بے ادبوں سے دوری میں عافیت
بے ادبوں سے دوری میں عافیت
حضرت سیدناعبداللہ الصنعانی قدس سرّہ الربّانی حضرت سیدنا حوثرہ بن محمد المقری علیہ رحمۃ اللہ الغنی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا یزیدبن ہارون واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے اِنتقال کے بعد چار راتیں گزر گئیں پھر میں نے انہیں خواب میں دیکھا تو پوچھا : ”مَافَعَلَ اللہُ بِکَ ”یعنی اللہ عزوجل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمانے لگے کہ میرے رحیم وکریم پروردگار عزوجل نے میری نیکیاں قبول فرمالیں اور میرے گناہ معاف فرمادیئے اورمجھے بہت سارے خُدّام عطا فرمائے۔ میں نے پوچھا: ”پھر اس کے بعد کیا ہو ا؟فرمایا:” کریم کرم ہی کرتا ہے، میرا مولیٰ عزوجل بہت کریم ہے، اس نے میرے سارے گناہ معاف فرمادیئے اور مجھے جنت میں داخل فرمادیا ۔”میں نے پوچھا:” آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کو یہ مقام ومرتبہ کِن اَعمال کی بدولت حاصل ہوا؟”
آپ نے ارشادفرمایا:”ان پانچ چیزوں کے سبب حاصل ہوا:(۱)۔۔۔۔۔۔اجتماعِ ذکرمیں شرکت (۲)۔۔۔۔۔۔گفتگومیں سچائی (۳)۔۔۔۔۔۔ حدیث بیان کرنے میں امانت وصدق سے کام لینا(۴)۔۔۔۔۔۔نمازمیں طویل قیام کرنا(۵)۔۔۔۔۔۔تنگدستی اور فقرو فاقہ کی حالت میں صبروشکرکرنا۔”
میں نے پوچھا:” منکر نکیرکا معاملہ کیسا رہا ؟” فرمایا :”اُس اللہ عزوجل کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہی عبادت کے لائق ہے !منکر نکیر میری قبر میں آئے اور مجھے کھڑا کرکے سوالات کرنے شروع کردئیے:”(۱) تیرا رب عزوجل کون ہے ؟(۲) تیرا دین کیا ہے ؟(۳) تیرانبی(علیہ السلام) کون ہے ؟” ان کے یہ سوالات سن کرمیں نے اپنی سفید داڑھی سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہا: ”اے فرشتو ! کیا تم مجھ سے سوال کرتے ہو؟میں یزید بن ہارو ن واسطی ہوں،میں دنیا میں(اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر) ساٹھ سال تک لوگو ں کو علمِ دین سکھاتا رہا ہوں۔” میری یہ بات سن کر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا:” اس نے سچ کہا ہے،یہ واقعی یزید بن ہارو ن واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی ہیں۔” پھر مجھ سے کہا :” اب تودُلہن کی طر ح سکون کی نیند سوجا ،آج کے بعد تجھے کسی قسم کا غم وخوف نہ ہوگا ۔”
پھر دو سرے فرشتے نے مجھ سے پوچھا:” کیا تُو نے جریر بن عثمان سے بھی کوئی حدیث سیکھی ہے ؟” میں نے کہا:” ہاں! وہ تو حدیث میں ثقہ(یعنی پختہ) راوی ہے۔” اس فر شتے نے کہا :”یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ ثقہ راوی ہے لیکن وہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم سے بغض رکھتا ہے اس لئے وہ اللہ عزوجل کے ہاں ناپسندیدہ شخص ہے ۔”
حضرت سید نا یز ید بن ہارون واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو خواب میں دیکھنے والا واقعہ اس طر ح بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک
شخص حضرت سیدنا احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہو اور عرض کی :”حضور! میں نے حضرت سیدنا یزید بن ہارو ن واسطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو خواب میں دیکھا تو پوچھا:” مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عزوجل نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟” تو انہوں نے جواب دیا:” میرے پاک پروردگار عزوجل نے میرے گناہوں کو بخش دیا، مجھ پر خوب کرم فرمایا لیکن مجھ پر عتاب بھی ہوا۔” مَیں ان کی یہ بات سن کر متعجب ہواا ور پوچھا:” آپ کی مغفرت بھی ہوگئی، آپ پر رحم بھی کیا گیا پھر عتا ب بھی ہوا ؟”توانہوں نے جواباً فرمایا : ”ہاں ! مجھ سے پوچھا گیا کہ اے یزید بن ہارو ن واسطی ! کیا تُو نے جریر بن عثمان سے کوئی حدیث نقل کی ہے ؟ ”میں نے کہا:’ ‘ہاں! اللہ ربُّ العزَّت عزوجل کی قسم! میں نے اس میں ہمیشہ بھلائی ہی پائی۔” پھر مجھ سے کہا گیا:”مگر وہ ابوالحسن حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم سے بغض رکھتاتھا۔”
؎ محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
(اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل !ہمیں تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تمام اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی سچی محبت عطا فرما، ہمارے دلوں کو ان کی محبت سے معمور فرما، ان کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فرما، تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان پر خوب رحمتوں کی برسا ت فرما اور ان پاکیزہ ہستیوں کے صدقے ہماری مغفرت رما۔آمین بجاہ النبی ا لامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)