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے۔
… {۲} اگر یہود مسلمانوں سے لڑیں گے تو شکست کھائیں گے۔
… {۳} شکست کھانے کے بعد یہود میں قوت و شوکت نہ رہے گی۔
… {۴} یہود ہمیشہ ذلیل رہیں گے مگر یہ کہ دوسروں کی پناہ میں ہوں ۔

… {۵} یہود مغضوب رہیں گے۔
… {۶} یہود کی سلطنت کہیں نہ ہوگی بلکہ مَسکَنَت میں (1 ) رہیں گے۔
یہ تمام پیشین گوئیاں پوری ہو چکی ہیں چنانچہ یہود زبانی طعن اور سَبُّ وشِتْم کے سوا مومنین کو کوئی بڑا ضرر نہ پہنچا سکے۔ یہود بنی قینقاع و بنی قریظہ و بنی نضیر و یہود خیبر نے مسلمانوں سے مقابلہ کیااور مغلوب ہوئے۔ پھر ان کے کہیں پاؤں نہ جمے اور ان کی شان و شوکت جاتی رہی۔ یہود ہمیشہ ہر ملک میں قتل و غارت و قید سے پامال ہوتے رہے ہیں رُوئے زمین پر کہیں ان کی سلطنت نہیں دوسرے ملکوں میں پناہ گزین ہیں تو وہاں کے بادشاہ یا لوگوں کی عنایت سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ ان کا مغضوب ہونا ظاہر ہے۔

پیشین گوئی… {10}

 

سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَاۤ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًاۚ-وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-وَ بِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِیْنَ (۱۵۱) (آل عمران، ع ۱۶)
اب ڈالیں گے ہم کافروں کے دلوں میں ہیبت اس واسطے کہ انہوں نے شریک ٹھہرایا اللّٰہکا اس چیز کو جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور بری ہے جگہ ظالموں کے رہنے کی۔ (2 )
یہ پیشین گوئی یوم اُحد کی نسبت تھی اور اسی دن پوری ہوگئی کیونکہ کفار باوجود غلبہ و ظفر کے مسلمانوں کے خوف سے لڑائی چھوڑ کر بھاگ گئے۔

پیشین گوئی… {11}

قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى
کہہ دے کافروں کو کہ تم جلدی مغلوب ہوگئے اور اکٹھے

جَهَنَّمَؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ (۱۲) ( آل عمران، ع۲)
کیے جاؤ گے دوزخ کی طرف اور برا ہے بچھونا۔ ( 1)
جب حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جنگ بدر سے مدینہ میں رونق افروز ہوئے تو آپ نے یہود کوبازار بنی قینقاع میں جمع کیااور ان سے فرمایا کہ مسلمان ہوجاؤ ورنہ تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو قریش کا ہوا۔ وہ بولے کہ نازاں نہ ہو تیرا ایسی قوم سے مقابلہ ہوا جو فن جنگ سے ناواقف تھی اگر ہم سے پالا پڑے تو معلوم ہوجائے گا کہ ہم بہادر ہیں اور تو ہماری مانند نہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری جس میں یہ خبر دی گئی کہ یہود عنقریب مغلوب ہوجائیں گے۔ (2 ) یہ پیشین گوئی بنی قریظہ کے قتل اور بنی نضیر کی جلاوطنی اور فتح خیبر اور باقی یہود پر جزیہ لگانے سے پوری ہوئی۔

پیشین گوئی… {12}

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ- (مائدہ، ع۱)
آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمہارا اور پوری کی میں نے تم پر اپنی نعمت اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔ (3 )
یہ آیت۱۰ ھ میں عرفہ کی شام کو جمعہ کے دن نازل ہوئی۔ اصحابِ آثار کا قول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِکاسی یا بَیاسی دن زندہ رہے اور شریعت میں کوئی زیادتی یا نَسْخ یا تبدیلی وقوع میں نہ آئی۔ اس آیت میں آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وفات شریف کی خبر ہے۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس سے یہی سمجھتے تھے جو اِن کے ’’ اَعْلَمُ الصَّحَابَہ ‘‘ (4 ) ہونے کی دلیل ہے۔

 

پیشین گوئی… {13}

وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ۪-فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ-وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ (۱۴)
( مائدہ، ع۳)
اور ان لوگوں سے جو کہتے ہیں ہم نصاریٰ ہیں لیا ہم نے عہد ان کا پھر وہ بھول گئے فائدہ لینا اس نصیحت سے جو ان کو کی گئی تھی پھر ہم نے لگادی انکے درمیان دشمنی اور کینہ قیامت کے دن تک اور آخر جتا دے گا ان کو اللّٰہجو کچھ وہ کرتے تھے۔ (1 )
اس آیت میں یہ پیشین گوئی ہے کہ قیامت تک نصاریٰ کے مختلف فرقے رہیں گے جو ایک دوسرے کی تکذیب و تکفیر کرتے رہیں گے۔ یہ بھی پوری ہوچکی ہے کیونکہ اب تک ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ نصاریٰ کے مختلف سینکڑوں فرقے ہیں جن کا ذکر ہم نے بخوفِ طوالت نہیں کیا۔

پیشین گوئی… {14}

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (۵۴) ( مائدہ، ع ۸)
اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے پھرے گا اپنے دین سے تو اللّٰہ آگے لاوے گا ایک قوم کو کہ ان کو دوست رکھتا ہے اور وہ اس کو دوست رکھتے ہیں نرم دل ہیں مسلمانوں پر اورسخت ہیں کافروں پر جہاد کریں گے اللّٰہ کی راہ میں اور نہ ڈریں گے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے یہ فضل ہے اللّٰہ کا دیتا ہے جس کو چاہے اور اللّٰہ کشائش والا ہے خبردار۔ (2 )

اللّٰہ تعالٰی کو معلوم تھا کہ کچھ عرب دین سے پھر جائیں گے اس لئے فرما دیا کہ ان کی گوشمالی (1 ) کے لئے ایک ایسی قوم ہوگی جس کے اوصاف یہ ہوں گے۔ یہ پیشین گوئی حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال کے بعد پوری ہوئی جب کہ عرب کے کئی قبیلے دین اسلام سے منحرف ہوگئے اور بعضوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے باوجود (2 ) اختلافِ آراء ان کے ساتھ جہاد کیا اور ان کو مغلوب کیا ( 3) اور یہ آیت سیدنا ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی حقیت (4 ) پر دلیل واضح ہے۔

پیشین گوئی… {15}

وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ-كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُۙ-وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (۶۴) (مائدہ، ع ۹)
اور ہم نے ڈال دی ان میں دشمنی اور بغض قیامت کے دن تک جب ایک آگ سلگاتے ہیں لڑائی کے واسطے اللّٰہاس کو بجھاتا ہے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرتے اور اللّٰہ دوست نہیں رکھتا فساد کرنے والوں کو۔ ( 5)
اس میں یہ پیشین گوئی ہے کہ یہود کے مختلف فرقے ہوں گے جن میں عداوَت و بغض قیامت تک رہے گا۔ اس پیشین گوئی کے پورا ہونے میں کلام نہیں کیونکہ یہود کے مختلف فرقوں میں اب تک عداوت ہے اور آئندہ رہے گی۔

پیشین گوئی… {16}

یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ
اے رسول پہنچا جو کچھ اتارا گیا ہے تیری طرف تیرے رب سے اور اگر تونے نہ کیا پس تونے نہ پہنچایا اس کا پیغام اوراللّٰہ تجھ

مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ (۶۷) (مائدہ، ع ۱۰)
کوبچائے گا لوگوں سے اللّٰہ ہدایت نہیں کرتا منکر قوم کو۔ ( 1)
یہ آیت بقولِ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ ذَاتُ الرِّقاع (۴ ھ) میں نازل ہوئی۔ ( 2) اس آیت کے نزول سے پہلے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پاسبانی کیاکرتے تھے مگر جب یہ آیت اتری تو حراست موقوف کردی گئی کیونکہ اس میں خود اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زندگی میں اس پیشین گوئی کا پورا ہونا ظاہر ہے کیونکہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین باوجود کینہ و عداوت کے آپ کے قتل پر قادر نہ ہوئے۔ چونکہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم و فات شریف کے بعد جسد مبارک کے ساتھ مرقد منور میں حقیقۃً زندہ ہیں اس لئے یہ وعدہ قیامت تک پورا ہوتا رہے گا۔ ذیل میں ہم علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (متوفی ۹۱۱ھ) کی کتاب ’’ وَفَائُ الوَفَاء بِاِخْبَارِ دارِ المُصْطَفٰی ‘‘ سے صرف ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس سے ناظرین اندازہ لگا سکیں گے کہ وفات شریف کے بعد اَعدائے اسلام نے ہمارے آقا، ہمارے مالک ، حضور شہنشاہ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کس طرح اذیت پہنچانی چاہی اور کس طرح یہ وعدہ پورا ہوا۔ واقعہ مذکورہ کو علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہیوں بیان فرماتے ہیں :
جان لے کہ مجھے علامہ جمال الدین (3 ) اِسْنَوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی تصنیف سے ایک رسالہ معلوم ہوا ہے

جس میں نصاریٰ کو حاکم بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض نے اس رسالے کا نام ’’ اِنْتِصارات اسلامیہ ‘‘ رکھاہے۔ میں نے اس پر علامہ موصوف کے شاگرد شیخ زَین ا لدِّین مَرَاغی کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیکھا ہے اور وہ یہ ہے: ’’ نصیحۃ اولی الالباب فی منع استخدام النصاری کتاب لشیخنا العلامۃ جمال الدین اسنوی ‘‘ استاد نے اس رسالے کا نام نہ رکھا تھا، میں نے آپ کے سامنے یہ نام عرض کیا، جسے آپ نے برقرار رکھا، انتہی۔ پس میں نے اس رسالے میں یہ عبارت دیکھی:
سلطانِ عادِل نور الدین شہید کے عہد سلطنت میں نصاریٰ کے نفسوں نے انہیں ایک بڑے اَمر پر آمادہ کیا۔ ان کا گمان تھا کہ وہ پورا ہوجائے گا۔ اور اللّٰہ اپنی روشنی پورا کیے بغیر نہیں رہتا خواہ منکر برا مانیں ۔ وہ امر یہ ہے کہ سلطان مذکو ر رات کو تہجد اور وظائف پڑھا کرتا تھا ایک روز تہجد کے بعد سوگیا خواب میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھا کہ دوسرخ رنگ شخصوں کی طرف اشارہ کر کے فرمارہے ہیں : میری مدد کر اور مجھے ان دو سے بچا۔ وہ ڈر کر جاگ اٹھاپھر وضو کیا نماز پڑھی اور سو گیا پھر اس نے وہی خواب دیکھا جاگ اٹھا اور نماز پڑھ کر سوگیا پھر تیسری بار وہی خواب دیکھا پس جاگ اٹھا اور کہنے لگا: نیند باقی نہیں رہی۔ اس کا وزیر ایک صالح شخص تھا جس کا نام جمال الدین موصلی تھا رات کو اسے بلایااور تمام ماجرا اسے کہہ سنایا اس نے کہا: تم کیسے بیٹھے ہو اسی وقت مدینۃ النبی کی طرف روانہ ہوجاؤاور اپنے خواب کو پوشیدہ رکھو۔ یہ سن کر اس نے بقیہ شب میں تیاری کرلی اور سبکسار (1 ) سواریوں پر بیس آدمیوں کے ساتھ نکلا۔ وزیر مذکور اور بہت سامال بھی اس کے ساتھ تھا۔ سولہ دن میں وہ مدینے پہنچا۔ شہر سے باہر غسل کیا اور داخل ہوا، روضۂ منورہ میں نماز پڑھی اور زیارت کی پھر بیٹھ گیا حیران تھا کہ کیا کرے۔ جب اہل مدینہ مسجد میں جمع تھے تو وزیر نے کہا: سلطان نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زیارت کے ارادے سے آیاہے اور خیرات کے لئے اپنے ساتھ بہت سامال لایا ہے جو یہاں کے رہنے والے ہیں ان کے نام لکھو۔ اس طرح تمام اہل مدینہ کے نام لکھے۔ سلطان نے سب کوحاضر ہونے کا حکم دیا جو صدقہ لینے آتا سلطان اسے بغور دیکھتا تاکہ وہ صفت و شکل جو نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے دکھائی تھی معلوم کرے۔

جس میں وہ حلیہ نہ پاتا اسے صدقہ دے کر کہتاکہ چلے جاؤ یہاں تک کہ سب لوگ آچکے۔ سلطان نے پوچھا کہ کیا کوئی باقی رہ گیا ہے جس نے صدقہ نہ لیا ہو۔ انہوں نے عرض کی نہیں ۔ سلطان نے کہا: غوروفکر کرو۔ اس پر انہوں نے کہا اور تو کوئی باقی نہیں مگر دو مغربی شخص جو کسی سے کچھ نہیں لیتے وہ پارسا اور دولت مندہیں اور محتاجوں کو اکثر صدقہ دیتے رہتے ہیں ۔ یہ سن کر سلطان خوش ہوگیا اور حکم دیا کہ ان دونوں کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ وہ لائے گئے۔ سلطان نے انہیں وہی دو شخص پایا جن کی طرف نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ میری مدد کراور مجھے ان سے بچا۔ پس ان سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ انہوں نے کہا: ہم دیار مغرب سے حج کرنے کے لئے آئے ہیں اس لئے اس سال ہم نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُجَاوَرَت (1 ) اختیار کی ہے۔ سلطان نے کہا: سچ بتاؤ۔ مگر وہ اپنی بات پر قائم رہے۔ پھر لوگوں سے پوچھا: یہ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ عرض کیا گیا کہ حجرہ شریف کے قریب رباط (2 ) میں رہتے ہیں ۔ یہ سن کر سلطان نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے مکان میں آیا۔ وہاں بہت سا مال، دو قرآن مجید اور وعظ و نصیحت کی کتابیں پائیں ۔ ان کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا۔ اہل مدینہ نے ان کی بڑی تعریف کی کہ یہ بڑے سخی اور فیاض ہیں ، صائم الدہر ہیں اور روضہ شریف میں صلَوات اور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کے پابند ہیں ۔ ہر صبح جنت البقیع کی زیارت کو جاتے ہیں اور ہر شنبہ ( 3) قباء کی زیارت کرتے ہیں ، کسی سائل کا سوال رد نہیں کرتے، ان کی فیاضی سے اس قحط سالی میں مدینہ میں کوئی محتاج نہیں رہا۔ یہ سن کر سلطان نے کہا: سبحان اللّٰہ! اور اپنے خواب کو ظاہر نہ کیا۔ سلطان بذات خود اس مکان میں پھرتا رہا اس میں ایک چٹائی جو اٹھائی تو اس کے نیچے تہہ خانہ دیکھا جو حجرہ شریف کی طرف کھودر کھا تھا لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے۔ اس وقت سلطان نے کہا: تم اپنا حال سچ سچ بتاؤ! اور انہیں بہت مارا۔پس انہوں نے اقرار کیا کہ ہم عیسائی ہیں ہم کو نصاریٰ نے مغربی حاجیوں کے بھیس میں بھیجا ہے اور ہمیں بہت سامال دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے حجرہ شریف تک پہنچنے اور جسد مبارک نکالنے کا حیلہ ووسیلہ ٹھہراؤ۔ بھیجنے والے عیسائیوں کا یہ وہم تھا کہ اللّٰہ تعالٰی ان کو اس بات پر قادر کردے گااور وہ وہ کریں گے جو شیطان نے انہیں سمجھایا تھا اس لئے وہ دونوں حجرہ شریف کے سب سے قریب رَباط میں اُترے تھے اور انہوں نے وہ کیا جو اوپر ذکر ہوا۔ وہ رات کو کھودا کرتے تھے اور ہر ایک کے پاس مغربیوں کے لباس کے
مطابق ایک چمڑے کی تھیلی تھی جو مٹی جمع ہوتی ہر ایک اپنی تھیلی میں ڈال لیتااور دونوں زیارت بقیع کے بہانے سے نکل جاتے اور قبروں میں پھینک آتے۔ کچھ مدت وہ اسی طرح کرتے رہے جب کھودتے کھودتے حجرہ شریف کے قریب پہنچ گئے تو آسمان میں گرج پیدا ہوئی، بجلی چمکی اور ایساز لزلۂ عظیم پیدا ہوا کہ گویا پہاڑ جڑ سے اکھڑ گئے ہیں اسی رات کی صبح کو سلطان نور الدین آپہنچا اور دونوں کی گرفتاری اور اعتراف وقوع میں آیا۔ جب دونوں نے اعتراف کرلیا اور اس کے ہاتھ پر ان کا حال ظاہر ہوگیا اورا س نے اللّٰہ کی یہ عنایت دیکھی کہ یہ کام اس سے لیا تو وہ بہت رویااور ان کی گردن زَنی کا حکم دیا۔ پس وہ اس جالی کے نیچے قتل کیے گئے جو حجرہ شریف کے قریب بقیع سے متصل ہے۔ پھر اس نے بہت سی رانگ (1 ) منگوائی اور تمام حجرہ شریف کے گرد پانی کی تہہ تک ایک بڑی خندق کھدوائی وہ رانگ پگھلائی گئی اور اس سے خندق بھر دی گئی۔ اس طرح حجرہ شریف کے گرد پانی کی تہہ تک رانگ کی دیوار تیار ہوگئی۔ پھر سلطان مذکور اپنے ملک کو چلا آیااور حکم دیا کہ نصاریٰ کمزور کردئیے جائیں اور کوئی کافر عامل نہ بنایا جائے بایں ہمہ (2 ) حکم دیا کہ محاصل چونگی تمام معاف کردیئے جائیں ۔
علامہ جمال الدین محمد مَطَرِی (متوفی ۷۴۱ھ) نے اس واقعہ کی طرف بطریق اختصار اشارہ کیا ہے، اور حجرہ شریف کے گرد خندق کھود نا اور اس میں رانگ کا پگھلا کر ڈالا جانا ذکر نہیں کیا ہے، مگر وہ سال بتادیا ہے جس میں یہ حادثہ وقوع میں آیا اور بیان بالا سے بعض تفاصیل میں اختلاف کیا ہے۔ چنانچہ جو فَصِیْل (شہر کے گرد چار دیواری) اب مدینہ کے گرد ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سلطان نورالدین محمود بن زنگی بن ’’ اقسنقد ‘‘ ( 3) ۵۵۷ ھ میں مدینہ منورہ میں پہنچا اس کے آنے کا سبب ایک خواب تھا جو اس نے دیکھا تھا۔ اس خواب کو بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے اور میں نے اسے فقیہ علم الدین یعقوب بن ابی بکر ( جس کا باپ مسجد نبوی کی آتشزدگی کی رات کو جل گیا تھا) سے سنااور علم الدین نے روایت کی ان اکابر سے کہ جن سے وہ ملا کہ سلطان محمود مذکور نے ایک رات تین بار نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خواب میں دیکھا ہر بار آپ فرماتے تھے: اے محمود! مجھے ان دوسرخ رنگ شخصوں سے بچا۔ اس لئے اس نے صبح ہونے سے پہلے اپنے

وزیر کو بلایا اور اسے یہ ماجرا سنایا۔وزیر نے کہا کہ مَدِیْنَۃُ النَّبِی میں کوئی امر حادِث ہوا ہے (1 ) جس کے لئے تیرے سوا کوئی اور نہیں ۔ پس وہ تیار ہوگیااور قریباً ایک ہزار اونٹ اور گھوڑے وغیرہ لے کر جلدی روانہ ہوا یہاں تک کہ اپنے وزیر کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوااور اہل مدینہ کو خبر نہ ہوئی۔ زیارت کے بعد مسجد میں بیٹھ گیا اور حیران تھا کہ کیا کرے۔ وزیر نے کہا کہ آپ ان دو شخصوں کو دیکھ کر پہچان لیں گے؟ سلطان نے کہا: ہاں ! پس تمام لوگوں کو خیرات کے لئے بلایااور بہت سازَر وسیم (2 ) ان میں تقسیم کیااور کہا کہ مدینہ میں کوئی باقی نہ رہ جائے اس طرح کوئی باقی نہ رہا مگر اہل اندلس میں سے دو مُجاور جو اس جانب میں اترے ہوئے تھے جو نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حجرے کے آگے مسجد سے باہر آل عمر بن الخطاب کے گھر ( جو اَب دارالعشرۃ کے نام سے مشہور ہے) کے پاس ہے سلطان نے ان کو خیرات کے لئے بلایا۔ وہ نہ آئے اور کہنے لگے ہمیں ضرورت نہیں ہم کچھ نہیں لیتے۔ سلطان نے ان کے بلانے میں اصرار کیا پس وہ لائے گئے۔ جب سلطان نے ان کو دیکھا تو اپنے وزیر سے کہا: یہی وہ دو ہیں ۔ پھر ان کا حال اور ان کے آنے کا باعث دریافت کیا انہوں نے کہا: ہم نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُجَاوَرَت کے لئے آئے ہیں ۔ سلطان نے کہا: مجھ سے سچ سچ کہو۔ اور کئی دفعہ سوال کیا یہاں تک کہ مار پیٹ کی نوبت پہنچی۔ پس انہوں نے اقرار کیا کہ ہم عیسائی ہیں اور عیسائی بادشاہوں کے اتفاق سے ہم یہاں آئے ہیں تاکہ حجرہ شریف سے جسد مبارک کو نکال کرلے جائیں ۔ سلطان نے دیکھا کہ انہوں نے مسجد کی قبلہ رُو کی دیوار کے نیچے سے زمین دوز نقب لگائی ہوئی ہے (3 ) اور حجرہ شریف کی طرف کو لے جارہے ہیں اور جس مکان میں وہ رہا کرتے تھے اس میں ایک گڑھا تھاجس میں وہ مٹی ڈال دیا کرتے تھے۔ اس طرح علم الدین یعقوب نے بالاسنا د میرے پاس بیان کیا۔ پس اس جالی کے پاس جو مسجد سے باہر حجرۂ نبی کے مشرق میں ہے ان کو قتل کردیا گیا۔ پھر شام کو آگ سے جلادیئے گئے اور سلطان مذکور سوار ہو کر شام کی طرف روانہ ہوا۔ (4 )

 

پیشین گوئی… {17}

قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ
لڑو ان سے تاعذاب کرے اللّٰہ ان کو تمہارے ہاتھوں کے ساتھ اور

عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَۙ (۱۴) وَ یُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوْبِهِمْؕ-وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ (۱۵) (توبہ، ع ۲)
رسوا کرے ان کو اور غالب کرے تم کو ان پر اور ٹھنڈے کرے دل کتنے مسلمان لوگوں کے اور دور کرے ان کے دلوں کا غصہ اور اللّٰہ توبہ دے گا جس کو چاہے گا اور اللّٰہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (1 )
بنو خزاعہ میں سے کچھ لوگ ایمان لائے تھے اور ہجرت کے بعد مکہ مشرفہ میں باقی رہ گئے تھے۔ ان کو مشرکین سے تکلیف پہنچی جس کی وجہ یہ ہوئی کہ حدیبیہ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور قریش کے درمیان جو عہدو پیمان ہوئے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ ایک دوسرے کے حلیفوں (2 ) کو ایذا نہ پہنچائیں گے اور اگر ایک کے حلیف دوسرے کے حلیفوں سے جنگ کریں تو ان کی مدد نہ کریں گے۔ اس عہد کے خلاف کفارِ قریش نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حلیف خزاعہ کے خلاف اپنے حلیف بنو بکر کو ہتھیار وغیرہ سے مدد دی جس سے خزاعہ کا سخت نقصانِ جان ہوا۔ اس لئے خزاعہ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے شکایت کی جیسا کہ اس کتاب میں پہلے بیان ہو چکا ہے۔ پس یہ آیتیں اتریں جن میں مسلمانوں کی نصرت اور بعض کفار کے تائب ہونے کی پیشین گوئی ہے۔ یہ پیشین گوئی فتح مکہ سے پوری ہوگئی اور کفار میں سے مثلاً ابو سُفیان اور عِکرَمہ بن ابی جہل اور سہل بن عمرو وغیرہ ایمان لائے۔

پیشین گوئی… {18}

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْؕ-اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْاؕ-وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ (۴۹) (توبہ، ع ۷)
اور ان میں سے بعض کہتا ہے مجھ کو رخصت دے اور فتنہ میں نہ ڈال۔ خبر دار رہو وہ فتنہ میں گر پڑے ہیں اور دوزخ گھیر رہی ہے کافروں کو۔ (3 )

ایک منافق جَدّبن قَیس بہانہ لایا کہ روم کی عورتیں خوبصورت ہیں میں اس ملک میں جاکر بدی میں گرفتار ہوں گا، رخصت دوکہ سفر (غزوۂ تبوک ) میں نہ جاؤں لیکن مدد خرچ کروں گا مال سے۔ (موضح القران) اس پریہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ اِخبار بالغیب ہے کہ جَدّبن قَیس کافر ہی مرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

پیشین گوئی… {19}

وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَىٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ (۷۵) فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ (۷۶) فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ (۷۷) (توبہ، ع ۱۰)
اور ان میں سے بعض وہ ہے کہ عہد کیااللّٰہسے اگر دیوے ہم کو اپنے فضل سے تو البتہ ہم خیرات دیں گے اور البتہ ہوں گے ہم صالحین میں سے پھر جب دیا ان کو اپنے فضل سے اس میں بخل کیا انہوں نے اور پھر گئے منہ پھیر کر پھر اس کا اثر رکھا خدا نے نفاق ان کے دلوں میں اس دن تک کہ ملیں گے اس سے بسبب اس کے کہ خلاف کیا انہوں نے جو وعدہ کیا اس سے اور بسبب اس کے کہ بولتے تھے جھوٹ۔ (1 )
ایک منافق تھا ثَعْلَبہ بن حاطب اس نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے دعا چاہی کہ مجھ کو کشائش ہو۔ فرمایا کہ تھوڑا جس کا شکر ہوسکے بہتر ہے بہت سے کہ غفلت لاوے۔ پھر آیا، لگا عہد کرنے کہ اگر مجھ کو مال ہو میں بہت خیرات کروں اور غفلت میں نہ پڑوں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا کی اس کو بکریوں میں برکت ملی یہاں تک کہ مدینے کے جنگل سے کفایت نہ ہوتی نکل کر گاؤں میں جارہا جمعہ اور جماعت سے محروم ہوا۔ حضور نے پوچھا کہ ثعلبہ کیا ہوا؟ لوگوں نے حال بیان کیا فرمایا ثعلبہ خراب ہوا۔ پھر زکوٰۃ کا وقت آیا سب دینے لگے اس نے کہا: یہ تو مال بھرنا گویا جز یہ دینا ہے بہانہ کر کر ٹال دیا۔ پھر حضرت کے پاس مال لایا زکوٰۃ میں ، آپ نے قبول نہ کیا۔ حضرت کے بعد ابو بکر وعمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما بھی اپنی خلافت میں اس کی زکوٰۃ نہ لیتے خلافت عثمان میں مرگیا۔ ( موضح القرآن) اسی ثعلبہ
کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ اَخیر آیت میں یہ پیشین گوئی ہے کہ ثعلبہ منافق ہی مرے گا اسے توبہ نصیب نہ ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

پیشین گوئی… {20}

یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْهِمْؕ-قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْؕ-وَ سَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (۹۴) سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-اِنَّهُمْ رِجْسٌ٘-وَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ (۹۵) (توبہ، ع۱۲)
عذر لاویں گے تمہارے پاس جب پھر کرجاؤ گے ان کی طرف تو کہہ عذر مت لاؤ ہم نہ مانیں گے ہر گز تمہاری بات ہم کو بتا دیا ہے اللّٰہ نے تمہارا بعض احوال اور ابھی دیکھے گا اللّٰہ تمہارا عمل اور اس کا رسول پھر جاؤ گے تم طرف اس جاننے والے چھپے اور کھلے کے سووہ بتادے گا تم کو جو تم کر رہے تھے اب قسمیں کھائیں گے اللّٰہ کی جب پھر کر جاؤ گے تم ان کی طرف تاکہ ان سے درگزر کرو تم سو درگزر کرو ان سے وہ لوگ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے بدلہ ان کی کمائی کا۔ (1 )
منافقین (جَدّبن قیس و مُعَتب بن قشیر اور ان دونوں کے اصحاب) جو غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے اور مدینہ منورہ میں پیچھے رہ گئے تھے ان کی نسبت ان آیتوں میں یہ پیشین گوئی ہے کہ وہ عدم شرکت کا یوں عذر کریں گے اور یوں قسم کھائیں گے۔ یہ پیشین گوئی غزوۂ تبوک سے واپسی پر پوری ہوئی۔

پیشین گوئی… {21}

وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ
اور پہنچتا رہے گا کافروں کو ان کے کیے پر کھڑکا یا اترے گا نزدیک

اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠ (۳۱) (رعد، ع۴)
ان کے گھر سے یہاں تک کہ آوے وعدہ اللّٰہکا بیشکاللّٰہ خلاف نہیں کرتا وعدہ۔ ( 1)
اس آیت میں یہ پیشین گوئی ہے کہ جب تک سارے عرب ایمان نہ لاویں گے مسلمان ان کے ساتھ جہاد کرتے رہیں گے اور انہیں قتل و قید کرتے رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔

پیشین گوئی… {22}

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (۹) (حجر، ع۱)ہم نے آپ اتاری ہے یہ نصیحت (قرآن) اور ہم اس کے نگہبان ہیں ۔ ( 2)
اس آیت میں یہ خبر دی گئی کہ قرآن کریم تحریف و تبدیل سے محفوظ رہے گا۔ اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کا مخالفین واَعدائے اِسلام (3 ) کو بھی اعترا ف ہے۔ مَلاحِدَہ ( 4) و معطلہ ( 5) بالخصوص قرامطہ نے تحریف قرآن کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ایک حرف بھی ادل بدل نہ کرسکے۔ کتب ِسَمَاوِیہ ٔسابقہ (6 ) اگرچہ سب کی سب کلام الٰہی تھیں مگر تحریف سے کوئی خالی نہ رہی فقط ایک قرآن مجید ہے جو تحریف و تبدیل سے محفوظ رہا اور رہے گا کیونکہ اس کا حافظ خود خدا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر کتب سابقہ میں تحریف ہوجاتی تھی تو دوسرا نبی آکر اسے بیان فرمادیتا تھامگر قر آن چونکہ خاتم النَّبِیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر نازل ہوا جن کے بعد کوئی نیا نبی نہ آئے گا جو بصورتِ وقوعِ تحریف (7 ) اسے بیان فرما دیتااس لئے اللّٰہ تعالٰی نے اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی اور اس طرح اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شانِ محبوبیت کو بھی ظاہر فرما دیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی حَبِیْبِکَ سَیِّدِ نَا وَ مَوْلٰینَا محمد وَّ عَلٰی اٰلِہٖ
وَ اَصْحَابِہٖ وَ عَلَیْنَا مَعَھُمْ بِعَدَدِ کُلِّ مَعْلُوْمٍ لَّکَ ۔
اللّٰہ تعالٰی نے قرآن کریم کی حفاظت کا طرفہسامان (1 ) کیاہے۔ علمائے اِسلام، قراء و محدثین ہر دور میں اسے بطریق ِتواتر روایت کرتے رہے ہیں جن پر کذب کا وہم تک نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے عہد مبارک سے لے کر ہر زمانے میں کثرت سے اس کتاب کے حافظ رہے ہیں اور آئندہ رہیں گے اس طرح امت کے سینوں میں محفوظ ہونا اس کتاب الٰہی کا خاصہ ہے۔
بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ (۴۹) (عنکبوت، ع۵)
بلکہ یہ قرآن آیتیں ہیں صاف، سینے میں ان کے جن کو ملا ہے علم۔ منکر نہیں ہماری آیتوں سے مگر وہی جو بے انصاف ہیں ۔ (2 )
اسی واسطے اللّٰہ تعالٰی نے شب معراج میں اپنے حبیب پاکصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے مقام قاب قوسین او اَدنیٰ میں مِنْجملہ دیگر انعامات کے یہ بھی ارشاد فرمایا: (3 ) ’’ میں نے تیری امت میں سے ایسی جماعتیں بنائی ہیں کہ جن کے دل ان کی انجیلیں ہیں ۔ ‘‘ (4 ) یعنی ان کے دل کتابوں کی طرح ہیں جس طرح انسان کتاب سے پڑھتا ہے وہ دل سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ۔
امام بیہقی نے روایت کی کہ یَحْیٰی بن اَکْثَم (متوفی ۲۴۲ھ) نے کہا کہ ایک یہودی خلیفہ مامون کی خدمت میں آیا اس نے کلا م کیا اور اچھا کلام کیا خلیفہ نے اسے دعوتِ اسلام دی مگر اس نے انکار کردیاجب ایک سال گزرا تو وہ مسلمان ہوکر ہمارے پاس آیا اور اس نے علم وفقہ میں اچھی گفتگو کی۔ مامون نے اس سے پوچھا کہ تیرے اسلام لانے کا کیا باعث ہے؟ اس نے کہا: میں نے آپ کے ہاں سے جاکر مذاہب کا امتحان کیا میں نے تو رات کے تین (5 ) نسخے

لکھے اور ان میں کمی بیشی کردی اور کَنیسَہ (1 ) میں بھیج دیئے وہ تینوں فروخت ہوگئے پھر میں نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں کمی بیشی کردی اور گر جامیں بھیج دیئے وہ تینوں بھی فروخت ہوگئے پھر میں نے قرآن مجید کے تین نسخے لکھے اور ان میں کمی بیشی کردی اور ان کو وَرَّاقِین (2 ) کے ہاں بھیج دیا انہوں نے ان نسخوں کی ورق گردانی کی۔ ( 3) جب ان میں کمی بیشی پائی تو ان کو پھینک دیا اور ان کو مول نہ لیا۔ اس سے میں نے جان لیا کہ یہ کتاب تحریف سے محفوظ ہے اسی لئے میں مسلمان ہوگیا۔ یحییٰ نے کہا کہ میں نے اسی سال حج کیا اور سُفیان بن عیینہ سے ملا میں نے یہ قصہ ان سے بیان کیا۔ حضرت سفیان نے فرمایا کہ اس کا مصداق (4 ) قرآن مجید میں موجود ہے۔ میں نے پوچھا: کس مقام پر؟ فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے تورات اور انجیل کی نسبت بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ ( 5) فرمایا ہے۔ پس ان کی حفاظت ان پر چھوڑدی گئی تھی اور قرآن کی نسبت فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (۹) ( 6) اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے اسے تحریف و تبدیل سے محفوظ رکھا۔ ( 7)

پیشین گوئی… {23}

اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ (۹۵) الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۚ-فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ (۹۶) (حجر، ع۶)
ہم بس ہیں تیری طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کو جو ٹھہراتے ہیں اللّٰہ کے سوا اور معبود سووہ آگے معلوم کریں گے۔ (8 )
اشرافِ قریش میں سے پانچ شخص جہاں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھتے تھے ٹھٹھا کرتے

تھے جب ان کی شرارت حد سے بڑھ گئی تو اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیتیں ان کے بارے میں نازل فرمائیں پس وہ ایک دن رات میں ہلاک ہوگئے۔ ان میں سے ایک عاص بن وائل سہمی تھا وہ اپنے بیٹے کے ساتھ سیر کرنے نکلا اور ایک درۂ کوہ (1 ) میں اترا جونہی اس نے پاؤں زمین پر رکھا کہنے لگا مجھے کچھ کاٹ گیا۔ ہر چند لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا مگر کچھ نہ پایا۔ اس کے پاؤں میں ورم ہوگیا یہاں تک کہ اونٹ کی گردن کی مانند ہوگیا اور وہیں مرگیا۔ دوسرا حارِث بن قَیس سہمی تھا۔ اس نے نمکین مچھلی کھالی سخت پیاس جو لگی وہ پانی پیتا رہا یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا اور مرگیا۔ مرتے وقت کہتا تھا کہ مجھے محمد کے رب نے مارڈالا۔ تیسرا اَسود بن المُطَّلِب بن الحارِث تھا۔ وہ اپنے غلام کے ساتھ نکلا ایک درخت کی جڑ میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلامآئے اور اس کے سر کو درخت پر مارنے لگے۔ وہ اپنے غلام سے فریاد کرنے لگا۔ غلام نے کہا: مجھے تو کوئی نظر نہیں آتا آپ ہی ایسا کر رہے ہیں ۔ پس وہ وہیں مرگیا۔ چوتھا وَلید بن مغیرہ تھا۔ وہ بنی خزاعہ میں سے ایک تیر تَرَّاش ( 2) کی دکان سے گزرا۔ ایک پیکان ( 3) اس کی چادر کے دامن سے چمٹ گیا وہ چادر کا دامن اپنے کندھے پر ڈالنے لگا تو پیکان سے اس کی رگِ ہفت اَندام ( 4) کٹ گئی پھر خون بندنہ ہوا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پانچواں اَسود بن عبد یغوث تھا وہ اپنے گھر سے نکلا اسے لُو لگی پس وہ حبشی کی طرح سیاہ ہوگیاجب وہ گھر آیا تو گھر والوں نے اسے نہ پہچانا، (5 ) آخر وہ اس لُو کے اثر سے مر گیا۔

پیشین گوئی {24}

وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا (۷۶) (بنی اسرائیل، ع۸)
اور تحقیق وہ قریب تھے کہ بچلادیں تجھ کو زمین سے تاکہ نکالیں تجھ کو اس میں سے اور اس وقت وہ نہ رہیں گے تیرے پیچھے مگر تھوڑا زمانہ۔ (6 )

کفارِ قریش چاہتے تھے کہ ایذاء سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو بے آرام کردیں تاکہ گھبرا کر مکہ سے نکل جائیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ بتلادیا گیا ہے کہ اگر وہ آپ کو نکال دیں گے تو آپ کے بعد وہ دیر تک زندہ نہ رہیں گے۔ بد ر کے دن یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اس دن آپ کو ایذاء دینے والے قتل ہوگئے۔

پیشین گوئی… {25}

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (۵۵) (نور، ع۷)
وعدہ کیا اللّٰہنے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں نیک کام البتہ پیچھے حاکم کرے گا ان کو ملک میں جیساکہ حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو اور ثابت کردے گا انکے واسطے دین ان کا جو پسند کردیا انکے واسطے اور بدل دے گا ان کوڈر کے بعد امن، میری بندگی کریں گے، شریک نہ ٹھہرائیں گے میرا کوئی، اور جو کوئی ناشکری کرے گا اس پیچھے سو وہی لوگ ہیں فاسق۔ ( 1)
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی نے حضوراقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جو موجود تھے خلافت اورتمکین دِین ( 2) او ر کفار سے امن کا وعدہ فرمایااور صاف کہہ دیا کہ یہ خلافت اس طرح ہوگی جیسے بنی اسرائیل میں قائم ہوئی تھی۔ یہ وعدہ خلفائے اربعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں لفظ بلفظ پورا ہوا جس کی تفصیل کی اس کتاب میں گنجائش نہیں لہٰذا جو شخص ان کی خلافت سے منکرہو اُس کا حکم وہی ہے جو اس آیت کے اخیر حصے میں مذکور ہے۔

پیشین گوئی… {26}

 

اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍؕ- (قصص، ع۹)
جس نے حکم بھیجا تم پر قرآن کا وہ پھر لانے والا ہے تجھ کو پہلی جگہ۔ ( 1)
جب حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بحکم الٰہی مدینہ کو ہجرت فرمائی تو راستے میں مقامِ جحفہ میں آپ کو وطن کا خیال آیا اللّٰہ تعالٰی نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی اور اس میں پھر مکہ میں واپس آنے کی خوشخبری دی۔ یہ پیشین گوئی ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے دن پوری ہوئی۔

پیشین گوئی… {27}

الٓمّٓۚ (۱) غُلِبَتِ الرُّوْمُۙ (۲) فِیْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُوْنَۙ (۳) فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ۬ؕ-لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُؕ-وَ یَوْمَىٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَۙ (۴) بِنَصْرِ اللّٰهِؕ-یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُۙ (۵) (روم، شروع)
مغلوب ہوگئے ہیں رومی لگتے ملک میں اور وہ اس مغلوب ہونے کے بعد اب غالب ہوں گے کئی برس میں اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے کا م پہلے اور پچھلے اور اس دن خوش ہوں گے مسلمان اللّٰہ کی مدد سے مدد کرتاہے جس کی چاہتا ہے اور وہی ہے غالب مہربان۔ ( 2)
جب کسریٰ پرویز نے رومیوں پر حملہ کیا تو عرب سے لگتی زمین (اَذرِعات و بُصْرٰے یا اُردن و فلسطین) میں دونوں لشکروں کامقابلہ ہوا اور فارِس روم پر غالب آئے۔ جب یہ خبر مکہ مشرفہ میں پہنچی تو مشرکین خوش ہوئے اور مسلمانوں سے کہنے لگے: تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہو اور ہم اور فارس بے کتاب ہیں جس طرح ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر

غالب آگئے ہم بھی تم پر غالب آجائیں گے۔ مسلمانوں کو یہ امر نہایت ناگوار گزرا پس اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں مذکور ہے کہ چند سال کے اندر روم فارس پر غالب آجائیں گے۔ چنانچہ نو سال کے بعد بدر کے دن یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی۔ (1 )

پیشین گوئی… {28}

اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْۙ-اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِیْهِۚ-فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (۵۶) (مومن، ع ۶)
جولوگ جھگڑتے ہیں اللّٰہ کی باتوں میں بغیر کچھ سند کے جو پہنچی ہو ان کو اور کچھ نہیں ان کے سینوں میں مگر تکبر وہ نہیں پہنچنے والے اس تک سو تو پناہ مانگ اللّٰہ کی بے شک وہ ہے سنتا دیکھتا۔ (2 )
اس آیت میں یہ مذکور ہے کہ منکرین کے دلوں میں یہ غرور ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اوپر رہیں گے مگر یہ نہیں ہونے کا، چنانچہ کفار کو کبھی حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر تَعَاظُم و تَقَدُّم (3 ) حاصل نہ ہوا۔

پیشین گوئی… {29}

فَلَا تَهِنُوْا وَ تَدْعُوْۤا اِلَى السَّلْمِ ﳓ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ﳓ وَ اللّٰهُ مَعَكُمْ وَ لَنْ یَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ (۳۵) (محمد ، ع ۴)
سوتم سستی نہ کرو اور نہ بلاؤ ان کوصلح کی طرف اور تم ہی رہوگے غالب اور اللّٰہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا تمہارے اعمال۔ ( 4)
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم کفار کے مقابلہ میں سستی نہ کرو اور ان سے صلح طلب نہ کرو تم ہی غالب آؤ گے۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔

پیشین گوئی… {30}

لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّۚ-لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَۙ-مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَۙ-لَا تَخَافُوْنَؕ-فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِیْبًا (۲۷) (فتح، ع۴)
بے شک اللّٰہنے سچ دکھایا اپنے رسول کو خواب تحقیق تم داخل ہوجاؤ گے مسجد حرام میں اگر اللّٰہ نے چاہا امن سے بال مونڈتے اپنے سروں کے اور کترتے ہوئے بے خطرہ پس جانا اللّٰہ نے جو نہ جانا تم نے پس ٹھہرادی اس سے ورے ایک فتح (خیبر) نزدیک۔ (1 )
حدیبیہ کی طرف جانے سے پہلے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ مع صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سرمنڈائے ہوئے کعبۃ اللّٰہ میں داخل ہوئے ہیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ خواب صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے بتادیا وہ سمجھے کہ داخلہ اسی سال ہوگا حالانکہ خواب میں داخلہ کے وقت کی تعیین نہ تھی جب مسلمان کعبۃ اللّٰہ میں داخل ہوئے بغیر حدیبیہ ہی سے صلح کر کے مدینے واپس آنے لگے تو منافقین تمسخرسے کہنے لگے: اب وہ خواب کہاں ہے جو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دیکھا تھا۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو یہ امر ناگوار گزرا اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی اور دوسرے سال فتح خبیر کے بعد یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔

پیشین گوئی… {31}

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ
وہ ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ساتھ ہدایت اور سچے دین کے

لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ (۲۸) (فتح، ع۴)
تاکہ غالب کرے اس کو ہر دین پر اور کافی ہے اللّٰہ شہادت دینے والا۔ ( 1)
اس آیت میں دین اسلام کے تمام دینوں پر غالب آنے کی پیشین گوئی ہے جس کے پورا ہونے میں کلام نہیں ۔ موضح القرآن میں ہے: ’’ اس دین کو اللّٰہ نے ظاہر میں بھی سب سے غالب کردیا ایک مدت اور دلیل سے غالب ہے ہمیشہ۔ ‘‘

پیشین گوئی… {32}

اَمْ یُرِیْدُوْنَ كَیْدًاؕ-فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِیْدُوْنَؕ (۴۲) (طور، ع۲)
کیا چاہتے ہیں کچھ داؤ کرنا سو جو کافر ہیں وہی داؤ میں آنے والے ہیں ۔ ( 2)
اس آیت مکی میں یہ اِخبار بالغیب ہے کہ جن مشرکین نے بعثت کے تیر ھویں سال دار الندوہ میں جناب رسالت مآب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قتل کرنے پر اتفاق کیا تھا وہ ہلاک ہوجائیں گے چنانچہ یوم بدر میں ایسا ہی وقوع میں آیا۔

پیشین گوئی… {33}

اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ (۴۴) سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (۴۵) (قمر، ع۳)
کیاکہتے ہیں ہم سب جماعت بدلہ لینے والے اب شکست دی جاوے گی وہ جماعت اور بھاگیں گے پیٹھ دے کر۔ ( 3)
یہ آیتیں مکہ میں نازل ہوئیں ۔ جب بدر کا دن آیا اور قریش کو ہزیمت ( 4) ہوئی تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زِرَہ پہنے اور تلوار کھینچے ہوئے ان کا تعاقب کیا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اس دن مجھے

اس پیشین گوئی کا مطلب سمجھ میں آیا کہ کفار قریش ہزیمت اٹھائیں گے اور مسلمان تلوار و نیزے سے ان کا تعاقب کریں گے۔ صحیح بخاری کتا ب المَغازی میں حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہ بدر کے دن نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا مانگی اور آپ عریش (1 ) میں تھے، اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَ وَعْدَکَ اَللّٰھُمَّ اِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَد ۔ یااللّٰہ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرا وعدہ طلب کرتا ہوں یااللّٰہ تو اگر (ہم پر کافروں کو غالب کرنا) چاہے تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ یہ سن کر سیدنا حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور کا ہاتھ پکڑلیا اور عرض کیا: ’’ آپ کو یہ کافی ہے۔ ‘‘ پس حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عریش سے نکلے اور آپ یوں فرمارہے تھے: (2 ) سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ (۴۵) ( 3)

پیشین گوئی… {34}

هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِﳳ- (حشر، ع ۱)
وہ ہے جس نے نکال دیئے جو کافر ہیں کتاب والوں میں سے ان کے گھروں سے پہلی جلاوطنی کے وقت۔ (4 )
اس کتاب میں پہلے آچکا ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بنی نضیر کو ہجرت کے چوتھے سال جلاوطن کردیااور وہ ملک شام میں چلے گئے۔ یہ یہو د کی پہلی جلاوطنی تھی جیسا کہ ا ٓیت بالا سے ظاہر ہے۔ اس میں اشارہ تھا کہ یہود کی دوسری جلاوطنی بھی ہوگی چنانچہ وہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عہد مبارک میں وقوع میں آئی جب کہ یہود تمام جزیرۂ عرب سے نکال دیئے گئے مگر حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کے مالوں کی قیمت دی۔ (5 )

 

پیشین گوئی… {35}

كَلَّا لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ ﳔ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِیَةِۙ (۱۵) (سورۂ علق)ہرگز نہیں یوں اگر باز نہ آوے گا ہم گھسیٹیں گے پیشانی کے بال پکڑ کر۔ (1 )
اس آیت میں یہ پیشین گوئی ہے کہ ابو جہل ذلیل موت مرے گااور اس کو گھسیٹ کر لائیں گے۔ یہ پیشین گوئی جنگ بدر کے دن پوری ہوئی چنانچہ اس دن جب وہ لعین مررہا تھا تو حضرت عبداللّٰہبن مَسْعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو دُبلے پتلے تھے اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور اس کا سر کاٹ دیا۔ جب ( 2) کمزوری کے سبب اس کے سر کو نہ اٹھا سکے تو اس کے کان میں سوراخ کرکے اس میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لائے۔ ( 3)

پیشین گوئی… {39,38,37,36}

 

اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ (۱) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ (۲) اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠ (۳) o (کوثر)
ہم نے دی تجھ کو کوثر سو نماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور قربانی کر بیشک دشمن تیرا وہی ہے پیچھا کٹا۔ (4 )
یہ قرآن کی چھوٹی سی سورت ہے۔ اس کی تین آیتوں میں چار (5 ) پیشین گوئیاں ہیں ۔ ایک توپہلی آیت میں ہے جب کہ کوثر سے مراد کثرتِ اَتباع ( 6) ہو جیسا کہ بعض روایات میں وارد ہے۔ دوسری پیشین گوئی دوسری آیت میں ہے کیونکہ وَانْحَرْ (اور قربانی کر) صیغۂ امر ہے۔ پس اس میں اشارہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اور آپ کی امت کو تو نگری عطا کرے گاجس سے قربانی پر اقدام ہوسکے۔ اسی طرح تیسری آیت میں دو پیشین گوئیاں ہیں ۔ یعنی حضور نہیں بلکہ حضور کا دشمن بے اولاد مرے گا کہ اس کے پیچھے کوئی اس کانام نہ لے گا۔ یہ چاروں

پیشین گوئیاں پوری ہوئیں ۔ (1 ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَتباع کی کثرت (2 ) ظاہر ہے حتی کہ قیامت کے دن آپ بلحاظ امت تمام نبیوں سے بڑھ کر ہوں گے۔ اللّٰہ نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تو نگری اس قدر عطا فرمائی کہ ایک دفعہ سو اونٹ بطور ہَد ِی ( 3) بھیجے۔ عاص بن وائل جو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پیچھا کٹا ہونے کا طعن دیا کرتا تھا بے اولاد مرا اس کی نسل منقطع ہوگئی۔ کوئی اس کانام بھی نہیں لیتا۔ حالانکہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذُرِّیت قیامت تک رہے گی۔ آ پ کا نام قیامت تک روشن ہے۔ علاوہ ازیں سب مومنین آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولاد ہیں جو قیامت تک رہیں گے۔
آثارِ اقتدارِ تو تا حشر متصل خصمِ سیاہ روئے تو بے حاصل وخجل

 

پیشین گوئی… {40}

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ (۱) وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ (۲) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠ (۳) (سورۂ نصر )
جب آوے مدد اللّٰہ کی اور فتح اور تو دیکھے لوگوں کو داخل ہوتے ہیں اللّٰہ کے دین میں فوج فوج پس پاکی بیان کر اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اور بخشش مانگ اس سے بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔ ( 4)
یہ سورت فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی۔ اس میں فتح مکہ کی بشارت ہے جو ہجرت کے آٹھویں سال پوری ہوئی اورپیشین گوئی کے مطابق اہل مکہ وطائف ویمن و ہوازِن اور باقی قبائل ِعرب دین اسلام میں گروہ ہا گروہ داخل ہوئے حالانکہ اس سے پہلے اِکادُ کا اسلام میں داخل ہوا کرتے تھے۔
مندرجہ بالا پیشین گوئیاں جو سب کی سب پوری ہوئیں فقط بطورِ مثال بیان کی گئی ہیں اور اس کتاب میں زیادہ کی گنجائش بھی نہیں ورنہ قرآن مجید میں تو اس کثرت سے پیشین گوئیاں ہیں کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں جس میں قرآن مجید کی
کوئی نہ کوئی پیشین گوئی پوری نہ ہوتی ہو اور کتنی پیشین گوئیاں ہیں کہ قُرب ِقیامت اور یوم قیامت کو پوری ہوں گی۔ مثلاً یاجوج و ماجوج کا آنا، دابۃ الارض کاظاہر ہونا، حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا تشریف لانا، آسمانوں کا پھٹنا، پہاڑوں کا غبار ہونا، زمین کا چکنا چور ہونا، صور کا پھونکا جانا، مُردوں کا زندہ ہونا، ہاتھ پاؤں کا گواہی دینا، اَعمال کا وزن کیا جانا وغیرہ وغیرہ۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن کریم بے شک معجزہ ہے۔

 

 

 

 

 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!