اسلام

جامعہ نظامیہ کے عصر حاضرکے علماء ومفکرین

جامعہ نظامیہ کے
عصر حاضرکے علماء ومفکرین

از :  شاہ محمد فصیح الدین نظامی ، مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد ،دکن

مولانا مفتی خلیل احمد صاحب
جامعہ نظامیہ نے 136سالہ عرصہ میں جو علماء دین تیار کئے ہیں ان میں ایک قابل احترام نام مولانا مفتی خلیل احمد صاحب کا ہے جنہوں نے خداداد علم وفہم اور ملت اسلامیہ کی بے لوث ومخلصانہ خدمات کے ذریعہ لوگوں کے قلوب میں جگہ بنائی ہے۔ 1969ء میں جامعہ نظامیہ کی اعلی سند مولوی کامل فقہ اور عثمانیہ یونیورسٹی سے پوسٹ گرائجویشن میں (ایم او ایل) کی ڈگری حاصل کی۔ 1970ء سے جامعہ نظامیہ میں تدریسی خدمات کا آغاز کیا 1980ء میں نائب مفتی اور 1986ء میں شیخ الفقہ و مفتی کے عہدہ پر فائز ہوئے۔1992ء میں شیخ الجامعہ کے علاوہ معتمد جامعہ کی اضافی خدمات بھی بحسن و خوبی انجام دیں۔ مجلس علماء دکن، رویت ہلال کمیٹی، دارالقضاء کے علاوہ ہندوستان کے باوقار ملی ادارہ مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن ہیں۔ 1417ھ میں سعودی عرب کے جلیل القدر عالم فضیلۃ الشیخ علامہ حبیب علوی المالکیؒ نے آپ کو سند حدیث عطا کی۔ جرمنی، عراق، سعودی عرب کے علمی سفر کئے۔ آپ کے سینکڑوں شاگرد ہیں، راقم کو آپ کے زیر نگرانی دارالافتاء میں کام انجام دینے اور آپ کے علمی فقہی مقالات کو جمع و  شائع کرنے کی سعادت حاصل ہے۔
مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب
1939)ء پ(جامعہ نظامیہ کے جلیل القدر علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ نے جامعہ نظامیہ سے اعلی سند مولوی کامل فقہ حاصل کی۔ افتاء میں ید طولی حاصل ہے آپ نے دائرۃ المعارف العثمانیہ میں چیف ایڈیٹرکی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انتہائی کمیاب قدیم کلاسیکی مخطوطات کی جن کا تعلق آٹھویں صدی عیسوی اور اس سے قبل ہے از سر نو ادارت کی جن کی اشاعت دائرۃ المعارف نے عمل میں لائی۔ آپ کا شمار ملک کے ان معدود ے چند افراد میں ہوتا ہے جو عربی زبان کے قدیم مخطوطات کی تصحیح کی خدمت انجام دیتے ہیں ۔ اس وقت جامعہ نظامیہ میں صدر مفتی و صدر نشین مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآبادکے عہدہ پر فائز ہیں،علم و ادب میں آپ کی طویل خدمات پر صدر جمہوریہ ہند ایوارڈ دیا گیا۔
مولانا پروفیسر محمد سلطان محی الدین 
1938)ء پ (جامعہ نظامیہ سے اعلی اسنادات فاضل وکامل اور1970ء عثمانیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور یہیں پر شعبہ عربی میں 22سال بے مثال خدمات انجام دیں کئی طلباء نے آپ کے زیر نگرانی ایم فل و پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ مجلس اشاعۃ العلوم کی نئی صورت گری کی، جامعہ نظامیہ میں بحیثیت معتمد یادگار خدمات کے نقوش ثبت کئے۔ 125سالہ جشن تاسیس کے ناظم (ڈائرکٹر) رہے عربی و اردو کے صاحب طرز ادیب ہیں آپ کے فاضلانہ مضامین ملک کے موقر جرائد میں شائع ہوتے ہیں۔ زبان و ادب کی طویل خدمات پر آپ کو صدر جمہوریہ ہند ایوارڈ دیا گیا بیرونی ممالک کے سفر کئے اور کئی یونیورسٹیوں میں توسیعی لکچرس کے ذریعہ زبان ومذہب کی خدمت کی، علمی خدمات کا تسلسل جاری ہے ۔آپ کا تحقیقی مقالہ علماء العربیہ و مساھماتھم فی لادب العربی فی العہد الاصفجاہی (مملکۃ النظام حیدرآباد الھند من سنۃ ۱۲۶۴ الی ۱۳۶۴ھ من سنۃ ۱۸۴۸ھ الی ۱۹۴۸م) مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس کے علاوہ المقالات العربیہ بھی زیور طباعت سے آراستہ ہوئے ہیں۔ آپ کے اردو مقالات زیر طبع ہیں۔ 
مولانا سید جعفر محی الدین قادری صاحب 
حیدرآباد کے سادات خانوادہ کے چشم وچراغ ہیں بین الاقوامی سطح پر جامعہ کی علمی و تحقیقی سرگرمیوں کے نمائندہ ہیں۔ مادر علمی کے فیضان نے آپ کو خطابت، رشد و ہدایت، وعظ ونصیحت میں یکتائے روزگار بنادیا۔ سر زمین امریکہ پر دینی دعوت اہل سنت کو منفرد انداز میں فروغ دینے کا اعزاز حاصل ہے۔ 125سالہ جشن تاسیس کے علاوہ کئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور علمی تحقیقاتی سمینارس میں آپ شریک رہے۔ وجیہہ وشکیل رعب دار شخصیت کے مالک اور احسن تقویم کی تصویر ہیں۔ قدیم وجدید عصری مسائل پر گہری نگاہ کے حامل ہیں۔ مادر علمی کے علاوہ عالم اسلام کی قدیم اسلامی یونیورسٹی جامع ازہر(مصر) سے بھی اکتساب علم وفن کیا اور عربی زبان و ادب میں دسترس حاصل کی۔ السیرہ سوسائٹی (شگاگو) کے بانی وصدرہیں، دینی خدمات کا تسلسل جاری ہے۔
مولانا سید خورشید علی مظہری صاحب 
1350)ھ،پ(علمی و تحقیقی فکر و نظر کے مالک خوش طبع ، ذہن رسا، مستقل مزاج، نفاست پسندو اخلاقی پہلوؤں کا پیکر، جامعہ نظامیہ کے قابل فخر صاحب تصنیف و تحقیق علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ مادر علمی سے مولوی کامل التفسیر، عثمانیہ یونیوسٹی سے ایم او ایل اور علی گڈھ سے ادیب کامل کے اسنادات حاصل کئے۔ بین الاقوامی ادارہ تحقیق دائرۃ المعارف میں ایڈیٹر اور شہرہ آفاق سالار جنگ میوزیم حیدرآباد میںبحیثیت ریسرچ آفیسر برسوں خدمات انجام دیں۔ اکابر علماء و صوفیاء ہند سے تلمذ وفیض حاصل کیا۔ درس وتدریس و تفہیم ترجمہ و مخطوطہ شناسی کے ماہرہیں، تحقیقات، تصنیفات وتالیفات میں کنز العمال جلد ۲۲۔۲۳   الدرر الکامنۃ، الحاوی الکبیر، ذیل تاریخ بغداد،   شرعۃ الاسلام الی دار السلام، اعجاز خسروی لیلاوتی، مرقات المنطق، منیۃ اللبیب فی خصائص الحبیب، واردات(اشعار اردو، عربی) شامل ہیں، علمی تحقیقی ادارہ مظہر العلوم برائے آداب عالیہ (عربی، فارسی، اردو) کے ذریعہ علمی خدمات کاسلسلۃ الذہب جاری ہے۔
مولانا مفتی ابراہیم الھاشمی خلیل صاحب 
سر زمین دکن کے علمی و مذہبی خانوادہ سے آپ کا تعلق ہے، اپنے وقت کے عالم بے بدل، فقیہ و مفتی حضرت علامہ مفتی مخدوم بیگ الھاشمی رحمۃ اللہ علیہ کے خلف دوم ہیں۔ شفقت مخدومی اور صحبت افغانی (علامہ ابو الوفاء الافغانی رحمہ اللہ) نے فتوی اور تقوی، علم و حلم، ذکر وفکر، حسن ذوق وارفتگی شوق، طاقت ایمانی وطلاقت لسانی کا پیکر بنادیا۔ مادر علمی کی التفات اور اساتذہ کرام کی توجہات نے ایک طرف رعب ایمانی بخشا تو دوسری طرف وصف درویشی اور انکی خاص عنایات نے تفسیر حدیث ، فقہ، میں نکتہ رسی سے مالا مال کیا۔ مسندِ درس وتدریس سے سینکڑوں تلامذہ کو نور علم تقسیم کیا۔ شیخ التفسیر ومفتی کے عہدہ جلیلہ پر بھی فائز رہے۔ شیخ الفقہ کی حیثیت سے خدمات جاری ہیں کئی طلباء کو آپ کے زیر نگرانی (پی ایچ ڈی) کرنے کااعزاز حاصل ہے۔
مولانا پرفیسر سید عطاء اللہ حسینی صاحب
آپ اسم بامسمّی ہیں تفسیر، حدیث ، فقہ، تاریخ تصوف فلسفہ وحکمت، درس وتدریس، تصنیف و تالیف، تحقیق وتدوین، شعر و ادب، خطابت وقیادت ہر میدان میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر بکھیرے ہیں۔ جامعہ نظامیہ سے فضیلت ، کلکتہ سے ایچ ایم بی، کراچی یونیورسٹی سے (ایم اے) کی سند حاصل کی۔ تحقیقی مواد سے بھر پور آپ کی تصنیفات: اسلامی نظام، اسلام کی بنیادی تعلیمات، نور الحقیقت، فتوح الغیب کی تلخیص، فتاوی علامہ رکن الدین ،موج خیالؔ (مجموعہ کلام) ’’صحن وحدت ‘‘کی ترتیب نے علمی وادبی حلقوں میں ایک ممتاز مقام کا ملک بنادیا۔ باوقار اکیڈیمک ایوارڈ بھی حاصل کیا 125سالہ جشن تاسیس جامعہ نظامیہ کے مہمان خصوصی ، مقالہ کی پیشکشی کا اعزاز حاصل ہے۔
مولانا قاری محمد عبداللہ قریشی ازہری صاحب
(پ 1935ء) حافظ قرآن قاری فرقان عظیم خطیب، بے مثال ادیب، 1977ء سے جامعہ نظامیہ میں تدریسی خدمات کی ابتداء ، عربی ادب کی قدیم و جدید تاریخ میں ید طولیٰ حاصل ہے۔1965ء میں حکومت آندھرا پردیش نے آپ کو اپنے اخراجات پر عالم اسلام کی ایک ہزار سالہ قدیم دانش گاہ جامع ازہر روانہ کیا، ہندوستان میں دعوت اسلامی ، کے موضوع پر ایک جامع ومعلوماتی تحقیقی مقالہ تحریر فرمایا۔ اسلوب تحریر آپ کے خطاب کی طرح دلنشین اور پر اثر ہوتا ہے۔ 1982ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری لی۔ لطیفیہ عربک کالج (ملحقہ عثمانیہ یونیوسٹی) 1983ء میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے آپ کی مسحور کن آواز میں قراء ت و ترجمہ نشر کیاجاتا رہا۔ برصغیر کے ممتاز قراء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ 1982ء میں بین الاقوامی مقابلہ قرات مکہ مکرمہ میں بحیثیت جج شرکت کی۔ اس وقت نائب شیخ الجامعہ کے عہدہ پر فائز اور دکن کی تاریخی مکہ مسجد کے خطیب ہیں ۔
مولانا ڈاکٹر محمد عبد المجید نظامی صاحب
(1950ء پ)علامہ قاضی بدیع الدینؒ کو اورنگ زیب عالمگیر نے سر زمین بیڑمہاراشٹرا میں عہدہ قضاء پر فائز کیا تھا مولانا کا تعلق انہیں کے علمی خانوادہ سے ہے ۔ جامعہ نظامیہ سے فقہ اسلامی میں تخصص کی اعلی سند اور عثمانیہ یونیورسٹی سے M.A, M.phil, Ph.D.کی ڈگری حاصل کی ۔ عصر حاضر کے عربی زبان وادب کے ادیبوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ، مادر علمی کے فیض کا مظہر آپ کی علمی وتحقیقی خدمات کے علمی حلقے معترف ہیں 10-سال جامعہ نظامیہ میں اور 10سال نوریہ عربی کالج میں تدریس اور سعودی عرب میں 6سا ل بحیثیت عربی /انگریزی مترجم خدمات انجام دیں ۔ ایک بہترین خطیب، معلم ، مصنف ، ہیں ۔ مسائل حج پر ایک مدلل اور مستند کتاب ’’مھمات حج وزیارت‘‘ تصنیف فرمائی ہے اور ’’المھمات الاسلامیہ‘‘کا اردو ترجمہ فرمایا ۔آپ دو اہم اور کلیدی عہدوں شعبہ عربی عثمانیہ یونیور سٹی کے صدر اور عالمی ادارہ تحقیق دائرۃالمعارف کے ڈائرکٹر رہے۔ اس وقت بحیثیت پروفیسر خدمات جاری ہیں۔ 
مولانا عبداللہ بن احمد قرموشی صاحب 
جامعہ نظامیہ کے قابل اور نامور فرزندوں میں شمار کئے جاتے ہیں ، مولوی کامل ادب عربی اور جامعہ عثمانیہ سے ایم اوایل امتیازسے کامیاب کیا۔ آپ وزارت خارجی امور حکومت ہند کے مسلمہ عربی مترجم ہیں ۔ جامعہ الہیات نوریہ اور اس کے تحت اداروں کے قیام واستحکام میں آپ نے کلید ی رول اداکیا ۔ 1968سے1999ء تک جامعہ الہیات نوریہ کے پرنسپل رہے مختلف تعلیمی وٹکنیکل اداروں کے چیرمین ہیں۔ 1971ء سے عثمانیہ یونیورسٹی کے عربی پوسٹ گرایجویٹ کورسس کے اگزامنر اور 88۔1984ء کے دوران عثمانیہ یونیورسٹی کے چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز عربک (اورینٹل) رہے۔ القرموشی ایجوکیشنل سوسائٹی کے بانی و ناظم ہیں آپ کو علاقہ بارکس کا سر سید کہا جاتا ہے۔
مولانا مفتی سید صادق محی الدین صاحب
(1948ء پ ) حافظ، قاری، عالم، فاضل، مفتی اور بہترین محقق ہونے کے ساتھ اردو زبان و ادب کا پاکیزہ ذوق رکھتے ہیں، 1970ء میں کامل الفقہ کی سند اور عصری علوم کی دانشگاہ عثمانیہ یونیوسٹی سے (M.O.L)کی ڈگری 1975ء میں حاصل کی۔ 1971ء سے مادر علمی جامعہ نظامیہ اور 1976سے لطیفیہ عربک کالج ملحقہ عثمانیہ یونیوسٹی میں بحیثیت لکچرار خدمات جاری ہیں۔ 1998ء سے باوقار تحقیقی ادارہ مرکز البحوث الاسلامیۃ(Islamic Research Centre) جامعہ نظامیہ کے نائب ناظم ہیں تقریبا پچیس سال سے رشد وہدایت و دینی دعوت کا فریضہ انجام دیرہے ہیں۔ بلند پایہ مضامین اور حمدیہ، نعتیہ و منقبتی کلام ملک کے مختلف روزناموں اور مجلات میں شائع ہوتا ہے فہیمؔ تخلص فرماتے ہیں۔ حج و زیارت کے موضوع پر منفرد کتاب ’’انوار حج و زیارت‘‘ کو ریاستی حج کمیٹی نے بہت ہی اہتمام سے ہزاروں کی تعداد میں شائع کیا۔ آپ کا ’’مجموعہ کلام‘‘ زیر طبع ہے۔ بحیثیت نائب مفتی خدمات جاری ہیں۔
مولانا ڈاکٹرمحمد سیف اللہ صاحب
مولانا ڈاکٹرمحمد سیف اللہ ولدجناب محمد افسر اللہ صاحب کی پیدائش 25-12-1961ء حیدرآباد میں ہوئی۔ 1971ء جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا۔ اساتذہ کرام میں مولانا محمد عبدالحمید صاحب ؒشیخ الجامعہ ، مولانا محمد منیر الدین صاحب ؒشیخ الحدیث، مولانا محمد سعید صاحبؒ شیخ الفقہ، مولانا سید طاہر رضوی صاحب ؒشیخ التفسیر، مولانا محمد ولی اللہ صاحبؒ شیخ المعقولات، مولانا محمد عثمان صاحب ؒشیخ التفسیر، مولانا ابراہیم خلیل شیخ الفقہ، مولانا مفتی خلیل احمد صاحب شیخ الجامعہ، مولانا محمد خواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث، مولانا حافظ محمد عبداللہ قریشی نائب شیخ الجامعہ شامل ہیں۔ جامعہ نظامیہ سے کامل الحدیث کی اعلیٰ سند حاصل کی۔دکتوراہ کی ڈگری جامعہ عثمانیہ  سے1996ء میں حاصل کی۔ علمی مذاکرات میں مقالات پیش کئے۔حج و زیارت  کا شرف 1992ء میں حاصل کیا۔ اس وقت بحیثیت اعزازی شیخ الادب جامعہ نظامیہ آپ کی تدریسی خدمات جاری ہیں۔ نوریہ عربی کالج میں بھی بحیثیت لکچرار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 
مولانا ڈاکٹر سید جہانگیرصاحب 
(1959ء پ ) جامعہ نظامیہ سے مولوی فاضل اور کامل کی سند اور عثمانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ عربی کے ادیب و شاعر، مدیر الحراء ،کئی قومی وبین الاقوامی سمینارس میں شرکت اور مقالات پیش کرنے کا اعزاز، 2000ء میں شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی، پی ایچ ڈی اسکالرس کے لئے آپ کو گائیڈ منتخب کیا گیا۔ انوار العربیہ التطبیقیۃ  ، الخواطر کے علاوہ دیگر کتب کے مصنف، عالمِ عرب کے قائدین عمائدین کے مترجم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ہمہ لسانی تربیتی ادارہ سیفل میں صدر مرکز ادبیات عربی کے عہدہ پر فائز، اور تعلیمی وتنظیمی تحریکات کے روح رواں ہیں۔
مولانا ڈاکٹر سید بدیع الدین صابری صاحب
( 1963ء پ ) شمع شبستان شریعت مقبول بارگاہ نبوت رودِ رشد وہدایت جامعہ نظامیہ کے عصر حاضر کے نوجوان علماء و محققین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ 13سال کی عمر میں حفظ قرآن کی سعادت اور 1988ء میں مادر علمی سے کامل الحدیث کی سند، عثمانیہ یونیورسٹی سے M.A(L)(1987)، M.Phil(1990) اور P.H.Dکی ڈگری حاصل کی۔ اچھے مضمون نگار اور شعر وادب کے پاکیزہ ذوق کے حامل ہیں۔ عربی اردو میں آپ نے کئی معلوماتی و تحقیقی مقالات تحریر کئے۔ قومی سطح کی کانفرنسوں و سمینارز میں شرکت کے ذریعے مادر علمی کی نمائندگی کا اعزازحاصل ہے۔ عربی کی تدریس و تفہیم پر منفرد کتاب ’’التصریف الواضح ‘‘(دوحصے) آپ نے تصنیف کی ۔ بر صغیر کی نامور دانش گاہ عثمانیہ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ عربی کے عہدہ پر فائز ہیں۔
٭٭٭
مطلع ہے مرا مطلعِ انوار دیکھئے
از : مولانا عبد الخالق حیرتؔ نظامی
مطلع ہے مرا مطلعِ انوار دیکھئے
سطحِ دکن پہ علم کا مینار دیکھئے
کس نے جلائے علمِ نبوت کے یہ چراغ
روشن ہیں آج تک درو دیوار دیکھئے
ہر ایک کیلئے ہے درِ میکدہ کھلا
کتنے ہی اہل دل ہوئے سر شار دیکھئے
علم وعمل یقین سب محفوظ ہوگئے
دیوار دیکھئے، پسِ دیوار دیکھئے
سرمایہء اخلاص وتوکل کی ہے اساس
ایوانِ فضیلت ہے گہر بار دیکھئے
دنیا بھی ہاتھ سے نہ گئی دین بھی ملا
دیوانے بن گئے بہت ہوشیار دیکھئے
کس خوبی سے تراشا گیا ایک ایک سنگ
تعمیر کہہ رہی ہے کہ معمار دیکھئے
تعلیم کا حصول عبادت سے کم نہیں
کھنچ کھنچ کے آرہے ہیں طلبگار دیکھئے
حیرتؔ یہ کس کے فیض کا دریا رواں ہے آج
عالم تمام، عالمِ انوارؔ دیکھئے
٭٭٭

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!