اسلام
۔۔۔۔ حروف غیر عاملہ کا بیان ۔۔۔۔
حروف غیر عاملہ تیرہ ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
*۔۔۔۔۔۔۱۔حروف عطف:
حروف عطف کی تعریف:
وہ حروف جو اپنے مابعد کو ماقبل کے حکم میں جمع کرنے کیلئے آتے ہیں۔ ان کو حروف عطف کہتے ہیں ، انکے ماقبل کو معطوف علیہ اورما بعد کو معطوف کہتے ہیں ۔ حروف عطف نو ہیں۔
۱۔وَاؤ ۲۔ فَا ۳۔أَوْ ۴۔ أَمْ ۵۔ لاَ ۶۔بَلْ ۷۔حَتٰی ۸ لَکِنْ ۹۔ ثُمَّ
۱۔واؤ:
یہ مطلق جمع کیلئے آتاہے اور معطوف ومعطوف علیہ میں ترتیب ضروری نہیں جیسے جَاءَ زَیْدٌ وَعُمَرُ اس کا مطلب ہے زَیْدٌ اورعُمَرُ دونوں آئے اب یہاں یہ ترتیب ضروری نہیں کہزَیْدٌ پہلے آیا ہو یا عُمَرُ ۔
۲۔فا:
یہ ترتیب کیلئے آتاہے اور اس میں یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ ماقبل کیلئے جو حکم ثابت ہواہے وہ فورا ہی مابعد کیلئے ثابت ہو اور اس میں تاخیر نہ ہو۔ جیسے جَاءَ زَیْدٌ فَبَکْرٌ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے زید آیا اوراس کے فوراً بعد بکر ۔
۳۔او ، ۴۔ام:
یہ دونوں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انکے مابعد یا ماقبل میں کسی ایک کیلئے حکم ثابت ہے لیکن کس کیلئے ثابت ہے اس میں شک ہے۔ جیسے جَاءَ زَیْدٌ أَوْ عَمْر ٌو، جَاءَ زَیْدٌ أَمْ عَمْرٌ و، اس کا مطلب یہ ہے کہ زید یا عمر و میں سے کوئی ایک آیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کون آیا ہے۔
۵۔لا:
یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے مابعد سے حکم کی نفی کی گئی ہے۔ جیسے رَکِبَ السَّیِّدُ لاَ خَادِمُہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ سردار سوار ہوا، اس کاخادم نہیں ۔
۶۔بَلْ:
یہ معطوف علیہ سے حکم کی نفی کرکے معطوف کیلئے حکم کو ثابت کرنے کیلئے آتاہے۔ جیسے جَاءَ نِیْ زَیْدٌ بَلْ بَکْرٌ (میرے پاس زید نہیں بلکہ بکر آیا)۔
۷۔حتی:
حتی انتہائے غایت کیلئے آتا ہے۔ جیسے قَرَءَ الطُّلاَّبُ حَتَّی الأُستَاذُ (طالب علموں نے پڑھا حتی کہ استاد نے بھی پڑھا) ۔
۸۔لٰکِنَّ:
یہ اس وہم کو دور کرنے کیلئے آتاہے جو ماقبل کلام سے پیدا ہواہو،یہ جس جملہ میں آئے اس سے پہلے یا اس کے بعد نفی کا ہونا ضروری ہے۔ جیسے مَا نَامَ زَیْدٌ لٰکِنْ عَمْرٌو
نَامَ۔(زید نہیں سویا لیکن عمرو سوگیا)۔
۹۔ثُمَّ:
یہ بھی ترتیب کیلئے آتاہے لیکن اس میں یہ بات ضروری ہے کہ ماقبل کیلئے جو حکم ثابت ہے وہ مابعد کیلئے کچھ دیر کے بعدثابت ہو۔ جیسے اِسْتَیْقَظَ زَیْدٌ ثُمَّ بَکْرٌ (زیدجاگا پھر اس کے کچھ دیربعد بکر جاگا)۔
*۔۔۔۔۔۔۲۔حروف استفہام:
ان کی پوری بحث کلمات استفہام میں گزر چکی ہے۔
*۔۔۔۔۔۔۳۔حروف استقبال:
یہ وہ حروف ہیں جو فعل مضارع پر داخل ہوکر اس کو مستقبل کے معنی میں کر دیتے ہیں۔یہ دو ہیں۔۱۔سین۲۔سوف جیسے سَیَقُوْمُ (عنقریب وہ کھڑاہوگا)اورسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (عنقریب تم جان لوگے)۔
*۔۔۔۔۔۔۴۔حروف تاکید:
وہ حروف ہیں جو جملہ پر داخل ہوتے ہیں اور اس میں تاکید کے معنی پیدا کردیتے ہیں۔ یہ دوہیں۔
۱۔ نون تاکید ۲۔ لام ابتدائیہ
۱۔نون تاکید:
نون تاکید فعل پر داخل ہوتاہے۔جیسے لَیَضْرِبَنَّ ( ضرور ضرور مارے گا وہ ایک مرد)۔
۲۔لام ابتدائیہ:
یہ اسم اور فعل دونوں پر داخل ہوتا ہے جیسے: (وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ) ترجمہ کنز الایمان:”اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے ”۔ اور (لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا) ترجمہ کنز الایمان:”تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں”۔
نوٹ:
اِنَّ اور أَنَّ بھی تاکید کیلئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کبھی قَدْ بھی تاکید کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔
ز۔۔۔۔۔۔۵۔حروف تفسیر:
وہ حروف جواپنے ماقبل کی وضاحت کیلئے آتے ہیں انہیں حروف تفسیر کہا جاتاہے۔ انکے ماقبل کو مُفَسَّر اورمابعد کو مفسِّر کہتے ہیں ۔یہ دو حرف ہیں ۔
۱۔ أَیْ ۲۔أَنْ
۱۔أَیْ:
یہ مفرداور جملہ دونوں کی تفسیر بیان کرتاہے جبکہ أَنْ صرف جملہ کی (مفرد کی مثال)۔ جیسے رَأَیْتُ لَیْثًا أَیْ أَسَدًا (میں نے لیث یعنی شیر کو دیکھا)اور ( جملہ کی مثال ) اِنْقَطَعَ رِزْقُہ، أَیْ مَاتَ (اسکا رزق منقطع ہوگیایعنی وہ مر گیا)۔
۲۔اَنْ:
جیسے (وَنَادَیْنٰہ أَنْ یَّا اِبْرَاھِیْمُ ) ترجمہ کنز الایمان:”ہم نے اسے نداء دی کہ
اے ابراہیم”۔
*۔۔۔۔۔۔۶۔حروف تحضیض :
حروف تحضیض سے مراد وہ حروف ہیں جنکے ذریعے کسی کام پر ابھاراجائے اوروہ چارہیں۔ ۱۔ ھَلاَّ : جیسے ھَلاَّ ضَرَبْتَ زَیْدًا (تونے زید کو کیوں نہیں مارا؟) ۔
۲۔ أَلاَ: أَلاَ تَحْفَظُوْنَ دُرُوْسَکُمْ (تم اپنا سبق یاد کیوں نہیں کرتے؟)۔
۳۔ لَوْلاَ: لَوْلاَ تَتْلُوْالْقُرْآنَ (تو قرآن کی تلاوت کیوں نہیں کرتا؟) ۔
۴۔ لَوْمَا: لَوْمَا تُصَلِّیَ الصَّلٰوۃَ (تونماز کیوں نہیں پڑھتا؟) ۔
ز۔۔۔۔۔۔۷۔حروف مصدریہ:
وہ حروف جو جملہ کو مصدر کے معنی میں کردیں ان حروف کو حروف مصدریہ کہتے ہیں۔
۱۔ مَا ۲۔ اَن ۳۔ اَنَّ
مَا، اَ نْ:
مااورا َن دونوں جملہ فعلیہ پر داخل ہوتے ہیں ۔جیسے ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ (زمین ان پر تنگ ہوگئی کشادہ ہونے کے باوجود) اس مثال میں رَحُبَتْ بِرُحْبِھَامصدر کے معنی میں ہے۔ اور یَفْرَحُکَ أَنْ تَفُوْزَ( تیرا کامیاب ہونا تجھے خوش کرتاہے) اس مثال میں اَنْ تَفُوْزَ ، فَوْزُکَ کے معنی میں ہے۔
اَنَّ:
عَلِمْتُ أَنَّکَ قَائِمٌ (میں نے تیرے کھڑے ہونے کو جانا) اس مثال میںأَنَّکَ قَائِمٌ ، قِیَامُکَ کے معنی میں ہے۔
ز۔۔۔۔۔۔۸۔حرف رَدع:
یہ وہ حرف ہے جو ڈانٹنے اورجھڑکنے اورمتکلم کو اس کے عمل سے روکنے کے لئے آتاہے یہ صرف ایک حرف ہے۔
کَلاَّ:۔ کبھی حَقًّاکے معنی میں استعمال ہوتاہے۔ اورجملہ کی تحقیق کیلئے آتاہے۔ جیسے (کَلاَّ اِنَّ الاِنْسَانَ لَیَطْغٰی ) ترجمہ کنزالا یمان:”ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے”۔ کبھی یہ ما قبل کی تردید کے لیئے آتا ہے بشرطیکہ اس پر وقف کیا جائے ۔ جیسے کوئی کہے فُلاَنٌ یَبْغَضُکَ (فلاں شخص تجھ سے بغض ر کھتا ہے) تو اس کے جواب میں کہا جائے: کَلاَّ یعنی ہر گز نہیں۔
*۔۔۔۔۔۔۹۔ حرف توقع :
وہ حرف جو ما ضی پر داخل ہو کر اس کو حال کے قریب کر دے ۔یہ صرف قَدْ ہے ۔ اس میں تحقیق کے معنی بھی پائے جاتے ہیں اور اگر یہ مضارع پر داخل ہو تو اکثر تقلیل کا معنی دیتا ہے ۔ قَدْ رَکِبَ (وہ ابھی ابھی سوار ہواہے )، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (تحقیق مؤمنین فلاح پا گئے) اِنَّ الْکَذُوْبَ قَدْ یَصْدُقُ (جھوٹا کبھی کبھی سچ بولتا ہے )۔
*۔۔۔۔۔۔۱۰۔حروف جواب:
وہ جو ما قبل کلام کے اثبات کے لیے آتے ہیں وہ چھ ہیں ۔
۱۔نَعَمْ ۔۲۔بلٰی۔۳۔أِیْ۔۴۔جَیْرِ۔۵۔أَجَلْ۔۶۔ اِنَّ
۱۔نعم:
یہ کلام سابق کو تسلیم کرنے کا فائدہ دیتا ہے جیسے کوئی کہے أَ جَاءَ زَیْدٌ ؟(کیا زید آگیا) تو جواب میں کہا جائے نَعَمْ (ہاں)۔
۲۔بلٰی:
اگر نفی کے جواب میں آئے تو اثبات کا فائدہ دیتا ہے جیسے أَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟( کیا میں تمہارا رب نہیں ) ؟ ۔تو اس کے جواب میں کہا بَلٰی (کیوں نہیں)۔
۳۔اِیْ:
یہ قسم کے لیے آتاہے جیسے قُلْ اِیْ وَرَبِّیْ اِنَّہ، لَحَقٌّ ۔ (آپ فرما دیجئے کہ میرے رب کی قسم بے شک وہ ضرور حق ہے )۔
۴ جَیْرِ ۔۵ اَجَلْ ۔۶ اِنَّ:
یہ تینوں خبر دینے والے کی تصدیق کے لیے آتے ہیں خواہ وہ خبر مثبت ہو یا منفی ،
جیسے اگر کوئی کہے أَ جَاءَ کَ زَیْدٌ ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے جَیْرِ،أَجَلْ، اِنَّ تو اسکا مطلب ہوگا جی ہاں آپ نے ٹھیک کہا ۔منفی خبر کے جواب میں جیسے أَلَمْ یَأْ تِکَ زَیْدٌ؟ کے جواب میں جَیْرِ، أَجَلْ ،اِنَّ کہا جائے ۔یہ تینوں بہت قلیل الاستعمال ہیں۔
ز۔۔۔۔۔۔۱۱۔حروف تنبیہ:
یہ تین ہیں جیسے:
۱۔أَلاَ : (أَلاَاِنَّ أَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ) ترجمہ
کنزالایمان: ”سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ”۔ ۲ ۔أَمَا: أَمَا لاَ تَفْعَلْ (خبردار تو یہ نہ کر) ۔
۳۔ھَا : ھَا زَیْدٌ قَائِمٌ (خبر دار زید کھڑا ہے) ۔
*۔۔۔۔۔۔۱۲۔حروف زیادت:
یہ ایسے حروف ہیں جوفعل واسم دونوں کے شروع میں آتے ہیں اور ان کے کوئی معنی نہیں ہوتے ،ان سے مقصود کلام کی زینت ہوتی ہے ۔یہ آٹھ ہیں ۔
۱۔اِنْ ۔ ۲۔أَنْ۔ ۳۔مَا۔ ۴۔لاَ۔ ۵۔مِنْ ۔ ۶۔کَافْ۔ ۷۔بَا ۔ ۸۔لاَمْ
جیسے( ۱)۔۔۔۔۔۔ مَا اِنْ زَیْدٌ قَائِمٌ (زیدنہیں کھڑا )۔ (۲)۔۔۔۔۔۔فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِیْرُ (جب خوش خبری دینے والاآیا)۔ (جب خوش خبری دینے والاآیا)۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ اِذَا مَاصُمْتَ صُمْتُ (جب تو روزہ رکھے گامیں بھی روزہ رکھوں گا )۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ مَا ھَرَبَ زَیْدٌ وَلاَ عَمْرٌو (نہ زید بھاگا اور نہ ہی عمرو ) ۔
(۵)۔۔۔۔۔۔ مِنْ (۶)کَافْ (۷)بَا (۸)لاَمْ۔ ان چاروں کا ذکر حروف جر کی بحث میں گزر چکا ہے ۔ نیز یہ حروفِ عاملہ میں بھی ہیں۔
ز۔۔۔۔۔۔۱۳۔ الف لام :
اس کی مکمل تفصیل الف لام کے سبق میں دیکھیں۔