تدوینِ فقہ
اب غور کیجئے کہ فقہ کیسی چیز ہے کہ امام صاحب کا وہ تبحر علمی اور اُس پر وہ خداداد طبیعت اور حافظہ ، فہم و فراست جس پر اکابر محدثین رشک کرتے تھے ۔ باوجود اس کے دس برس تک ایک محقق شفیق استاذ سے سیکھتے رہے ، مگر ہنوز ایک ثلث کی کسر باقی رہ گئی پھر استاد کے انتقال تک انہی کی خدمت میں رہے اور اُن کے انتقال کے بعد جب مسلمانوں کو ضرورت ہوئی تو جب بھی فتویٰ دینے پر جرأت نہیں کی ۔
چنانچہ امام موفقؒ نے لکھا ہے کہ جب حمادؒ کا انتقال ہوا اور اُن کے اصحاب نے امام صاحب کو اُن کی جانشینی پر مجبور کیا تو امام صاحب نے قبول نہ کیا ،
آخر اس بات پر فیصلہ ہوا کہ اُن میں سے دس صاحب ایک سال تک امام صاحب کے ساتھ رہ کر ہر مسئلہ کے فتویٰ میں تائید دیاکریں ،چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اس کے بعد تدوین فقہ کی بنیاد ڈالی اور ایک مجلس ایسی قائم کی جس کے اراکین اہل حدیث تھے ۔
تدوینِ فقہ
رد المحتار میں لکھا ہے کہ تدوین فقہ کے وقت امام صاحب کے یہاں ایک ہزار علماء کا مجمع تھا ، جن میں چالیس علماء اس پایہ کے تھے کہ درجۂ اجتہاد کو پہنچ گئے تھے ، اُن سے آپ نے فرمایا
دیکھو ! فقہ کو میں نے لگام تو لگا دی ہے اور تمہارے لئے زین بھی کس دی ہے
اب تم میری مدد کرو. پھر جب کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو اُن سے مشورت کرتے اور جو کچھ اخبار و آثار ان کو یاد ہوتے سنتے اور جو خود کو یاد ہوتے بیان کرتے
پھر بعضے مسائل میں ایک ایک مہینے تک مناظرہ ہوتا ، جب بالاتفاق وہ مسئلہ طے ہوجاتا تو ابو یوسف ؒ سے اُس کے لکھنے کو فرما دیتے اس طرح اصول مدوّن ہوئے ۔ انتہی ۔
اب غور کیجئے کہ جو مسئلہ اتنی تحقیقات سے اور صدہا محدثین کے اتفاق سے طے ہوتا تھا تو
کیا ممکن ہے کہ مخالف قرآن و حدیث ہوتا ہوگا ؟