اسلام

اجوف کے قواعد

قا عد ہ (۱): 
    اگر فتحہ کے بعد واؤ یا یاء متحرک آجائے تو اسے چند شرائط کے ساتھ الف سے بدلنا واجب ہے ۔ جیسے:قَوَلَ سے قَالَ، بَیَعَ سے بَاعَ۔ شرائط یہ ہیں :
    (۱)۔۔۔۔۔۔ واؤ یا یاء کا ما قبل حرفِ مفتوح اُسی کلمہ میں ہو ۔لہذا سَیَقُوْلُ میں یاء کوالف سے نہیں بدلیں گے ؛کیونکہ اس کاما قبل حرف ِمفتوح (س)اسی کلمہ میں نہیں ہے۔
    (۲)۔۔۔۔۔۔وہ دونوں(واؤ یا یاء)فاء کلمہ میں نہ ہوں ۔لہذا تَوَفّٰی، تَیَسَّرَ۔ میں واؤ اور یاء کو الف سے نہیں بدلا جائے گا۔ 
     (۳)۔۔۔۔۔۔ ان دونوں کے بعد یاء مشدد یا نونِ تاکید نہ ہو ۔ جیسے: رَضَوِیٌّ، اِخْشَیَنَّ۔
    (۴)۔۔۔۔۔۔یہ دونوں فَعَلاَنٌ، فَعَلٰی،یافَعَلَۃٌ کے وزن پر آنے والے کلمہ میں نہ ہوں ۔ جیسے: حَیَوَانٌ، حَیَدٰی، حَوَکَۃٌ۔
     (۵)۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ایسے کلمہ میں نہ ہو ں جس میں رنگ یا عیب کا معنی پایاجائے۔ جیسے: عَوِرَ، صَیِدَ ۔
     (۶)۔۔۔۔۔۔ ان دونوں کے بعد تثنیہ یاجمع مؤنث سالم کا الف نہ ہو ۔ جیسے: عَصَوَانِ، رَمَیَا، عَصَوَاتٌ۔     (۷)۔۔۔۔۔۔ ان دونوں کی حرکت عارضی نہ ہو۔ جیسے: لَوِاسْتَنْصَرَ ، اس میں واؤ کی حرکت عارضی ہے ۔
    (۸)۔۔۔۔۔۔ان میں سے کوئی لفیف کے عین کلمہ میں نہ ہوں ۔ جیسے: طَوٰی، حَیِیَ۔
    (۹)۔۔۔۔۔۔یہ دونوں جس کلمے میں ہوں وہ ایسے کلمہ کاہم معنی نہ ہو جس میں تعلیل نہیں ہوتی ۔ جیسے: اِجْتَوَرَ، اِعْتَوَرَ۔
    ان مثالوں میں اِجْتَوَرَ، تَجَاوَرَ کے معنی میں ہے یعنی دونوں کا ایک ہی معنی ہے (ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنا )اور اِعْتَوَرَ، تَعَاوَرَ کے معنی میں ہے (باری باری لینا )اور تَجَاوَرَاورتَعَاوَرَ میں تعلیل نہیں ہوتی ؛کیونکہ ان دونوں میں واؤ متحرک کا ما قبل مفتوح نہیں بلکہ الف ساکن ہے ۔
    (۱۰)۔۔۔۔۔۔ان دونوں کے بعد مدہ زائدہ نہ ہو ۔ جیسے: طَوِیْلٌ، غَیُوْرٌ، غَیَابَۃٌ۔
قا عد ہ (۲): 
    واؤ یایاء کا ماقبل حرف صحیح ساکن ہوتو ان کی حرکت ماقبل کو دینا واجب ہے ۔ جیسے: یَقْوُلُ سے یَقُوْلُ اور یَبْیِعُ سے یَبِیْعُ۔
    اگر یہ حرکت فتحہ ہو تو واؤ یا یاء کو الف سے بدلنا بھی واجب ہے۔ جیسے:یُقْوَلُ سے یُقَالُ اوریُبْیَعُ سے یُبَاعُ، بشرطیکہ قاعدہ نمبر (۱)کی شرائط کے ساتھ ساتھ درج ذیل چھ 6 شرائط بھی اس میں پائی جائیں ۔
    (۱)۔۔۔۔۔۔واؤ اور یاء کے بعد حرف ساکن نہ ہو ۔لہذا مِقْوَالٌ۔میں یہ اصول جاری نہیں ہوگا۔
    (۲)۔۔۔۔۔۔واؤ اور یاء والا کلمہ اسم تفضیل نہ ہو ۔ جیسے: اَقْوَلُ، اَبْیَعُ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔وہ کلمہ فعل تعجب نہ ہو ۔ جیسے: مَا اَقْوَلَہٗ۔
    (۴)۔۔۔۔۔۔وہ کلمہ صفت مشبہ بروزن اَفْعَلُ نہ ہو ۔ جیسے: اَسْوَدُ۔
    (۵)۔۔۔۔۔۔وہ کلمہ ملحق نہ ہو ۔ جیسے: شَرْیَفَ، جَہْوَرَ۔
    (۶)۔۔۔۔۔۔وہ کلمہ اسم آلہ نہ ہو ۔ جیسے: مِقْوَلٌ۔
قا عد ہ (۳): 
    واؤاوریاء کے ساکن ہوجانے یاالف سے بدل جانے کی صورت میں اگران کامابعد ساکن ہو تو یہ تینوں اجتماعِ ساکِنَین کے سبب گر جاتے ہیں ۔ جیسے: یَقْوُلْنَ سے یَقُلْنَ، یَبْیِعْنَ سے
یَبِعْنَ اور یُقْوَلْنَ سے یُقَلْنَ، یُبْیَعْنَ سے یُبَعْنَ۔
قا عد ہ (۴): 
    ماضی مجہول میں واؤ یا یاء مکسور ماقبل مضموم ہو اور ماضی معروف میں تعلیل بھی ہو چکی ہو تو اسے دو طریقوں سے پڑھنا جائز ہے ۔
    (۱)۔۔۔۔۔۔ ما قبل کو ساکن کرکے ان کی حرکت اس کی طرف منتقل کردیں۔اس صورت میں واؤ یاء سے بدل جائے گی۔ جیسے:قُوِلَ سے قِیْلَ، بُیِعَ سے بِیْعَ۔
    (۲)۔۔۔۔۔۔ واو ء یا یاء کو ساکن کر دیں۔ اس صورت میں یاء، واو سے تبدیل ہو جائے گی ۔ جیسے: قُوِلَ سے قُوْلَ ، بُیِعَ سے بُوْعَ۔
قا عد ہ (۵): 
    جب اجوف کی ماضی معروف یامجہول میں عین کلمہ اجتماع ساکنین کی وجہ سے گر جائے توفاء کلمہ کو ضمہ دیاجائے گا(جبکہ اجوف واوی مفتوح العین یا مضموم العین ہو)جیسے: قَوَلْنَ سے قُلْنَ، طَوُلْنَ سے طُلْنَ، قُوِلْنَ سے قُلْنَ ، طُوِلْنَ سے طُلْنَ۔ ورنہ (جبکہ اجوف یائی ہو یا اجوف واوی مکسور العین ہو تو)کسر ہ دیں گے ۔جیسے: خَوِفْنَ سے خِفْنَ، بَیَعْنَ سے بِعْنَ، بُیِعْنَ سے بِعْنَ، خُوِفْنَ سے خِفْنَ۔
 نوٹ:
    اس طر ح ماضی معروف اور ماضی مجہول کے صیغے بظاہر ایک سے ہو جائیں گے ۔
         قا عد ہ (۶): 
    جو حرف علت اجتماع ساکنین کی وجہ سے گر جائے، اجتماع ساکنین ختم ہو جانے کی صورت میں اسے واپس لانا واجب ہے ۔ جیسے:بِعْ کاتثنیہ بِیْعَا بنے گا۔ 
قا عد ہ (۷): 
    باب اِفْعَالٌ اوراِسْتِفْعَالٌ کے مصدر میں عین کلمہ کی جگہ اگر واؤ یا یاء ہوتو واو ئیایاء کی حرکت ما قبل کی طرف نقل کرکے واؤ اور یاء کو الف سے بدل کر حذف کریں اور اس کے عوض آخر میں تاء کا اضافہ کردیں ۔جیسے:اِقْوَامٌ سے اِقَامَۃٌ ، اوراِسْتِقْوَامٌ سے اِسْتِقَامَۃٌ۔
قا عد ہ (۸): 
    مصد ر کا عین کلمہ واؤ ہو اور اس کا ما قبل مکسور ہو تو واؤ کو یاء سے بدلنا واجب ہے بشرطیکہ اس کے فعل ماضی میں تعلیل ہو چکی ہو ۔ جیسے:صِوَامٌ سے صِیَامٌ۔ (اس کا فعل ماضی ”صَامَ”ہے جس میں تعلیل ہوچکی ہے کیونکہ یہ اصل میں ”صَوَمَ”تھا)
تنبیہ:
    باب مُفَاعَلَۃٌکے مصدر قِوَامٌ میں واؤ کو یاء سے تبدیل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی ماضی(قَاوَمَ)میں تعلیل نہیں ہوتی ۔
قا عد ہ (۹): 
    ہر وہ مصدر جو فَعْلُوْلَۃٌ کے وزن پر ہو اور اس کے عین کلمہ میں واؤ آجائے تو اسے یاء سے بدل دیا جاتا ہے ۔ جیسے:کَوْنُوْ نَۃٌ سے کَیْنُوْنَۃٌ۔
قا عد ہ (۱۰): 
    ہر وہ واؤ اور یاء جو اسم فاعل کے عین کلمہ میں ہو اسے ہمزہ سے بدلنا واجب ہے
بشرطیکہ اس کی ماضی میں تعلیل ہو چکی ہو ۔ جیسے: قَاوِلٌ سے قَائِلٌ، بَایِعٌ سے بَائِعٌ۔
تنبیہ:
    ”مُقَاوِمٌ” میں واو کو ہمزہ سے نہیں بدلیں گے کہ اس کی ماضی میں تعلیل نہیں ہوئی۔
قا عد ہ (۱۱): 
     ہر وہ واؤ جو دوسرے حرف سے بدلی ہوئی نہ ہو اگر کسی غیر ملحق کلمہ میں یاء کے ساتھ جمع ہو جائے اور ان میں پہلا حرف (واؤ ہویا یاء)ساکن ہو تو واؤ کو یاء سے بدل کر یاء کا یاء میں ادغام کرنا واجب ہے ۔ جیسے:جَیْوِدٌ سےجَیِّدٌ، سَیْوِدٌ سے سَیِّدٌ۔
قا عد ہ (۱۲): 
    وہ واؤ جو جمع کے عین کلمہ میں کسرہ کے بعد واقع ہو اسے یاء سے بدلناواجب ہے۔ جیسے: جِوَادٌ سے جِیَادٌ۔( جَیِّدٌکی جمع)رِوَاضٌ سے رِیَاضٌ۔( رَوْضٌکی جمع) 
قا عد ہ (۱۳): 
    فعل مضارع کے علاوہ اگرواؤ مضمو م غیر مشدد،عین کلمہ میں آئے اور اس کا ضمہ لازمی ہو(دوسرے حرف سے نقل ہوکر نہ آیا ہو) تو اسے ہمزہ سے تبدیل کر دینا واجب ہے۔ جیسے: اَدْوُرٌ سے اَدْءُ رٌ۔(دَارٌکی جمع)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!