اسلام

درج ذیل صورتوں میں فاعل کو مفعول پر مقدم کرنا ضروری ہے

   ۱۔ جب فاعل ضمیر مرفوع متصل ہو ۔جیسے :أَکَلْتُ خُبْزاً۔
    ۲۔ جب فاعل اور مفعول میں اعراب اور قرینہ(۱)دونوں منتفی ہوں جوان میں سے کسی ایک کے فاعل اور ایک کے مفعول ہونے پر دلالت کرے۔جیسے: سَلَّمَ مُوْسٰی عِیْسٰی۔
یہاں مُوْسٰی کو فاعل بنانا واجب ہے ۔
    ۳۔ جب مفعول اِلَّاکے بعد واقع ہورہاہو۔ جیسے: مَا أَکَلَ زَیْدٌ اِلاَّ زُبْداً۔
درج ذیل صورتوں میں مفعول کو فاعل پر مقدم کرنا ضروری ہے: 
    ۱۔جب مفعول ضمیر منصوب متصل ہو اور فاعل اسم ظاہر ہو۔جیسے:جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ۔
    ۲۔جب فاعل اِلَّاکے بعد واقع ہورہاہو۔جیسے: مَا قَطَفَ الْاَزْھَارَ اِلَّا الْاَوْلَادُ۔
    ۳۔جب فاعل کے ساتھ ایسی ضمیر متصل ہو جومفعول کی طرف راجع ہو۔جیسے:ضَرَب لِصَّاً رَفِیْقُہ،۔
فائدہ:
    جب فاعل یا مفعول میں سے کسی کووجوباً مقدم کرنے کی صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہ پائی جائے تو ان دونوں میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔جیسے: رَأی زَیْدُنِ الْجَامُوْسَ یارَأی الْجَامُوْسَ زَیْدٌ، أَکَلَ یَحْیٰی الْکُمَّثْرَی یا أَکَلَ الْکُمَّثْرَی یَحْیٰی، ضَرَبَتِ الْحُبْلٰی الْفَتَی یا ضَرَبَتِ الْفَتَی الْحُبْلٰی۔
1۔۔۔۔۔۔قرینہ وہ چیز کہلاتی ہے جو بغیر وضع کے کسی شئ پر دلالت کرے۔جیسے:أَکَلَ الْکُمَّثْرَی یَحْیٰ۔ میں الْکُمَّثْرَی کا ازقبیل مأکول اور یَحْیٰ کا ازقبیل اٰکل ہونااس بات پر دلالت کرتاہے کہ یَحْیٰ فاعل ہے اوراَلْکُمَّثْرَی مفعول ہے۔اسی طرح ضَرَبَتِ الْفَتَی الْحُبْلٰی۔میں فعل کا مؤنث ہونااس بات پر دلالت کررہاہے کہ فاعل اَلْحُبْلٰی ہے اور مفعول اَلْفَتَی ہے۔پہلی مثال میں قرینہ معنویہ ہے اور

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!