اسلام

مُردوں کا سننا اور ہیّت کے معانی اوران کی پہچان

    جب قرآن شریف میں مُردے ، اندھے، بہرے، گو نگے ، قبر والے کے ساتھ نہ لوٹنے ، نہ ہدایت پانے، نہ سنا نے وغیرہ کا ذکر ہوگا تو ان لفظوں سے مراد کافر ہونگے یعنی دل کے مردے ، دل کے اندھے وغیر ہ عام مردے وغیر ہ مراد نہ ہوں گے اور ان کے نہ سنانے سے مراد ان کا ہدایت نہ پانا ہوگا نہ کہ واقع میں نہ سننا ۔ اور ان آیات کامطلب یہ ہوگا کہ آپ ان دل کے مردے ، اندھے ، بہر ے کافروں کو نہیں سنا سکتے جس سے وہ ہدایت پرآجاویں یہ مطلب نہ ہوگا کہ آپ مردو ں کو نہیں سنا سکتے مثال یہ ہے ۔
(1) صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾
یہ کافر بہرے ، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہ لوٹیں گے ۔(پ1،البقرۃ:18)
(2) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ
تم ان مردو ں(کافروں)کو نہیں سنا سکتے اور نہ تم بہروں کو سناسکتے ہو۔(پ20،النمل:80)
(3) وَمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲﴾
جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اورراستے سے بہکا ہوا ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:72)
    یہ آیا ت قرآن شریف میں بہت جگہ آئی ہیں اور ان سب میں مردو ں، اندھوں ،بہروں سے مراد کفار ہی ہیں نہ کہ ظاہری آنکھو ں کے اندھے او ربے جان مردے ۔ ان آیات کی تفسیر ان آیتو ں سے ہو رہی ہے۔
(1) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیۡنَ ﴿۸۰﴾وَمَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمْ ؕ اِنۡ تُسْمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسْلِمُوۡنَ ﴿۸۱﴾
بے شک تم نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو جب پھر یں پیٹھ دے کر اورنہ تم اندھوں کو ہدایت کرنے والے ہو ۔ نہیں سنا سکتے تم مگر ان کو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔(پ20،النمل:80،81)
    اس آیت میں مردے اور اندھے ،بہر ے کا مقابلہ مومن سے کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردو ں سے مراد کا فرہیں۔
(2) وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤْمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمْ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿٪۴۴﴾
اورجو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں ٹینٹ ہیں اوروہ ان پر اندھا پن ہے گویا وہ دور جگہ سے پکارے جارہے ہیں۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:44) 
اس آیت نے بتایا کہ کافر گویا اندھا، بہرا ہے ۔
(3) اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَ اَعْمٰۤی اَبْصَارَہُمْ ﴿۲۳﴾
یہ کفار وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کردی پس انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ۔
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ لعنت سے آدمی اندھا، بہر ا ہوجاتا ہے یعنی دل کا اندھا ،بہرا ۔(پ26،محمد:23)
(4) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵﴾
جورسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان سے پوچھئے کہ کیا ہم نے اللہ کے سوااور معبود بنائے ہیں جن کی پوجا کی جاوے ۔(پ۲۵،الزخرف:۴۵)
    اس آیت نے بتایا کہ اللہ کے پیارے بندے وفات کے بعد سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ اگر گزشتہ وفات یا فتہ پیغمبر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا کلام نہ سنتے یا جواب نہ دیتے تو ان سے پوچھنے کے کیا معنی تھے۔ مردو ں کے سننے کی اور آیات بھی ہیں جو پہلے باب میں دعا کے معنی میں بیان کی جاچکیں۔
    ہماری ان مذکورہ آیتوں نے بتادیا کہ جہاں مردو ں کے سننے سنانے کی نفی کی گئی ہے وہاں مردو ں سے مراد کافر ہیں ۔ ان آیتو ں سے یہ ثابت کرنا کہ مردے سنتے نہیں بالکل جہالت ہے ورنہ التحیات میں حضور کو سلام او رقبر ستان میں مردوں کو سلام نہ کرایا جاتا کیونکہ نہ سننے والے کو سلام کرنا منع ہے ۔ اسی لئے سوتے ہوئے کو سلام نہیں کرسکتے ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!