اسلام
قیدیوں کی رہائی
آپ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صردچند معززین کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیران جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مؤثر تقریر کی،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
اے محمد!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حلیمہ کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی(رضاعی)پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔
زہیر کی تقریر سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت زیادہ متأثر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت زیادہ انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بہت زیادہ دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں۔ میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نماز ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیران جنگ کی رہائی ہو گئی۔(1)(سیرتِ ابن ہشام ج۴ ص۴۸۸ و ص۴۸۹)
بخاری شریف کی روایت یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دس دنوں تک ”ہوازن” کے وفد کا انتظار فرماتے رہے۔ جب وہ لوگ نہ آئے تو آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس کے بعد جب ”ہوازن” کا وفد آیا اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کرکے یہ درخواست پیش کی کہ ہمارے مال اور قیدیوں کو واپس کر دیا جائے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سچی بات ہی پسند ہے۔ لہٰذا سن لو! کہ مال اور قیدی دونوں کو تو میں واپس نہیں کرسکتا۔ ہاں ان
دونوں میں سے ایک کو تم اختیار کر لو یا مال لے لویا قیدی۔ یہ سن کر وفد نے قیدیوں کو واپس لینا منظور کیا۔ اس کے بعد آپ نے فوج کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ
اے مسلمانو! یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں ا ور میری یہ رائے ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں تو تم میں سے جو خوشی خوشی اس کو منظور کرے وہ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ ان قیدیوں کے بدلے میں دوسرے قیدیوں کو لے کر ان کو واپس کرے تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ مجھے جو غنیمت عطا فرمائے گا میں اس میں سے اس کا حصہ دوں گا۔ یہ سن کر ساری فوج نے کہہ دیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم سب نے خوشی خوشی سب قیدیوں کو واپس کر دیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح پتا نہیں چلتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم لوگ اپنے اپنے چودھریوں کے ذریعہ مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہر قبیلہ کے چودھریوں نے دربار رسالت میں آ کر عرض کر دیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے خوش دلی کے ساتھ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دیا ہے۔(1)(بخاری ج۱ ص۳۴۵ باب من ملک من العرب و بخاری ج۲ ص۳۰۹ باب الوکالۃ فی قضاء الدیون و بخاری ج۲ ص۶۱۸)