اسلام
علامہ اخترؔکچھوچھوی بحیثیت شاعر
علامہ اخترؔکچھوچھوی بحیثیت شاعر
مولاناڈاکٹرغلام ربانی فداؔ
مدیرجہان نعت ہیرور
عہد حاضر میں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ تنقید نعتیہ ادب میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔تنقیدات نعت کےلئے کئی رسائل وکتابی سلسلے نمایاں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ان میں نعت رنگ،ماہنامہ نعت، مدحت،اور ہندوستان کا واحدحمدونعت کاادبی رسالہ جہان نعت یہ وہ رسالہ ہیں جونعت کے عمرانیاتی،لسانی پہلوؤں کواجاگرکیا۔
حضورشیخ الاسلام والمسلمین رئیس المفسرین سندالمحققین،سیدالمتکلمین غوثِ زماں علامہ سیدمحمدمدنی میاں اختر ؔ کچھوچھوی کی شخصیت میں بڑی دلکشی، وسعت اور مقناطیسی قوت پائی جاتی ہے۔ آپ مذہبی اور ادبی دونوں دنیا میں عزت و احترام اور اعتبار کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ ختر ؔ کچھوچھوی مذہب اور ادب دونوں کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف کی زرخیز زمین پر اعلیٰ منصب پرفائزہو کردیگرصوفیانِ کرام کی طرح شعری و نثری تخلیقات سے ہمارے ذخیرۂ ادب ومذہب میں اضافہ کر رہے ہیں۔حضرت اخترؔ کچھوچھوی کی شخصیت کے کئے گوشے ہیں ،جیسے مفسرقرآن، محدث، مفتی،سنجیدہ مقرر،کامیاب مدرس،قابل فخرمرید،لائق مرشد،باصلاحیت منتظم، باکمال صوفی ،اور ایک خوبصورت شاعراس کے علاوہ اوربھی جنہیں میری بصارت نہیں دیکھ سکتی اور قوت احساس اتنی پختہ بھی نہیں کہ اسے محسو س کرسکے۔یہ سوتے ہیں جہاں پیاسے لوگ آکرسیراب ہوتے ہیں۔ان تمام لبادوں میں ملبوس ہونے کے باوجود اُن کا مذہبی و لسانی واخلاقی قدروں سے رشتہ کسی طرح کمزور نہیں ہوا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔میں حضرت اختر کے شاعری کے حوالے سے چندلکیریں
کھینچتے ہوئے فخرمحسوس کرتاہوں۔
اختر ؔ کچھوچھوی کی شاعری کی کئی پرتیں ہیں۔ ان کی شاعری کے کئی دھنک رنگ ہیں اور اُن کے طرز اظہار میں کئی تیور ہیں جو معاصرشعرا سے مختلف ہی نہیں منفرد ہیں۔ اُن کی شاعری کے تمام رنگوں سے اخذ کر کے صرف تین اہم اور خاص خوبصور ترنگ میں آپ کو دکھا رہا ہوں جو ان کی تمام صفحاتِ شاعری پر بکھرے ہوئے ہیں۔
پہلا رنگ : علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی بنیادی طور پر نعت کے شاعر ہیں۔اخترؔکچھوچھوی کی جوجذبہ نعت میں صداقت، آہنگ اور تاثیر کی قوت پیدا کرتا ہے، وہ ہے عشقِ رسول جس سے جناب علامہ اخترکا سینہ منور ہے۔ عشق رسول کے نشہ نے اُن کی شاعری کوگلستانِ عقیدت سے مالا مال کر دیا ہے۔ ان کے والہانہ عشق رسول کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کے ان کی زندگی کاایک بھی لمحہ طریقۂ رسول ﷺ سے جدانہیں ملتا ہے۔ اُن کے مجموعہائےکلام میں باران رحمت(نعتیہ)پارۂ دل(غزل ونظم)ہیں جو کئی بار طبع ہوکرصاحبانِ ذوق اوراربابِ نقدونظر سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں بلکہ علامہ اخترکے جذبات عشق، وارفتگیِ شوق، فکری بصیرت اور فنی مہارت کا اثبات بھی کرا چکی ہیں۔
باران رحمت کو ایک خوب صورت گلدستہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ جن میں مختلف اصناف کے گل بوٹےہیں، نعتیہ غزلیں، نعتیہ قطعات، نعتیہ نظمیں، منقبتیں وغیرہ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنی زبردست وحدت معنوی و ذوقی کے باوجود، طبیعت میں کہیں تکدّر پیدا نہیں ہوتا اور نہ لطافت میں ذراسی کمی آتی ہے۔ شاید اسکی وجہ یہ ہو کہ حضرت علامہ اخترکا خصوصی موضوع نعت ہے۔ اور یہ حضرت علامہ اخترکا کمال نہیں بلکہ نعت رسول کا معجزہ ہے۔
نعت موضوعی صنف سخن ہے جس کے عنوان شہنشاہ کو نین صل اﷲ علیہ و سلم ہیں۔ یہی اس کی اصل شناخت ہے۔ اسی لئے نعت کے لئے کوئی خاص فارم متعین نہیں۔ مسدس، مثنوی، غزل، رباعی، جس شکل میں چاہے نیاز مند اپنے دل کا نذرانہ بارگاہ مصطفےٰ میں پیش کر سکتا ہے شرط یہ ہے کہ اس کی اصل پہچان قائم رہے۔ یوں توعلامہ اخترکی ساری شاعری کی اس معاشرتی منشور کی ترسیل و تفہیم کا ذریعہ ہے جو ہادئ برحق، محسنِ انسانیت حضرت محمد خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بنی نوع انسان کے لئے لے کر آئے تھے، لیکن علامہ اخترنے حضرت رسالت مآب سے اپنی محبت اور عقیدت کے واضح اظہار کے لئے اپنی عمرِ مختصر میںبے شمارعقییدتوں سے مالامال نعتیں بھی کہیں ۔ یہ نعتیں علامہ اختر کے نظریۂ حیات کی ترجمان ہیں ۔ ان کی والہانہ وابستگی ہر اس شخصیت سے تھی، جو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کا علم بردار ہو۔ ایسا وسیع القلب فنکار دنیا کی اس عظیم ترین ہستی، اس محسنِ اعظم کے محبت کیونکر نہ کرتا ہو جو کسی خاص گروہ، قوم، یا ملک کے لئے نہیں بلکہ پوری کائنات کے لئے باعثِ راحت و رحمت بن کر آئی ۔
وَ مَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحمَۃَ لِّلعٰلَمِینَ
(اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے : القرآن)
علامہ اختراپنی امیدوں کا دامن اسی رحمۃللعالمین سے وابستہ کرتے ہیں ، جو سب جہانوں کے لئے وجہِ تسکین و راحت ہے۔ اور جس کے در سے تشنہ لبوں کے لئے فیضِ عام کے چشمے جاری ہیں۔علامہ اختر کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ اسلامی تعلیمات سے بیگانہ ہو کر مسائل کو جتنا سلجھانے کی کوشش کی جائے وہ مزید الجھ جاتے ہیں ۔
دنیا ترے گلشن میںان کے قدم آتے ہیں
رشک چمن و گل جو خاروں کو بناتے ہیں
جب حسن حقیقی کے جلوے نظرآتے ہیں
پھر نقش خیالی کے نقشے کہیں بھاتے ہیں
دنیا کی غیر مسلم ترقی یافتہ قوموں نے اسلامی اصولوں دیانت داری، سچائی، ایفائے عہد اور رواداری کو اپنا کر ہی منزلِ مقصود پائی ہے۔ لیکن اگر کسی خطے کے باشندے مسلمان ہونے کے باوجود اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہو سکے تو سوائے ذلت کے انہیں کچھ حاصل نہ ہوا۔ لہٰذا علامہ اخترمسائل
کے حل کے لئے حضور کی ذاتِ گرامی کی طرف رجوع کا درس دیتے ہیں :
آنسؤں کو مرے دامن کا کنارہ دے دو
اس مضمر مری پردرد کہانی ہے حضور
آپ سے شرح تمنا کی ضرورت کیا ہے؟
سامنے آہ کے ہر سرِّ نہانی ہے حضور
اس شعر کے بارے میں علی مطہر اشعر کہتے ہیں : ’’یہ اس عظیم شاعر کا نعتیہ شعر ہے جس کی تمام زندگی نو بہ نو مسائل کا شکار رہی ہے۔ اور وہ ان مسائل کے سد باب کے لئے طویل عرصے تک کوشاں رہا ہے۔ پہلے مصرعے کی ساخت اس امر کی غماز ہے کہ اس نے مشکلات اور درپیش مصائب کے حل کے لئے دنیائے بے ثبات کے دانش وروں کے استفادہ کیا، مگر بالآخر اس پر یہ راز منکشف ہوا کہ ان کے مشورے اور زندگی گزارنے کے تمام فارمولے نہ صرف غلط ہیں بلکہ اغراض و مفادات پر مبنی ہیں ۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اگر رہنمائی درکار ہے تو انسان کو حضور سرورِ کائنات کی سیرتِ طیبہ سے کسبِ فیض کرنا چاہئے۔ یہ سیرتِ طیبہ سے کنارہ کشی کا ہی نتیجو ہے کہ آج ہماری قوم ذلت و رسوائی کے گہرے کنوئیں میں گر چکی ہے۔‘‘علامہ اختر علم و حکمت کے گہر ہائے گراں مایہ کے حصول کے لئے بھی درِ رسول کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
سلام سے پہلے پوری دینا جہالت اور گمرہی کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ خاص طور پر عربوں کے سیاسی و سماجی حالات ایسے تھے کہ کسی بھی شخص کو جانی، مالی یا معاشی تحفظ حاصل نہ تھا۔ کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی۔ نہ ہی کوئی قانون تھا۔ جو جب چاہتا دوسرے کی املاک پر قبضہ کر لیتا۔ طاقت ور کا راج تھا اور کمزور کی زندگی اجیرن تھی۔ سرداروں کا انتخاب دولت کے بل بوتے پر ہوتا تھا۔ عوامی حقوق کی کوئی وضاحت نہ تھی، جس کی وجہ سے آئے دن خون کی ندیاں بہتی تھیں ۔ بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا۔ غلاموں کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا۔ غرضیکہ پورا سماجی نظام بغیر کسی قاعدہ کے چل رہا تھا۔ جہالت اور گمراہی کی دبیز چادر اوڑھے سوئی ہوئی انسانیت کے لئے خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے حضور کی ذاتِ گرامی کا ظہور اس روشنی کی طرح تھا جس کے دم سے یک دم تمام خوابیدہ مناظر جگمگا اٹھے:
سنتے ہیں کہ وہ جان چمن آئے ہوئے ہیں
پھر غنچے بتا کس لئے کملائے ہوئے ہیں
روشن نظر آتے ہیں درو بام تمنا
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
پرواہ نہیں اپنا بنائیں نہ بنائیں
ہم تو انھیں اپنائے تھے اپنائے ہوئے ہیں
حضور کا فرمان ہے: مَنصَلَّی عَلَیَّ مَرَّۃ فَتَحَ اللّٰہُ لَہ بَابًاِمّنَ العَافِیۃ (جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے، اللہ تعالیٰ اس پر عافیت کا ایک دروازہ کھول دیتا ہے)۔ علامہ اختر کی عقیدت بھری آواز مذکورہ بالا شعر کے علاوہ ذیل کے شعر میں بھی بابِ عافیت پر دستک دے رہی ہے:
السلام اے رحمت العالمیں
السلام اے مظہر دین مبیں
السلام اے رونق کون ومکاں
السلام اے راز حق کے راز داں
السلام اے صاحب کوثر سلام
السلام اے حق کے پیغمبر سلام
علامہ اختر حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے معتقد اور مداح تھے۔ اسلامی کی تاریخی شخصیات میں سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو اپنا آئیڈیل منتخب کرنا، علامہ اختر کی قلندرانہ اور ترقی پسندانہ سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے جہاں تقسیم دولت کے غیر منصفانہ نظام کے خلاف جد و جہد کے لئے اپنی عمر کا لمحہ لمحہ وقف کر رکھا تھا، وہاں ان کی ذاتی زندگی فقر و غنا سے عبارت تھی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ حضور کے خاص صحابی اور سچے محب تھے، اور حضور کی حدیث ہے: ’’مجھ سے محبت
کرنے والوں کی طرف فقر ایسے دوڑتا ہے، جیسے پانی نچان کی طرف دوڑتا ہے۔‘‘[4]
اپنے حقوق کے شعور اور ان کے حصول کے لئے جد و جہد کے ساتھ قناعت اور تقویٰ کے زریں اصول اور دیگر آدابِ زندگی انسانیت نے حضور کی تعلیمات اور سیرتِ طیبہ سے حاصل کئے ہیں ۔ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی زندگی حضور کے ان اصولوں اور تعلیمات کا عملی نمونہ تھی۔ حقوق کے لئے جد و جہد اور اس کے ساتھ ساتھ فقر و غنا علامہ اختر کی شخصیت کی بھی نمائندہ خصوصیات تھیں ۔ جو انہوں نے حضور کی سیرتِ طیبہ سے بالواسطہ اور بلاواسطہ حاصل کی تھیں ۔ الغرض علامہ اختر کا فکری نظام مصطفوی منشور سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ ان کی فکر کسی بھی پہلو سے دیکھیں ، اسلام سے متصادم نظر نہیں آئے گی۔ طبقاتی معاشرے کی ستم ظریفیوں کے شکار اس بلند کردار اور سچے مسلمان فنکار کی یہ عظمت ہے کہ وہ اپنی متاعِ فکر کو منبعِ فکر و عرفاں حضرتِ محمد کا فیض سمجھتا ہے اور اس کا عقیدت مندانہ اور قطعی اعتراف بھی کرتا ہے:
اللہ اللہ رفعت اشک غم ہجر نبی
جونہی ٹپکا آنکھ سے تسبیح کا دانہ بنا
آج بھی سورج پلٹ سکتا ہے تیرے واسطے
اپنے دل کو الفت احمد کا کاشانہ بنا
چاند کی رفعت کو چھو لینا کہاں کی عقل ہے
عقل یہ ہے چاند کو خود اپنا دیوانہ بنا
جانے کتنی ٹھوکریں کھاتا ہوا آیاہوں میں
مجھ کو محروم تمنا میرے مولیٰ نہ بنا
دھو کے اپنے نطق کو مدح نبی کے آب سے
اپنی ہر ہر بات اے اخترؔ حکیمانہ بنا
یہ شاعری نہیں بلکہ حقیقت حال کا بیان ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ جان جہاں صل اﷲ علیہ و سلم کی ملکیت میں ہے اور قیامت کے دن اُن کی شفاعت ہی ہماری نجات کا سبب بنے گی کہ یہ جان جہاں عین حق ہیں، سارے نبیوں سے اعلیٰ، افضل اور ایک بے مثال شخص جن پر اپنے تو اپنے دشمنوں کو بھی اعتماد ہے۔ ایسے سرکار دو جہاں کی تعریف کرنا نعت کی شناخت کا جزو اعظم ہے۔
اس دیار قدس میں لازم ہے اے دل احتیاط
بے ادب ہیں کر نہیں پاتے جو غافل احتیاط
جی میں آتا ہے لپٹ جاؤں مزار پاک سے
کیا کروں ہے میرے ارمانوں کی قاتل احتیاط
اضطران عشق کا اظہارر ہو بے حرف و صوت
اے غم دل احتیاط اے وحشت دل احتیاط
عشق کی خود ورفگی بھی حسن سے کچھ کم نہیں
ہے مگر اس حسن کے رخسار کا تل احتیاط
ان کے دامن تک پہونچ جائیں نہ چھینٹیں خون کے
ہے تڑپنے میں بھی لازم مرغ بسمل احتیاط
آ بتاؤں تجھ کو میں ارشاد او ادنیٰ کا راز
ان کے ذکر قرب میں لازم ہے کا مل احتیاط
صرف سدرہ تک رفاقت اور پھر عذر لطیف
عقل والو ہے ادائے عقل کامل احتیاط
بس اسی کو ہے ثنائے مصطفی لکھنے کا حق
جس قلم کی روشنائی میں ہو شامل احتیاط
نام پر توحید کے انکارتعظیم رسول
کیا غضب ہے کفر کو کہتے ہیں جاہل احتیاط
اس ادب نا آشنا ماحول میں اخترؔ کہیں
رہ نہ جائے ہو کے مثل حرف باطل احتیاط
یہ وہ محبوب نورانی ہے جو کائنات کی زندگی ہے، یہی اصل ایمان ہے اور یہی روحِ قرآن ہے۔ مراد یہ ہے کہ نعت گوئی میں محض عقیدت سے کام نہیں چلے گا۔ یہاں عقیدہ چاہئے وہ بھی جتنا شدید تر ہوتا جائے
گا نعت کی قدر بڑھتی جائے گی علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کے یہاں محض عقیدت نہیں وہ ’’عقیدہ‘‘ بھی ہے جو ایمان کی دولت بخشتا ہے۔ ایسا ایمان جس کی روح محبت رسول ہے۔ سچے ناعتِ رسول کا دل کوچۂ محبوب صل اﷲ علیہ و سلم کا طواف کرتا ہے، زبان ذکر محبوب سے ہر لمحہ تر رہتی ہے اور آنکھ ہجر محبوب میں اشکوں سے وضو کرتی ہے۔علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی ایسے ہی عاشق رسول ہیں۔
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی حیات کا ہر ورق ہمارے سامنے ہے ہم نے ان کی صبح دیکھی ہے اور شام بھی۔ ہم نے ان کی خلوت دیکھی ہے اور جلوت بھی۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں ذاکر رسول صل اﷲ علیہ و سلم ہی نظر آئے ہیں۔ یاد محبوب میں اُن کی محویت قابل دید اور لائق تقلید ہے۔ ہجر رسول میں ہر وقت بے قرار رہتے ہیں۔ اُن کے جذبات عشق میں بڑی متانت اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘
عشقِ رسول میں ڈوبے چند اشعار ملاحظہ کیجئے اور دیکھیئے کہ سچا عشق جذبات خیالات اور الفاظ میں کیسی صداقت، شدت اور تاثیر بخش دیتا ہے۔
بجھ گئی عشق کی آگ اندھیر ہے وہ حرارت گئی وہ شرارہ گیا
دعوت حسن کردار بے سود ہے تھا جو حسن عمل کا سہارا گیا
جس میں پاس شریعت نہ خوف خدا وہ رہا کیا رہا وہ گیا کیا گیا
ایک تصویر تھی جو مٹادی گئی یہ غلط ہے مسلمان مارا گیا
مر کے طیبہ میں اخترؔ یہ ظاہر ہوا کچھ نہیں فرش سے عرش کا فاصلہ
گود میں لے لیا رفعت عرش نے قبر میں جس گھڑی میں اتار گیا
بڑے لطیف ہیں نازک سے گھر میں رہتے ہیں
میرے حضور میری چشم تر میں رہتے ہیں
یہ واقعہ ہے لباس بشر بھی دھوکا ہے
یہ معجزہ ہے لباس بشر میں رہتے ہیں
خداکے نور کو اپنی طرح سمجھتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں کس کے اثرمیں رہتے ہیں
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی نعتیہ فکر ستھرا اسلوب بیان رکھتی ہے۔ اُن کے ذخیرۂ علم میں دین اور ادب، اردو اور فارسی و عربی دونوں کی رونقیں یکجا ہیں اس لئے اُن کے اسلوب و اظہار میں دونوں کے انعکاسات ملتے ہیں۔ وہ جہاں عربی و فارسی کے الفاظ اور ترکیبیں استعمال کرتے ہیں وہیں اودھ اور دہلی کی شستگی سے بھی اُن کا لسانی انسلاک نظر آتا ہے۔ ثقیل اور بھاری بھرکم الفاظ کے ساتھ عام فہم، رواں اور بول چال کے آسان الفاظ بھی اُن سے مانوس نظر آتے ہیں۔ اُن کے اظہار و اسلوب میں جہاں تنوع اور رنگارنگی ہے وہین فنی اظہار میں شفافیت اور جذبے کی تپش بھی ہے۔ انہوں نے اپنی نعتوں کا خمیر عشق رسول صل اﷲ علیہ و سلم کی آنچ میں تیار کیا ہے۔ اس لئے اُن کا ہر شعر عشق رسول کے تاروں سے لپٹا نظر آتا ہے۔ اُن کے یہاں محض الفاظ کی بازی گری نہیں بلکہ جذبۂ عقیدت کا پر خلوص اظہار ہوتا ہے۔ ذیل کے اشعار پڑھئے اور علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی نعت گوئی کے محاسن پر سر دھنئے
حسن خورشید نہ مہتاب کا جلوہ دیکھو
آؤ احمد کے کفِ پا کا تماشہ دیکھو
دیکھنے والو دیارِ شہِ بطحا دیکھو
فرش کی گود میں ہے عرش معلی دیکھو
ٔٔ٭٭٭
سوچتاہوں کیا کہوں میں، کیا نظر آنے لگا
وہ ریاض برزخ کبریٰ نظر آنے لگا
آنکھ جب تک بند تھی اک آدمی سمجھا تجھے
اور جب وا ہو گئی کیا کیا نظر آنے لگا
ان کی یادوں میں جو ٹپکا اشک اخترؔ آنکھ سے
منزلت میں عرش کا تارہ نظر آنے لگا
٭٭٭٭
اے حسین بن علی تیری شہادت کو سلام
دین حق اب نہ کسی دور میں تنہا ہوگا
رب نے چاہا تو قیامت میں سبھی دیکھیں گے
ان کے قدموں میں پڑا اخترؔ خستہ ہوگا
وہ مری جان بھی جان کی جان بھی میرا ایمان بھی روح ایمان بھی
مہبط آیات قرآن بھی اور قرآن بھی روح قرآن بھی
نوروبشریٰ کا یہ امتزاج حسیں جیسے انگشتری میں چمکتا نگیں
عالم نور میں نور رحمٰن بھی عالم انس میں پیک انسان بھی
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی نعتیہ شاعری جہاں عشق رسول کی روح سے مملو ہے وہیں قرآن و حدیث سے ماخوذ مضامین، معجزات نبوی، تاریخی واقعات اور اصلاحی و تبلیغی خیالات بھی اسے تنوع اور رنگارنگی کی کیفیت عطا کرتے ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ فنی طور پر اُن کی نعتیہ شاعری ایسی بے شمار خوبیوں کی حامل ہے جن کی تلاش ایک کہنہ مشق اور بڑے شاعر سے کی جا سکتی ہے۔ تشبیہ، استعارہ تمثیل اور پیکر تراشی کی مثالیں تو بڑی آسانی سے مل سکتی ہیں، اُن کی شاعری میں وہ تکنیکیں بھی ملتی ہیں جو شعری مہارت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ چھوٹی بحروں کی کاٹ، طویل بحروں کا ترنم، مشکل ردیفوں کا استعمال، نادر مگر خوش رنگ ترکیبیں گڑھنا اور محاوروں سے برجستگی اور روانی پیدا کرنا وغیرہ، ایسے حربے ہیں جن سے اشعار میں ادب کا بانکپن اور فکر و فن کی بہار اپنے جلوے بکھیرتی ہے اس قسم کے بیشتر اشعار قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کیونکہ نعتیہ شاعری میں یہ نیا لب و لہجہ اُنہیں متحیر کرتا ہے اور علامہ اخترکو معاصر نعتیہ ادب کے سب سے منفرد ممتاز اور نمایاں شاعر کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے۔
دوسرا رنگ : علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی بنیادی طور پر نعت کے شاعر ہیں مگر اُنہوں نے غزلوں نظموں اور رباعیات وغیرہ میں بھی اپنے پاکیزہ اور اعلیٰ افکار کی روشنی بکھیری ہے۔ اُن کی غزلوں میں ایک خاص رکھ رکھاؤ کی کیفیت موجود ہے۔بقول ڈاکٹرامین اشرف :یہ سوال اہم نہیں ہے کہ حضرت اخترؔ نے شاعری کی شروعات غزل سے کی ہے ،نظم سے یانعت سے’’باران رحمت‘‘(نعتیہ شاعری)اور پارۂ دل (غزلیہ شاعری)کامطالعہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اول الذکرکلام میں رچاؤ،پختگی اورالفاظ ومحاورات پرحاکمانہ قدرت زیادہ بھرپور ہے اوراس کے مقابلہ میں فنی ہنرمندی سے بھرپور غزلوں کے علاوہ ایسی غزلیں بھی ہیںجن کا مطالعہ اس امر کاغماز ہے کہ یہی ابتدائی نقوش ہیں۔:
انہوں نے اُن سوقیانہ جذبات، مریضانہ موضوعات اور غیر مہذب افکار سے غزل کو یکسر پاک رکھا ہے جو غزل کے لئے معیوب اور باعثِ عار ہیں۔ اُن کی غزلوں میں پاکیزگی بھی ہے اور فکر کی گہرائی بھی اورذوق ونظر کی طہارت بھی۔ اُن کی غزلیں پڑھتے ہوئے جہاں ذوق جمال کی تسکین ہوتی ہے وہاں فکر کی نئی پہنائیوں سے آشنائی بھی۔ یہ خصوصیت نہ صرف انہیں دوسرے ہم عصر شعر اسے ممتاز کرتی ہے بلکہ ۱۹۸۰ کے بعد آسمانِ ادب پر روشن ہونے والے شعرا میں ایک اہم مقام بھی عطا کرتی ہے۔
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی غزل میں ان کی سنجیدہ روی اور مزاج کی روحانی تاب قاری کو فی الفور اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ تقریباً تین دہائیوں پر پھیلا ہوا ان کا کلام انہیں اِس عہد کا ایک معتبر ذہین اور اچھا شاعرثابت کرتا ہے۔ اب وہ شاعری کی اُس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں شاعری خود شاعر کی ذات میں گم ہو جاتی ہے اور شاعر کی ذات مکمل شاعری ہو جاتی ہے۔ تبھی تو ایسے اشعار وجود میں آتے ہیں :
عشق کی اصطلاح میں ہمدم
موت کہتے ہیں مسکرنے کو
پھر اس میں آیا کہاں سے کمال رعنائی
اگر یہ کہکشاں ان کی راہ گزار نہیں
عظمت انسانیت سمجھے کوئی ممکن نہیں
خاک کا ذرہ سہی لیکن فلک آغوش ہے
علامہ اختر جذبات کی پیکر تراشی کرنے والے شاعر ہیں ۔ ان کے اسلوب میں روایتی شاعری کی مٹھاس اور لہجے میں تر و تازگی اور فکر و خیال کی بے شمار نیرنگیاں موجود ہیں ۔ چاہے وہ حمد ہو ، نعت ہو ، غزل ہو یا نظم۔
علامہ اخترؔ نے ہر صنف میں ندرت بیاں کے جوہر دکھائے ہیں ۔ بنیادی طور پر وہ نعت کےشاعر ہیں ۔ معزز علمی و ادبی گھرانے سے تعلق ہونے کی بنا پر فن شعر و ادب انھیں وراثت میں مل گیا لیکن ان کا طبعی میلان خود آفریدہ ہے۔ کسی شاعر کے گھر جنم لینے والا بچہ خود بھی شاعر ہو قطعی ضروری نہیں ۔ یہ تو بس خدا کی شان کریمی ہے کہ جسے چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔ علامہ اختر نے جو شاعری کی ہے وہ وِجدان کے بل بوتے پر کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں اثر آفرینی موجود ہے۔ انداز بیاں یکسر سادہ و سلیس ہے۔ مگر فکر کی اڑان اپنی آغوش میں آفاقیت کو سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے خوب سے خوب تر کی تلاش کی ہے۔ **
علامہ اختر کے اشعار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر علامہ اختر کی شاعری میں فنی رچاؤ کے بالمقابل جذباتیت کا عنصر بدرجۂ اتم موجود ہے۔ لفظیات کے برتاؤ میں بھی وہ طاق نہیں ۔ ان کی شاعری شعوری و ارادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طرح کا بے ساختہ پن لیے ہوئے ہے جس میں احساسات کی اتھاہ گہرائیاں نظر آتی ہیں ۔ موضوعاتی نظموں میں بھی انھوں نے تغزل کی چاشنی برقرار رکھی ہے۔ بہت سلیقے اور خوبصورتی کے ساتھ دلنشیں انداز میں پابند اور نظمیں کہی ہیں ۔ یہ ان کی فنکاریت کی نظیر ہے۔
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی غزلیہ شاعری میں مجھے سب سے زیادہ وہ فضا پسند آئی جو اُن کی زندگی کے واقعات، ان کے ذاتی محسوسات اور ان کی شخصیت کے طبعی افتاد سے ابھرتی ہے۔ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے، جذبے کی صداقت کے ساتھ لکھا ہے۔ ان کے احساسات کسی عالمِ بالا کی چیزیں نہیں ہیں بلکہ ان کی اپنی زندگی کی سطح پر کھیلنے والی لہریں ہیں۔ انہیں نازک چنچل، بے تاب، دھڑکتی ہوئی لہروں کو انہوں نے شعر وں کی سطروں میں ڈھال دیا ہے، اور اس کوشش میں انہوں نے انسانی جذبے کے ایسے گریز پا پہلوؤں کو بھی اپنے شعر کے جادو سے اجاگر کر دیا ہے جو اس سے پہلے اس طرح ادا نہیں ہوئے تھے :
یہ بھی ہیں چہرۂ پرنور کے پروانے دو
دوش پر کاکل خمدار کو بل کھانے دو
کہہ رہی ہے رخ پہ بکھری ہوئی زلف حسیں
ابر کے پیچھے کوئی برق تپاں روپوش ہے
بدمست گھٹاؤ یہ تو کہو اس وقت ہمیں کیا لازم ہے
جب ساغر عارض موج میں ہو جب زلف پریشاں ہوجائے
ا ان کی شاعری سوچ، طرز احساس اور فنی برتاؤ ہر لحاظ سے اردو شاعری کے روایتی مزاج سے یکسر مختلف ہے۔ اور اپنے اندر انفرادی رنگ و روپ رکھتی ہے۔علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کے اسلوب، لہجے اور موضوعات کی انفرادیت کا یہ عالم ہے کہ اُن کی شاعری سب سے الگ پہچانی جاتی ہے۔ نعتوں کے مجموعوں سے قطع نظرصرف ’’پارۂ دل‘‘ پڑھ جائیے، یہ حقیقت پہلی نظر میں سامنے آئے گی ۔
یہ بھی ہیں چہرۂ پرنور کے پروانے دو
دوش پر کاکل خمدار کو بل کھانے دو
کہہ رہی ہے رخ پہ بکھری ہوئی زلف حسیں
ابر کے پیچھے کوئی برق تپاں روپوش ہے
بدمست گھٹاؤ یہ تو کہو اس وقت ہمیں کیا لازم ہے
جب ساغر عارض موج میں ہو جب زلف پریشاں ہوجائے
اپنی شاعری کو زندگی کی معنویت سے آشنا کرنے میں علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کے براہ راست حسی تجربوں کا بڑا دخل رہا ہے۔ یہ حسی تجربے بھی محض سرسری نہیں ہیں بلکہ ماضی کے خوابوں کی صورت میں شاعر کے لاشعور کا جزو بن گئے ہیں کہ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی ان کے بغیر اپنے حال اور مستقبل کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ زندگی کی بدلی ہوئی قدروں کے بارے میں ہر شاعر اظہار خیال کر تا ہے اور رنج و غم کا اظہار بھی کرتا ہے مگر علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے اس جشن بے چارگی کو متحرک تجسیم میں بدل دیتے ہیں :
مجھے معلوم ہے اے اشتراکیت کے فرزندو
حصار عافیت کے دعویٰ ہائے بے نشاں کب تک
ہے میری زندگی ویرانیوں کا منظر خستہ
مرے دم سے قفس صیاد کا آباد ہوتا ہے
گلہ کوئی بھی چیرہ دستیٔ صیاد سے کیا ہو
جہاں پر خود گل تر تیشۂ صیاد ہوتاہے
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی ایسی سوچ کا مابعد الطبیعاتی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کی سوچ براہ راست جیسا کہ میں نے اوپر کہا اُن کے حسی اور ذہنی تجربوں کی دین ہے۔ اپنے گرد و پیش کے عمل اور رد عمل کے نتیجے میں انہوں نے اس طرح سوچا اور اس طرح محسوس کیا ہے۔ تنہائی، عدم تحفظ زندگی کی بے معنویت، اخلاقی خلا، ذات کا کرائسس، فرد کی گمشدگی، فنا کا خوف، حالات کی یکسانیت، مشینی زندگی کی جبریت، اقدار کی شکست و ریخت، آج کی زندگی کے ایسے محرکات و مسائل ہیں جو ہر با شعور آدمی کے دل و دماغ کو ایک طرح کی الجھن میں ڈالے ہوئے ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں کی حساس طبیعتوں نے اِن باتوں کا کچھ زیادہ ہی اثر قبول کیا ہے۔ چنانچہ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کے یہاں بھی اس قسم کے محسوسات کا اظہار ملتا ہے اور بعض جگہ بڑی شدومد کے ساتھ ملتا ہے۔ مگر خوبی یہ ہے کہ اُن کے یہاں یہ احساسات منفی نقطۂ نظر یا نا اُمیدی کے تصورات پیدا نہیں کرتے۔ جدید شعرا کے یہاں یہ محسوسات نا اُمیدی اور مایوسی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے تھے اور زندگی اُن کے یہاں اپنی معنویت ہمیشہ کے لئے کھو چکی تھی۔ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی شاعری جدیدیت سے اسی لئے برسر پیکار نظر آتی ہے کہ ان کی شاعری زندگی کے منفی رویوں کی شاعری نہیں ہے۔ کہیں کہیں اس طرح کا لمحاتی احساس ان کے یہاں ضرور ابھرتا ہے۔ لیکن یہ احساس جب فکر و تامل کی منزلوں سے گزرتا ہوا کیف جذبی اور عاطفہ بن کر شعر میں نمودار ہوتا ہے تو مثبت رویے میں بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ اُن کے پاس ایسی قوت کا عقیدہ ہے جو مصائب کے بعد انسان کو بشارت کی ضمانت دیتا ہے۔ یاس کے اندھیرے میں امید کی چاندنی چٹکاتا ہے اور زندگی کی بے معنویت کو تازہ معنویت عطا کرتا ہے
آدمی کیا ہے آدمیت کیا
حسن سیرت نہیں تو صورت کیا
فرشتہ ہو گیا اخترؔ تو کیا ہے
کہو فرزند آدم بن کے آئے
مثبت افکار اور امید کی کرنوں سے معمور یہ وہ ذہن اور عقیدہ ہے جس نے بھیانک سے بھیانک حالات میں بھی زندگی کو علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی نظر میں مہمل، لغو اور عذاب نہیں بننے دیا۔ اس عقیدے اور یقین نے ان کی شاعری میں جس طرح جگہ بنائی ہے اور اپنے فکر و فن میں انہوں
نے اسے جس طرح برتا ہے وہ ثبوت ہے کہ شاعر ایک صالح اور نورانی طرز زندگی کا حامل ہے۔ اور ثبوت اس کا بھی ہے کہ علم و فضل، قرآن و سنت اور الہیات کی قوت نے اُن کی عام فکر کے ساتھ زندگی کے متعلق محسوسات کو بھی مثبت، روشن اور صحیح راہ دکھانے میں پورا تعاون پہنچایا ہے۔علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی شاعری وجدانی اور فکری گہرائیوں کی شاعری ہے۔
ایسا لگتا ہے علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی نے دنیاوی بدیوں اور شیطنتوں کو صوفیا کی داخلی آنکھوں سے دیکھنے کا جتن کیا ہے۔ وہ تخلیق ادب کے عصری تقاضوں سے باخبر ہیں۔ اس لئے ان کی شاعری نئے اخلاقی اور انسانی اسباق کا خزینہ سمیٹے ہوئے ہے
رنگینیٔ مجاز حقیقت نما ہوئی
منزل پہ پہونچے سلسلہ عاشقی سے ہم
عشق کی اصطلاح میں ہمدم
موت کہتے ہیں مسکرنے کو
آنکھ ہے اشک باریوں کے لئے
دل ہے چوٹوں پہ چوٹ کھانے کے لئے
تیسرا رنگ : اردو نظم کی ابتدائی اشکال وہ مثنویاں ہیں جو عادل شاہی اور قطب شاہی ادوار حکومت میں کہی جاتی رہیں ۔ بعد ازاں جب مغل فرماں روائی کا آغاز ہوا تو ہند میں ایرانی اثرات کے تحت غزل کو پھولنے پھلنے کا موقع ملا، لہٰذا نظم نہ پنپ سکی۔ انگریزوں کے ہاتھوں مغلیہ سلطنت کے زوال نے ہند کے معاشرے میں کچھ داخلی انقلاب پیدا کئے۔ صدیوں پرانی اخلاقی، سماجی اور مذہبی اقدار کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا۔ نئے معاشی اور نفسیاتی مسائل نے سر اٹھایا۔ فرقہ واریت اور طبقاتی نظامِ معیشت نے ’’گھر‘‘ کی اکائی کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ شکست اور محکومی کی ذلت کا احساس عام ہوا۔ اور ان سب مسائل کی عکاسی کے لئے نظیر اکبر آبادی نے نظم کی ضرورت کو سب سے پہلے محسوس کیا۔ بعد ازاں جدید عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اور مغربی ادب کے زیرِ اثر آزاد اور حالی نے بھی جدید شاعری کا علم بلند کیا۔ لہٰذا انجمنِ پنجاب کا قیام عمل میں آیا اور وطن اور فطرت کے مناظر کے علاوہ دوسرے عوامی موضوعات پر بھی نظمیں لکھی جانے لگیں ۔ حالی نے محسوس کیا کہ قافیہ اور ردیف کا التزام جدید مسائل کے اظہار و ابلاغ میں مانع ہو رہا ہے۔ لہٰذا انہوں نے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں قافیہ، ردیف کے خلاف آواز اٹھائی: ’’اگرچہ وزن بھی قافیہ کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے، جس سے اس کا سننا کانوں کو نہایت خوشگوار معلوم ہوا ہے، اور اس کے پڑھنے سے زبان زیادہ لذت پاتی ہے۔ مگر قافیہ، خاص کر ایسا، جیسا کہ شعرائے عجم نے اس کو نہایت سخت قیدوں سے جکڑ بند کر دیا ہے اور پھر اس پر ردیف اضافہ فرمائی ہے، شاعروں کو بلا شبہ ان کے فرائض ادا کرنے سے باز رکھتا ہے۔‘‘
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی ؔ کی شعری کائنات کا تیسرا آسمان ان کی نظموں سے منور ہے۔ اور اپنی متنوع خوبیوں سے مجھے حیرت زدہ کر رہا ہے۔ عہد حاضر میں ’’نظم گوئی‘‘ کس قدر اہمیت کی حامل ہے اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ حالیؔ نے مقدمہ شعر و شاعری میں شاعری کے جس رنگ روپ کی وکالت کی تھی آج اس کی اہمیت نسبتاً زیادہ محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ بگڑتے معاشرے اور دم توڑتی ہوئی قدروں کی اصلاح اور زندگی کا ذریعہ موضوعی نظمیں ہی ہو سکتی ہیں۔ جس تسلسل اور تاثراتی وحدت کے ساتھ نظم میں کسی موضوع کو پیش کیا جا سکتا ہے غزلوں میں نہیں۔ اس لئے علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی نے جب نظموں کی طرف توجہ کیا اُنہیں اپنے افکار اور پیغامات کی ترسیل کا زیادہ بہتر موقع میسر آیا۔ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی خطیب ہیں اور اسلامی و تاریخی شعور سے پوری طرح بہرہ ور، اسلئے اُن کی نظموں میں ’’بیانیہ‘‘ اسلوب حاوی ہے۔ یہ نظمیں اُن کی غزلوں کی طرح علامتی استعاراتی یا تمثالی نہیں ہیں، ان میں تفصیل، سنجیدگی اور درد مندی کے ساتھ ترسیلی اسلوب میں بات کرنے کا انداز
پایا جاتا ہے۔ الفاظ، تراکیب، تشبیہات اور استعارے بھی غزلوں کے مقابلے میں زیادہ سلیس وسادہ اور رواں دواں استعمال کئے گئے ہیں۔ یعنی نظموں میں عصری حوالہ زیادہ واضح، روشن اور صاف ہے اور زبان بول چال کی زبان سے زیادہ قریب ہے۔
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کے یہاں عام طور سے دو قسم کی نظمیں ملتی ہیں۔ ایک وہ جو موضوع یا معنی کو سامنے رکھ کر وضاحتی انداز میں لکھی گئی ہیں یعنی جو ایک مخصوص معنی تک ذہن کی فوری رسائی کروا دیتی ہیں۔ اور دوسری وہ جن سے معانی برآمد ہوتے ہیں یعنی اُس کی تہہ داری قارئین کے فرق کے ساتھ معانی میں فرق بھی پیدا کر سکتی ہے۔ صرف ایک نظم ’’تجزیہ’’ ملاحظہ کیجئے۔
لوگ کہتے ہیں بصد فخر و مباہات اخترؔ
اک حسینہ سربازار بنی ہے رانی
دودھ سے چہرہ دھوتی ہے بجائے پانی
اس کی دنیا میں اندھیرے کا کوئی نام نہیں
اس کے ہاتھوں میں مصیبت کا کوئی جام نہیں
اس کی تقدیر کا تابندہ ہوا سیارہ
اژدھے رنج و الم کے ہوئے نو دو گیارہ
اس کے حق میں شب تیرہ بھی ہے صبح رخشاں
مہر درد بام پہ ہیں مہر و قمر آویزاں
اس کی دنیا میں ترنم کے سوا کچھ بھی نہیں
اس کے ہونٹوںپہ تبسم کے سواکچھ بھی نہیں
میں یہ کہتا ہوں شرافت کا جنازہ نکلا
نظم گوئی کا یہ انداز ایک طرف ذاتی تجربے اور مشاہدے کا عکس ہے تو دوسری طرف مختلف زبانوں کے اعلیٰ ادب سے مکالمے کا نتیجہ ہے۔ جذبے کی سادگی سیدھے سادے مگر لطیف الفاظ کی مدد سے برجستہ ادا ہوئے ہیں۔ قاری ایسے لفظوں سے مسحور ہو کر معنی کو گرفت میں لیتے ہوئے ایک انبساط والی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی ایسی نظم غزل کے ایک شعر کی طرح ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کو نظموں کے مقابلے میں غزلوں سے زیادہ لگاؤ ہے۔ اور غزلوں میں ان کی شناخت کے امکانات قدرے روشن نظر آتے ہیں۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ اُن کی نظموں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ اُن کی نظموں سے رغبت کو سراہا جا سکتا ہے۔
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی نظمیں یوں تو اُن کی زندگی سے وابستہ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں لیکن بالواسطہ طور پر انسانی رشتوں کی شکست و ریخت،سماجی زندگی کی ناقابل برداشت باتیں، روایت اور تہذیب کی شکستگی، مادیت اور مغربیت سے پیدا ہونے والے فکری فساد، فرقہ وارانہ منافرت اور روزمرہ کے تجربات کو فن کی شکل دیتی ہیں۔ اور بڑی فنکاری سے ہر تجربے کے پس پُشت ایک فکر، ایک درس اور ایک سبق پیش کر دیتی ہیں۔ گویا علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی معنی کی ترسیل کے بجائے پیغام کی ترسیل پر یقین رکھتے ہیں۔ اور نظموں کے تعلق سے اُن کا یہی نظریۂ فن ہے۔ انہوں نے فکری و عملی پیغام ہو یا واردات و کیفیات قلبی اور درون انسانی میں چھپے ہنگامے، سب کو کنایاتی اور علامتی الفاظ کے بجائے واضح طور پر سلیس زبان میں پیش کرنا مقدم جانا ہے اور زندگی کے معاشرتی، اخلاقی اور اصلاحی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر میں یہاں ان کی ایک مشہور نظم ’’ہندوستان کے مسلمانوں سے خطاب‘‘ پیش کرنا چا ہوں گا۔
اے مسلماں صید دام خواب غفلت ہوشیار
وقت کہتا ہے کہ لے ہاتھوں میں اپنے ذوالفقار
اٹھ کہ تجھ کو ہے بدلنا گردش لیل و نہار
اے محمد کے سپاہی دین حق کے جاں نثار
تھا کبھی تو باعث نقش و نگار گلستاں
آج کیوں ہے تنگ گلشن اور عار گلستاں
تیری غفلت نے کیا ہے باطلوں کا سربلند
تیری گردن میں حمائل ہے غلامی کی کمند
تیری ہستی بن گئی ہے تختۂ مشق گزند
پھر رہا ہے آج تو بن کر سراپا درد مند
لرزہ بر اندام جو رہتے تھے تیرے نام سے
تھر تھراتا ہے آج تو ہے ان کے چاپ گام سے
ہاں تری یہ خانہ جنگی طاقت باطل ہے آج
اللہ اللہ بھائی کا خود بھائی ہی قاتل ہے آج
سنگ دل اپنوں کے حق میں کیوں مثال سل ہے آج
دشنوں کے درمیاں لیکن بہت بزدل ہے آج
الاماں صد الاماں تم اور خون اتحاد
پیکر رحم و کرم اور مائل بغض و عناد
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی نے اپنے وطن کے آشوب اور اپنی قوم کے مصائب کو سیاسی یا سائنسی فارمولوں کی روشنی میں دیکھتے ہوئے اپنے دکھی دل کی بے چینی کو آشکارا کیا ہے۔ اسی کرب کو ’’صبح آزادی‘‘ میں یوں دیکھا جا سکتا ہے
غم کے مارو مسرت کا پیام آ ہی گیا
آفتاب حریت بالام بام آ ہی گیا
ہو مبارک یہ سرور و انبساط زندگی
میکشو! ہونٹوں تک آزادی کا جام آ ہی گیا
برق نے تو لاکھ چاہا تھا کہ رستہ روک دیں
آسمان حریت پر میرا گام آ ہی گیا
اب شبستان وطن کی ظلمتیں کافور ہیں
آسماں پر نیر گردوں خرام آ ہی گیا
آج اپنے ہاتھ میں اپنے وطن کی ہے زمام
نالۂ مظلوم آخر کار کام آ ہی گیا
ذلت محکومیت سے ہم کو چھٹکارا ملا
اپنے ہاتھ اپنے گلستاں کا نظام آ ہی گیا
لو نسیم صبح گاہی لائی پیغام نشید
مرحبا وقت وداع وقت شام آ ہی گیا
منھ کی کھانا پڑ گیا افرنگیوں کی چال کو
خود شکاری آج اخترؔ زیردام آ ہی گیا
قدرت کے خارجی مناظر پر ار دو میں بے شمار نظمیں لکھی گئی ہیں علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی نے بھی ایسی نظمیں لکھی ہیں۔ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی شاعری محض مشاہدے کی شاعری نہیں ہے۔ مشاہدات اُن کے محسوسات کا صرف پس منظر فراہم کرتے ہیں۔ احساس کا یہ منقش اظہار علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کا منفرد اسلوب ہے۔ یہ محض شاعری نہیں صداقت بیانی ہے جو آخری سچائی کی سمت جانے والوں کے سفر کو آسان اور آسودہ بنا دیتی ہے۔
ساحل کا تصور آتے ہی دوڑا ہوا ساحل آ جائے
لب آشنا حرکت سے بھی نہ ہوں اور زیست کا حاصل آ جائے
خاموش زباں بھی خشک رہے اور ساقی محفل آ جائے
اتنی تو کشش دل میں میرے اے جذبہ کامل آ جائے
جب خواہش منزل پیدا ہو خود سامنے منزل آ جائے
تسلیم کہ شیوہ حسن کا ہے خوشیوں میں بھی رنگ غم بھرنا
مانا کی حسینوں کی عادت ہے زخم پہ بھی نشتر دھرنا
دربار حسیناں میں پھر بھی کہتا ہے یہ آنکھوں کا جھرنا
اے شمع قسم پروانوں کی اتنا تو مری خاطر کرنا
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کے دل و دماغ میں بیشتر ماضی کی یاد یں تحریک پیدا کرتی ہیں۔ مگر یہ یادیں اتنی تابندہ اور پاکیزہ ہیں کہ ان کی بازیافت میں نہ حال کو کسی گزند کا احتمال ہے اور نہ مستقبل کو کسی نقصان کا خطرہ ہے۔ جو چیز خیالات و احساسات کو روشن کرتی ہو اور انسان کے دوامی جذبوں پر آفتاب طلوع کرتی ہو اس کی ضرورت حال اور مستقبل دونوں کو ہے۔ علامہ اخترانہیں مثبت، روشن اور منور باز یافتوں کے شاعر ہیں۔ ثبوت کے لئے آپ ان کی ڈھیر ساری نظمیں مطالعہ کر سکتے ہیں۔ یہاں صرف چند اشعار دیکھئے :
کرم ہے میرے کریم تیرا اسیر مختار ہو گیا ہوں
ہزاروں آزاد رشک میں ہیں میں وہ گرفتار ہو گیا ہوں
تیری انا میں فنا سے پہلے میری انا کی بساط کیا تھی
مگر اب اپنے کو دیکھتاہوں تو ایک سنسارہوگیاہوں
حضور ایسی فنا عطا ہو ملے بقائے دوام جس سے
زمانہ دیکھے تو بول اٹھے تمہارا اظہارہوگیاہوں
جہاں میں جاؤں گا تیری نسبت کی روشنی میرے ساتھ ہوگی
ملی ہے جب سے تیری غلامی امینِ انوارہوگیاہوں
رہین احسان جام و ساغر یہ میری سرمستیاں نہیں ہیں
شہید کیفِ شراب ناب نگاہ سرکارہوگیاہوں
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کا تاریخی شعور بہت پختہ ہے۔ اسلامی تاریخ اور انسانی اقدار کی خوشبو اُن کی نظموں کو نئی روشنی اور نئے رنگ آہنگ سے معطر کرتی ہے۔ اُنہوں نے تلمیحاتی انداز میں تاریخی واقعات کی طرف اشارہ ہی نہیں کیا، بلکہ تاریخ کے کسی واقعے یا واردات کو قصے کے پیرائے میں نقل کر دیا ہے تاکہ وہ واقعہ نہ صرف قاری کو مطلع کرے بلکہ اُس کے ذہن و دل پر اپنے اثرات بھی قائم کرے۔ مورخ اور شاعر کے طریق بازیافت میں یہی تو فرق ہے کہ مورخ کی بازیافت محض بازیافت ہے۔ شاعر کی بازیافت فن میں ڈھل کر پیش رفت کا کردار ادا کرتی ہے۔ جذبے، خیال اور فکر کے لئے آخری حقیقت کی سمت نمائی صرف اسی طرح ممکن ہے اور علامہ اختراس طریقہ کار سے مکمل طور پر واقف نظر آتے ہیں۔ بہار اسلام، حُسن خلق، پرکشش شخص، قدیم رشتہ، نرالی آرزو، اور پہلا مسلماں، وغیرہ نظمیں اس کی عمدہ مثال ہیں۔ نظم ’’مجاہددوراں سید مظفر‘‘ کے محض چند ابتدائی مصرعوں پر ایک نظر ڈالئے، تاریخ کو کس خوب صورتی اور شاعرانہ رنگ وآہنگ کے ساتھ فن کے قالب میں ڈھالا گیا ہے اس کا اندازہ ہو جائے گا۔
ہمارا نالۂ شب گیر مستجاب آیا
بڑا حسین زمانے میں انقلاب آیا
مری امید کی موجیں یم تمنا سے
نہ کیوں تڑپ کے انھیں وقت اضطراب آیا
تھی جس کے فکر وتدبر سے بے خبر دنیا
عروج چرخ سیاست سے کامیاب آیا
علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی شاعر کے ساتھ عالمِ دین، صوفی اور متشرع شخصیت کے حامل ہیں اس لئے اصلاحی مذہبی اور اخلاقی ذہن و فکر رکھتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ وہ صرف عالمِ دین
نہیں بلکہ عاشق رسول ہیں ۔
اس لئے بنیادی طور پر وہ نعت گوئی کو سب سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں اور نعت گو کہلانا ہی پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف نعتوں میں بلکہ غزلوں، نظموں وغیرہ، میں بھی اُنہوں نے مدحت رسول کے گل بوٹے بکھیرے ہیں۔ اِس لحاظ سے علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کا ایک اور امتیاز سامنے آتا ہے کہ انہوں نے نعت کے لئے فارم کی قید نہیں رکھی ہے، جس صنف میں بھی قلم اُٹھایا اُس میں نعت گوئی سے وسعت پیدا کر دی ہے۔ اُن کی نظموں پر بھی اِس کا گہرا اثر ہے۔
آخر میں علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی ایک خوب صورت نظم کا ذکر کر کے اپنی گفتگو ختم کروں گا جو مجھے بہت پسند آئی اور وہ ہے اُن کا ’’سلام‘‘۔ سلام برحضور خیرالانام صلی اﷲ علیہ و سلم لکھنے والے شعرا کی تعداد کثیر ہے، مگر اردو میں چند ہی سلام ایسے ہیں جنہیں مقبولیت دوام حاصل ہوئی۔ اُن میں امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کا سلام ’’مصطفے ٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام ‘‘ اور حفیظ جالندھری کا سلام ’’سلام اُئے آمنہ کے لال ائے محبوب سبحانی‘‘ معرکۃ الآرا ہیں۔علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کا سلام ایسی زمین میں ہے ایسی ہی روانی لطافت اور کشش رکھتا ہے کہ بس!!!!۔ چند اشعار ملاحظہ فرما لیں :
السلام اے رحمت العالمیں
السلام اے مظہر دین مبیں
السلام اے رونق کون ومکاں
السلام اے راز حق کے راز داں
السلام اے صاحب کوثر سلام
السلام اے حق کے پیغمبر سلام
السلام اے خاتم پیغمبراں
السلام اے رہنمائے رہبراں
السلام اے راحت و آرام جاں
السلام اے دستگیر بیکساں
السلام اے پیکرحسن و جمال
السلام اے صاحب فضل و کمال
السلام اے رہبر دین خدا
حامی و ناصر مددگار ومعیں
مدعائے مژدہ عیسیٰ سلام
منتہائے مقصد موسیٰ سلام
کیجئے مقبول اخترؔ کا سلام
شاہ ولیں کے نبیوں کے امام
’’پارۂ دل‘‘ کا مطالعہ آپ کو بتائے گا کہ علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی نظم کہنے کا ہنر تو جانتے ہی ہیں مستزادیہ کہ ان کے یہاں اپنی روایت، اردگرد، پس منظر، پیش منظر اور اپنے اسلاف سے جڑے رہنے کا جو تسلسل ہے وہ ان کی ارفع فنکاری کا سبب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ جزئیات پر جتنی گہری نظر ڈالتے ہیں اور خارجی کائنات کو داخلی کائنات سے جس طرح ہم آہنگ کرتے ہیں یہ اُن کے معاصر نظم نگاروں کے یہاں مفقود ہے، یعنی ’پارۂ دل‘‘ ہر اعتبار سے علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کی نظم گوئی کی صلاحیت اجاگر کرتا ہے۔ سہل اور سادہ اسلوبِ بیان کا یہ نظم نگار اپنے فکر و نظر کے اعتبار سے توجہ طلب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تخلیقی عمل اسی طرح صیقل ہوتا رہا اور توضیحی انداز بیان پر تھوڑا سا قابو پا لیا گیا تو بحیثیت نظم گو بھی اردو ادب میں علامہ ا ختر ؔ کچھوچھوی کے امتیازات کی شناخت قائم ہو جائے گی۔
٭٭٭