فضائل

نکاح کی عظمت و فضیلت

نکاح کی عظمت و فضیلت

(۱)’’عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاء ٌ‘‘۔ (1)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ ( اجنبی عور ت کی طرف سے )نگاہ کو روکنے والا، شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ روزے رکھے اس لیے کہ روزہ شہوت کو توڑ تا ہے ۔ (بخاری ، مسلم)
(۲)’’عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الدُّنْیَا کُلُّہَا مَتَاعٌ وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ‘‘۔ (2)
حضرت عبداﷲ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیمنے فرمایا کہ ساری دنیا ایک متاع زندگی ہے اور دنیا کی بہترین متا ع نیک عورت ہے ۔ (مسلم)
(۳)’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ تَرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلَ النِّکَاحِ‘‘۔ (3)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما نے کہا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ رشتہ نکاح کے سوا (اور کوئی رشتہ)دیکھنے میں نہیں آیا جو دو اجنبی آدمیوں کے درمیان اتنی گہری محبت پیدا کردے ۔ (ابن ماجہ)

انتباہ:
(۱)…جو شخص مہرو نفقہ کی قدرت رکھتا ہو اس کے نکاح کرنے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اسے یقین ہو کہ بحالتِ تجرد وہ زنا کی معصیت میںمبتلا ہوجائے گا تو نکاح کرنا فرض ہے اور اگر اس کا یقین نہیں بلکہ صرف اندیشہ ہے تو نکاح کرنا واجب ہے اور شہوت کا بہت زیادہ غلبہ نہ ہو تو نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے اور اگر اس بات کا اندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان و نفقہ نہ دے سکے گا یا نکاح کے بعد جو فرائض متعلقہ ہیں انہیں پورا نہ کرسکے گا تو نکاح کرنا مکروہ ہے اور اگر ان باتوں کا اندیشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہو تو نکاح کر نا حرام ہے ۔ (1) (درمختار، رد المحتار، بہار شریعت)
(۲)…بعض لوگ بیوہ عورتوں کا نکاح کرنا خاندان کے لیے عار سمجھتے ہیں یہ سخت ناجائز و گناہ ہے ۔
(۳)…مرتد و مرتدہ کا نکاح کسی سے صحیح نہیں ہوسکتا نہ مسلمان سے نہ کافر سے نہ مرتدہ و مرتد سے ۔ (2)
(بہار شریعت بحوالہ درمختار)
اور جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص: ۲۶۳میں ہے :
’’ لَا یَجُوزُ لِلْمُرْتَدِّ أَنْ یَتَزَوَّجَ مُرْتَدَّۃً وَلَا مُسْلِمَۃً وَلَا کَافِرَۃً أَصْلِیَّۃً وَکَذَلِکَ لَا یَجُوزُ نِکَاحُ الْمُرْتَدَّۃِ مَعَ أَحَدٍ، کَذَا فِی الْمَبْسُوطِ‘‘ ۔ (3)
یعنی مرتدہ مسلمہ اور کافرہ اصلیہ سے مرتد کا نکاح کرنا جائز نہیں۔ اور ایسا ہی مر تدہ کا نکاح کسی سے جائز نہیں ہے ۔ ایسا ہی مبسوط میں ہے ۔
(۴)…وہابیوں، دیوبندیوں ، رافضیوں ، نیچریوں، وغیرہ بددینوں کے ساتھ رشتہ نکاح قائم کرنا اہل سنت کے لیے ہر گز جائز نہیں۔
(۵)…پورے ہندوستان میں عام طور پر جو رائج ہے کہ عورت یا ولی سے ایک شخص اذن لے کرآتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں وہ نکاح پڑھانے والے سے کہہ دیتا ہے کہ میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ نکاح پڑھا دیجئے ۔ یہ طریقہ محض غلط ہے ۔ وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ اس کام کے لیے دوسرے کو وکیل بنادے
اگر ایسا کیا گیا تو نکاح فضولی ہوا ( عورت کی) اجازت پر موقوف رہے گا اجازت سے پہلے مرد و عورت ہر ایک کو توڑ دینے کا اختیار حاصل ہے ۔ لہذا یوں چاہیے کہ جو نکاح پڑھائے وہ خود عورت یا اس کے ولی کا وکیل بنے ۔ (1) (بہار شریعت)
یا پھر عورت کا وکیل اس بات کی بھی اجازت حاصل کرے کہ وہ نکاح پڑھانے کے لیے دوسرے کو وکیل بناسکتا ہے ۔
(۶)…بعض لوگ ایجاب و قبول کے الفاظ بہت آہستہ بولتے ہیں اگر اس قدر آہستہ بولے کہ حاضرین میں سے دوآدمیوں نے بھی ایجاب و قبول کے الفاظ نہ سنے تو نکاح نہ ہوا۔
(۷)…نکاح سے پہلے لڑکی اور لڑکا کو کلمۂ طیبہ اور ایمان مجمل و مفصل پڑھانا جیسا کہ رائج ہے بہتر ہے ۔
(۸)…خطبۂ نکاح ایجاب و قبول سے پہلے پڑھنا مستحب ہے ۔
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!