اسلام

دَین(قرض) کاحکم

    ہماری جو رقم کسی کے ذمے ہو اسے دَین کہتے ہیں اس کی 3 قسمیں ہیں اور ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے :
(۱)دَین قوِی:
     دین قَوِی اسے کہتے ہیں جو ہم نے کسی کو قرض دیا ہوا ہو،۔۔۔۔۔۔یاتجارت کا مال اُدھاربیچا ہو،۔۔۔۔۔۔یاکوئی زمین یا مکان تجارت کی غرض سے خرید کر کرائے پر دیا اور وہ کرایہ کسی کے ذمے ہو ۔
حکم:     اس کی زکوٰۃ ہرسال فرض ہوتی رہے گی لیکن ادا کرنا اس وقت واجب ہو گا جب مقدارِ نصاب کا کم ازکم پانچواں حصہ وصول ہوجائے تو اس پانچویں حصے کی زکوٰۃ دینا ہوگی ،مثلاً 50,000روپے نصاب ہو تو جب اس کا پانچواں حصہ 10,000روپے وصول ہوجائیں تو اس کا چالیسواں حصہ 250روپے بطورِ زکوٰۃ دینا واجب ہوگا۔البتہ آسانی اس میں ہے کہ ہر سال اس کی بھی زکوٰۃ ادا کر دی جا ئے ۔
(۲)دَین مُتَوَسِّط:
    دَین مُتَوَسِّط اسے کہتے ہیں جو غیرتجارتی مال کا عوض یا بدل ہو جیسے گھر کی کرسی یا چارپائی یا دیگر سامان بیچا اور اس کی قیمت لینے والے پر اُدھار ہو۔ 
حکم :     اس میں بھی زکوٰۃ فرض ہوگی مگر ادائیگی اُس وقت واجب ہوگی جب بقدرِ نصاب پوری رقم آجائے ۔
 (۳) دَین ضعیف:
    وہ ہے جو غیرِ مال کا بدل ہو جیسے مہر اور مکان یا دکان کا کرایہ کہ نفع کا بدلہ ہے مال کا نہیں۔
حکم:     اس میں گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ فرض نہیں ہے ۔جب قبضہ میں آجائے اور شرائطِ زکوٰۃ پائی جائیں تو سال گزرنے پر زکوٰۃ فرض ہوگی ۔
 (الدرالمختار،کتاب الزکوٰۃ ،باب زکوٰۃالمال ج۳،ص۲۸۱ملخصاً: بہار ِ شریعت ،حصہ ۵، ص۹۰۶)
قرض کی واپسی کی امید نہ ہوتو؟
    جس کے ذمے ہمارا دَین(قوی یا ضعیف )ہو اور وہ لاپتہ ہوگیا ،یا اس نے ہمارا مقروض ہونے سے انکار کردیا اور ہمارے پاس گواہ بھی نہیں ،الغرض قرض کی واپسی کی کوئی امید نہ رہی تو اب ہم پر زکوٰۃ دینا واجب نہیں ۔
    پھر اگر خوش قسمتی سے اس نے قرض لوٹادیا تو ایسی صورت میں گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ فرض نہیں ہے ۔  (الدر المختار وردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ،مطلب فی زکوٰۃ ثمن المبیع،ج۳،ص۲۱۸)
زکوٰۃ واجب ہونے کے بعدمال میں کمی کا حکم
    مال میں کمی کی 3 صورتیں ہیں:
(۱)اِسْتِہْلَاک:
     یعنی رقم ضائع ہونے میں اس کے فعل کو دخل ہو مثلاً خرچ کر ڈالا، پھینک دیا یا کسی غنی کو ہبہ کردیا (یعنی تحفت ً دے دیا)یا کسی نذر یا کفارے یا کسی اور صدقہ واجبہ کی نیت
سے صدقہ کردیا۔ اس صورت میں اگرچہ سارا مال جاتا رہے مگر زکوٰۃ سے کچھ بھی ساقط نہ ہوگا مکمل زکوٰۃ دینا ہوگی۔ فتاویٰ سراجیہ میں ہے :”اگر نصاب کو کسی نے ہلاک کردیا تو زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی۔”(فتاویٰ سراجیہ، کتاب الزکوٰۃ،باب سقوط الزکوٰۃ،ج۳،ص۲۵)اور درمختار میں ہے :”جب کسی نے نذر کی نیت کر لی یا کسی اور واجب کی تو درست ہے مگر زکوٰۃ کی ضمانت دینی ہوگی۔”
 (الدرالمختار،کتاب الزکوٰۃ،باب سقوط الزکوٰۃ،ج۳،ص۲۲۵)
 (۲) تَصَدُّق:
    یعنی اگر مطلقاً صدقہ کیا یاکسی واجب یا نذر کی ادائیگی کی نیت کئے بغیر کسی محتاج فقیر کو دے دیا تو تمام مال صدقہ کرنے کی صورت میں زکوٰۃ ساقط ہوگئی۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :”جس نے تمام مال صدقہ کردیا اورزکوٰۃ کی نیت نہ کی تو اس سے فرض ساقط ہوجائے گا ۔”(الفتاویٰ الھندیۃ ، کتاب الزکوٰۃ،الباب الاول ،ج۱،ص۱۷۱)
    اور اگر کچھ مال صدقہ کیا تواس کی زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی ،پوری زکوٰۃ دینا ہوگی۔(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَہ،ج۱۰ ،ص۹۳)
(۳) ہلاک:
     اس کی صورت یہ ہے کہ اس کے فعل کے بغیر تلف یا ضائع ہوگیا مثلاً چوری ہوگئی یاکسی کو قرض دے دیا پھر وہ مُکر گیا اور اس کے پاس گواہ بھی نہیں یا قرض دار فوت ہوگیا اوراس نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا یا مال کسی فقیر پر دَین(یعنی قرض ) تھا اس نے اسے معاف کردیا ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ جتنا ہلاک ہو ا اس کی ساقط اور جو باقی ہے اس کی واجب اگرچہ وہ بقدرِ نصاب نہ ہو۔
(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ،ج۱۰،ص۹۱،۹۵)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!