اسلام
۔۔۔۔۔صفت مشبہ کا بیان۔۔۔۔۔
صفت مشبہ کی تعریف:
صفت مشبہ وہ اسم مشتق ہے جو اس ذا ت پر دلالت کرے جو دائمی طور پر مصدری معنی سے موصوف ہو۔ جیسے کَرِیْمٌ (کرم کرنے والا ) ۔ ثلاثی مجرد سے اس کے چار اوزان مشہور اور کثیر الاستعمال ہیں۔
۱۔أَفْعَلُ ۲۔ فَعْلاَنُ ۳۔فَعْلٌ ۴۔ فَعِیْلٌ۔
اسکے عمل(۱)کی شرائط:
اسکے عمل کے لئے ضروری ہے کہ یہ، مبتدا ،موصوف ، ذوالحال،حرف نفی يا استفہام میں سے کسی ایک کے بعد آئے۔ مبتدا کے بعد جیسے اَلْوَلَدُ حَسَنٌ (لڑکا خوبصورت ہے) موصوف کے بعد جیسے جَاءَ رَجُلٌ حَسَنٌ وَجْھُہ، (وہ آدمی آیا جس کا چہرہ خوبصورت ہے) ذوالحال کے بعد جیسے جَاءَ نِیْ زَیْدٌاَحْمَرَ وَجْھُہ، (میرے پاس زید اس حال میں آیا کہ اس کا چہرہ سرخ تھا) حرف نفی کے بعد جیسے مَا حَسَنٌ زَیْدٌ (زید خوبصورت نہیں ہے) استفہام کے بعد جیسے أَحَسَنٌ کِتَابُکَ؟ ( کیا تمہاری کتاب خوبصورت ہے؟)
اسکے استعمال کی صورتیں:
صفت مشبہ کا صیغہ دو طریقوں سے استعمال ہوتا ہے ۔
۱۔معرف باللا م جیسے زَیْدُنِ الْحَسَنُ الْوَجْہِ۔
۲۔ غیر معرف با للام۔جیسے زَیْدٌ حَسَنٌ وَجْھُہ،۔
اسکے معمول کی صورتیں:
اسکے معمول کی تین صورتیں ہیں
۱۔ معرف بلام جیسے زَیْدُ نِ الْکَثِیْرُالْمَالِ۔
۲۔ مضاف جیسے حَسَنٌ وَجْھُہ،۔
۳۔ نہ مضاف نہ معرف بلام جیسے اَلْوَلَدُ حَسَنٌ وَجْھًا۔
نیز اعراب کے اعتبار سے بھی اسکے معمول کی تین صورتیں ہیں:
۱۔ فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوگا جیسے زَیْدٌحَسَنٌ وَجْھُہ،۔
۲۔ مفعول بہ سے مشابہت کی وجہ سے منصوب ہوگا بشرطیکہ وہ معرفہ ہو جیسے اَلْمَسْجِدُ الْفَسِیْحُ السَّاحَۃَ اور اگر معمول نکرہ ہو تومفعول بہ کی مشابہت یا تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا جیسے اَلْحَیَاۃُ قَلِیْلٌ مَوْتًا ۔
۳۔مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور ہوگا جیسے زَیْدٌ شَدِیْدُ الْمُطَالَعَۃِ۔
نوٹ:
صفت مشبہ کا معمول اس سے مقدم نہیں ہوسکتا۔
صفت مشبہ کے چند قواعد:
٭۔۔۔۔۔۔صفت مشبہ اور اسم فاعل میں یہ فرق ہے کہ صفت مشبہ میں معنی مصدری دائمی طورپر
پائے جاتے ہیں ۔ جبکہ اسم فاعل میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس میں معنی مصدری حدوثی طور پر پائے جاتے ہیں ۔ جیسے عَلِیْمٌ (ہمیشہ جاننے والا) اور عَالِمٌ (جاننے والا)۔
٭۔۔۔۔۔۔صفت مشبہ کے صیغے مختلف اوزان پر آتے ہیں ۔ اور سب سماعی ہیں صرف چند قیاسی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔
۱۔ جو رنگ، عیب یا حلیے پردلالت کریں ان سے صفت مشبہ واحد مذکر أَفْعَلُ اور واحد مونث فَعْلاَءُ کے وزن پر آتاہے۔ اور دونوں کی جمع فُعُلٌ کے وزن پرآتی ہے ۔جیسے أَحْمَرُ، حَمْرَاءُ ، اور جمع حُمُرٌ ۔
۲۔ اہل حرفہ یعنی پیشہ ور لوگوں کیلئے زیادہ تر فَعَّالٌ کاوزن استعمال کیا جاتا ہے ،جیسے خَیَّاطٌ ، نَجَّارٌ ،خَبَّازٌ ، حَجَّامٌ، بَزَّارٌ، اورکبھی اسم جامد سے بھی یہ وزن بنا لیتے ہیں ، بَقْلَۃٌ (ساگ)سے بَقَّالٌ ،جَمَلٌ سے جَمَّالٌ ۔
٭۔۔۔۔۔۔جب صفت مشبہہ کامعمول مرفوع ہو تو اس میں ضمیر نہیں ہوتی کیونکہ اس وقت اسکا معمول اسکا فاعل ہوتا ہے ۔ لہذا صفت کا صیغہ اس صورت میں ہمیشہ واحد آئے گا، خواہ معمول واحد ہو یا تثنیہ یا جمع اور اگر معمول منصوب یا مجرور ہو تو صفت میں ضمیر ہو گی جو موصوف کی طرف راجع اور اسکا فاعل ہوگی نیز یہ ضمیر تذکیر وتانیث اور تثنیہ وجمع میں موصوف کے مطابق ہو گی۔
ترکیب:
جَاءَ زَیْدٌ کَرِیمٌ أَبُوْہ،
جَاءَ فعل زَیْدٌ ذوالحال کَرِیْمٌ صفت مشبہ أَبُ مضاف ہ، ضمیر مضاف الیہ مضاف مضاف الیہ سے ملکر کَرِیْمٌ صفت مشبہ کا فاعل صفت مشبہ اپنے فاعل سے ملکرشبہ جملہ ہو کر حال، حال ذوالحال سے ملکر فاعل فعل فاعل ملکر جملہ فعلیہ۔
ترکیب:
زَيْدٌ حَسَنٌ وَجْھُہ،
زَیْدٌ مبتدا حَسَنٌ صفت مشبہ وَجْہُ مضاف ہ، ضمیر مضاف الیہ۔ مضاف ،مضاف الیہ سے ملکر حَسَنٌ کا فاعل، حَسَنٌ صفت مشبہ اپنے فاعل سے ملکر شبہ جملہ ہوکر خبر ،مبتدا خبر ملکر جملہ اسمیہ۔
1۔۔۔۔۔۔صفت مشبہ عمل میں اپنے فعل مشتق منہ کی طرح ہے۔