اسلامواقعات

حضرت نضلہ بن معاویہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت نضلہ بن معاویہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

کرامت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحابی

حضرت نضلہ بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ قادسیہ میں امیر لشکر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں جہاد کے لیے تشریف لے گئے۔ ناگہاں امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان آیا کہ حضرت نضلہ بن معاویہ کو ”حلوان العراق” میں جہاد کے لیے بھیج دیا جائے۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ان کو تین سو مجاہدین کا افسر بناکر بھیج دیا اورانہوں نے مجاہدانہ حملہ کر کے ”حلوان العراق” کی بہت سی بستیوں کو فتح کر لیا اور بہت زیادہ مال غنیمت لے کر وہاں سے روانہ ہوئے۔
درمیان راہ میں ایک پہاڑکے پاس نما زمغرب کا وقت ہوگیا۔ حضرت نضلہ بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان پڑھی اور جیسے ہی اللہ اکبر !اللہ اکبر!کہاتو پہاڑ کے اندر سے کسی جواب دینے و الے نے بلند آواز سے کہا: لَقَدْ کَبَّرْتَ کَبِیْرًا یَانَضْلَۃُ اسی طرح آپ کی پوری اذان کے ہر ہر کلمہ کا جواب پہاڑ کے اند رسے سنائی دیتا رہا۔ آپ حیران رہ گئے کہ آخر اس پہاڑ کے اندر کون ہے جو میرا نام لے کر اذان کا جواب دے رہا ہے ۔ پھر آپ نے بلند آواز سے فرمایاکہ اے شخص!خدا تم پر رحم فرمائے تو کون ہے؟ تو فرشتہ ہے یا جن یا رجال الغیب میں سے ہے ؟جب تو نے اپنی آواز ہم کو سنادی ہے توپھر اپنی صورت بھی ہم کو دکھا دے کیونکہ ہم لوگ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نمائندہ ہیں آپ کے یہ فرماتے ہی پہاڑ پھٹ گیا اور اس کے اندر سے ایک نہایت ہی بوڑھے اوربزرگ آدمی نکل پڑے اورانہوں نے سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر پوچھا:آ پ کون ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا:میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صحابی اوران کا وصی ہوں۔میرے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے میرے لئے درازی عمرکی دعا فرمادی ہے او رمجھے یہ حکم دیا ہے کہ تم میرے آسمان سے اترنے کے وقت تک اسی پہاڑمیں مقیم رہنا۔ چنانچہ میں اپنے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے انتظار میں یہاں ٹھہرا ہوا ہوں ۔ا ۤپ مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے میرا سلام کہہ دیں اورمیرایہ پیغام بھی پہنچادیں کہ اے عمر!صراط مستقیم پرقائم رہو اور خدا کا قرب ڈھونڈتے رہو۔ پھر چند دوسری نصیحتیں فرماکر وہ بزرگ ایک دم اسی پہاڑمیں غائب ہوگئے ۔
حضرت نضلہ بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ساراواقعہ حضرت سعد بن ابی
وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لکھ کر بھیجا اورانہوں نے اس کی اطلاع دربارخلافت میں بھیج دی تو امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام یہ فرمان بھیجا کہ تم اپنے پورے لشکر کے ساتھ ”حلوان العراق”میں اس پہاڑ کے پاس جاؤ اگر تمہاری ان بزرگ سے ملاقات ہوجائے تو ان سے میرا سلام کہہ دینا۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے چارہزارسپاہیوں کے ساتھ اس مقام پر پہنچے اورچالیس دن تک مقیم رہے مگرپھر وہ بزرگ نہ ظاہر ہوئے نہ ان کی آواز کسی نے سنی ۔ (1)(ازالۃ الخفاء،مقصد۲،ص۱۶۷تا۱۶۸)

تبصرہ

وہ بزرگ بھلا کیونکر اورکس طرح پھر ظاہر ہوتے ؟ان سے ملاقات اور شرف ہم کلامی کی کرامت تو حضرت نضلہ بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی جو انہیں مل گئی ۔ مثل مشہور ہے کہ :

لِکُلِّ رَجُلٍ نَصِیْبٌ وَّالنَّصِیْبُ یُصِیْبُ .

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!