اسلام
۔۔۔۔۔ مفعول مطلق کا بیان۔۔۔۔۔
مفعول مطلق کی تعریف:
وہ مصدر منصوب جو ماقبل فعل کا ہم معنی ہو۔جیسے: ضَرَبْتُ ضَرْباً، قَعَدْتُ جُلُوْساً۔ مفعول مطلق کی اقسام
اس کی تین اقسام ہیں : ۱۔تاکیدی ۲۔ نوعی ۳۔ عددی.
۱۔مفعول مطلق تاکیدی کی تعریف:
وہ مفعول مطلق جو ماقبل فعل کی تاکیدکے لیے لایاجائے۔ جیسے: (وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ) ( اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو)
۲۔مفعول مطلق نوعی کی تعریف:
وہ مفعول مطلق جوماقبل فعل کی حالت ونوعیت بیان کرنے کے لیے لایاجائے۔ جیسے: جَلَسْتُ جِلْسَۃَ الْقَارِيْ (میں قاری کے بیٹھنے کی طرح بیٹھا)ثلاثی مجرد سے یہ عموماًفِعْلَۃٌ کے وزن پر آتاہے۔
۳۔مفعول مطلق عددی کی تعریف:
وہ مفعول مطلق جو ماقبل فعل کی تعداد بیان کرنے کے لیے لایاجائے۔ جیسے:أَکَلْتُ أَکْلَۃً (میں نے ایک مرتبہ کھایا)
تنبیہ:
اگر مفعول مطلق فعل کے معنی میں کوئی زیادتی نہ کرے بلکہ وہی مصدر ہو جس پر فعل دلالت کررہا ہے تووہ تاکید کے لیے ہوگا ۔جیسے:ضَرَبْتُ ضَرْباً۔
اگرمفعول مطلق مضاف ہویااس کی صفت ذکر کی گئی ہوتووہ نوعیت کے لیے ہوگا۔ جیسے: ضَرَبْتُ ضَرْبَ الْقَارِيْ یا ضَرَبْتُ ضَرْباً شَدِیْداً۔
اور اگرفَعْلَۃٌ کے وزن پر ہویا اس کا تثنیہ ہو یا اسم ِعدد مضاف بمصدر ہو تو وہ عدد کے لیے ہوگا۔جیسے: ضَرَبْتُ ضَرْبَۃ ً یا ضَرَبْتُ ضَرْبَتَیْنِ یا ضَرَبْتُ ثَلاَثَ ضَرْبَاتٍ۔
مفعول مطلق کے فعل عامل کا حذف:
مفعول مطلق کے فعل عامل کوکبھی جوازاً اورکبھی وجوباً حذف کردیاجاتاہے۔
جوازا حذف کی صورت:
جب فعل محذوف پر کوئی قرینہ موجودہوتواسے حذف کرناجائز ہے۔ جیسے کسی آنے والے سے خَیْرَ مَقْدَمٍ کہاجائے تو اس سے پہلے قَدِمْتَ فعل محذوف ہوگا، اصل عبارت یوں ہوگی: قَدِمْتَ قُدُوْماً خَیْرَ مَقْدَمٍ۔ وجوبا حذف کی صورت:
خیال رہے کہ مفعول مطلق کے فعل عامل کا وجوبا ً حذف دو طرح ہے:
(۱) ۔۔۔۔۔۔سماعاً (۲)۔۔۔۔۔۔ قیاساً.
سماعاً وجوب حذف کا مفہوم:
جس مفعول مطلق کے فعل عامل کو ذکرکرنااہل عرب سے اصلاً مسموع نہ ہو وہاں اس کا حذف کرنا سماعا ًواجب ہوتاہے ۔یہ چندالفاظ میں ہوتاہے جو درج ذیل ہیں : (۱)۔۔۔۔۔۔سَقْیاً یعنی سَقَاکَ اللہُ سَقْیاً (اللہ تعالی تجھے سیراب کرے)۔ (۲)۔۔۔۔۔۔رَعْیاً یعنی رَعَاکَ اللہُ رَعْیاً (اللہ تعالی تیری رعایت فرمائے) ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔خَیْبَۃً یعنی خَابَ الرَجُلُ خَیْبَۃً (مرد نا امید ہوگیا) ۔ (۴)۔۔۔۔۔۔جَدْعاً یعنی جُدِعَ جَدْعاً (اس کے ناک کان کاٹ دیے گئے)۔
(۵)۔۔۔۔۔۔حَمْداً یعنی حَمِدْتُ اللہَ حَمْداً (میں نے اللہ تعالی کی حمد کی )۔
(۶)۔۔۔۔۔۔شُکْراً یعنی شَکَرْتُ شُکْراً (میں نے تیرا شکریہ ادا کیا)۔ (۷)۔۔۔۔۔۔عَجَباً یعنی عَجِبْتُ عَجَباً (میں نے تعجب کیا)۔
قیاسا وجوبِ حذف کا مفہوم:
اگر فعل محذوف پر قرینہ اور قائم مقام دونوں پائے جائیں تو وہاں پرمفعول مطلق کے فعل عامل کا حذف کرنا قیاساً واجب ہوتاہے۔اس کے بھی چند مخصوص مواقع ہیں۔جن میں سے بعض یہ ہیں :
(۱)۔۔۔۔۔۔جب مفعول مطلق مکرر واقع ہو۔جیسے: زَیْدٌ سَیْراً سَیْراً یعنی یَسِیْرُ سَیْراً (زید چلنے والاہے)
(۲)۔۔۔۔۔۔جب مفعول مطلق بصیغہ تثنیہ واقع ہو۔جیسے :لَبَّیْکَ یعنی أُلِبُّ لَکَ إِلْبَابَیْنِ (میں تیری خدمت کے لیے ہر وقت حاضر ہوں)
تنبیہ:
ان کامفصل بیان بڑی کتب میں ملاحظہ فرمائیں۔
فائدہ:
درج ذیل الفاظ عموماً افعال محذوفہ کے لیے مفعول مطلق واقع ہوتے ہیں :
۱۔ سُبْحَانَ اللہِ یعنی : سَبَّحْتُ سُبْحَانَ اللہِ (میں نے اللہ عزوجل کی پاکی بیان کی)۔
۲۔مَعَاذَ اللہِ۔ یعنی : عُذْتُ مَعَاذَ اللہِ (میں اللہ عزوجل کی پناہ میں آیا)۔
۳۔ أَیْضاً یعنی اٰضَ أَیْضاً (وہ لوٹا بھی)۔
۴۔أَلْبَتَّۃَ یعنی بَتَّ أَلْبَتَّۃَ (اس نے پختہ کیا)۔
۵۔ مَثَلاً یعنی مَثَلْتُ مَثَلاً (میں نے مثال بیان کی )۔
۶۔ یَقِیْناً یعنی تَیَقَّنْتُ یَقِیْناً (میں نے یقین کیا) ۔
تنبیہ:
کبھی مفعول مطلق محذوف ہوتاہے، اوراس کی صفت وغیرہ اس کے نائب کے طور پر ذکر کی جاتی ہے ۔ جیسے: (أُذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا) یعنی ذِکْرًا کَثِیْرًا، جَرَی التِّلْمِیْذُ سَرِیْعًا یعنی جَرْیًا سَرِیْعًا (شاگرد نے تیز دوڑ لگائی)