اسلام
ھا کا بیان
قرآن مجید میں بعض کلمات کے آخر میں گول ھا ( ہ) کا استعمال ہوا ہے بنیادی طور پر ہاء کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں ۔
(۱)ھائے اصلیہ (۲)ھائے زائدہ
(۱)ھائے اصلیہ : کسی کلمے کی وہ ”ھا ”جو خود اس کلمے کی ہو اُسے ھائے اصلیہ کہتے ہیں مثلاً اللہ ، غَیْرِ مُتَشَابِہٍ وغیرہ کی ھا
(۲)ھائے زائدہ: کسی کلمے کی وہ ھا جو خود اس کلمے کی نہ ہو اسے ھائے زائدہ کہتے ہیں اسکی مندرجہ ذیل تین اقسام ہیں۔
(i) ھائے ضمیر (ii) ھائے سکتہ (iii) ھائے مُدَوَّرہ
(i)ھائے ضمیر : وہ ھا جو اسم ظاہر کی جگہ استعمال ہوتی ہے وہ ہائے ضمیر کہلاتی ہے ۔ مثلاً عَلَیْہ
ھائے ضمیر کا اعراب : ھائے ضمیر مضموم یا مکسور ہوتی ہے مفتوح نہیں ہوتی۔
مکسور ہونے کی صورت: ھا سے پہلے اگر کسرہ یایائے ساکنہ ہوتو ھائے ضمیر مکسور ہوگی مثلاً بِہٖ ، عَلَیہٖ
نوٹ : اس قاعدے سے چار کلمات مستثنیٰ ہیں ۔(دو جگہ مضموم ہوگی اوردوجگہ ساکن ہوگی) (۱) وَمَآاَنْسانِیہُ (۲) عَلَیْہُ اللہَ (۳) اَرْجِہْ (۴) فَاَلْقِہْ
مضموم ہونے کی صورت : ھائے ضمیر سے پہلے اگر ضمّہ یا فتحہ یا یائے
ساکنہ کے علاوہ اورکوئی ساکن حرف ہوتو ھائے ضمیر مضموم ہوگی۔
مثلاً اِسْمُہ، ، لَہٗ ، مِنْہ،
نوٹ : مگر اس قاعدے سے ایک کلمہ مستثنیٰ ہے ۔ وَیَتَّقْہٖ
مدّہ کرنا : بعض اوقات ھائے ضمیری کے ضمّہ کو ضَمّہ اشباعی سے اورکسرہ کو کسرہ اشباعی سے بدل دیتے ہیں ۔
قاعدہ : اگرھائے ضمیر کا مابعد اورماقبل دونوں متحرک ہوں تو ھائے ضمیر کی حرکت کو کھینچ کر پڑھیں گے یعنی مدّکرینگے مثلاً وَمَا لَہٗ فِی الآخِرَۃِ ، وَرَسُوْلُہٗ اَحَقُّ
نوٹ: اس قاعدے سے ایک کلمہ مستثنیٰ ہے ۔ یَرْضَہُ لَکُمْ
مدّہ نہ کرنا : قاعدہ : ھائے ضمیر کے ما قبل یا مابعد میں سے کوئی حرف ساکن ہو تو ھائے ضمیر میں مدّہ نہ ہوگا۔ مثلاً مِنْہُ ، لَہُ الْمَلْک
مگر اس قاعدے سے ایک کلمہ مستثنٰی ہے ۔ فِیْہٖ مُھَا نًا
(ii)ھائے سکتہ: کلمے کے آخر میں وہ ”ھا ئ” جو کلمے کی آخری حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اس کا کوئی معنٰی نہیں ہوتا اسے ھائے سکتہ کہتے ہیں۔ یہ وقفاً و وصلاً ساکن پڑھی جاتی ہے ۔ پورے قرآن مجید میں نوکلمات کے آخر میں ہائے سکتہ کا اضافہ کیا گیا ہے وہ کلمات یہ ہیں ۔
(i)لَمْ یَتَسَنَّہْ(ii)مَالِیَہْ(iii)سُلْطَانِیَہْ(iv)مَاھِیَہْ(v)فَبِھُدٰھُمُ اقْتدِہْ
(vi)حِسَابِیَہْ (دومرتبہ) (vii)کِتَابِیَہْ(دومرتبہ آیاہے)
نوٹ : سورہ بقرہ میں لَمْ یَتَسَنَّہْ ۔ سورہ انعام میں فَبِھُدٰھُمُ اقْتدِہْ۔ سورۃ الحاقہ میں دو جگہ کِتٰبِیَہْ دو جگہ حِسَابِیَہْ اورمَالِیَہْ اورسُلْطٰنِیَہْ اورسورۃ القارعہ میں مَاھِیَہْ
(iii) ھائے تانیث: جو اسم واحد مونث کے آخر میں لاحق ہوتی ہے اورعلامت تانیث ہوتی ہے یہ وصل میں تاپرھی جاتی ہے اوروقف میں ہائے ساکنہ سے بدل جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسے ہائے تانیث کہتے ہیں۔
مثلا جَنَّۃٌ سے حالت وقف میں جَنَّہْ اور اَلْحُطَمَۃِ سے حالت وقف میں اَلْحُطَمَہْ