حضرتِ علی کو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصیحت:
حضرتِ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم کو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصیحت:
حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:” وہ صبح انتہائی ٹھنڈی اورشدید سرد تھی ، میں اورفاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک ہی چادر میں محو ِ آرام تھے۔ جب ہم نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی مبارک آواز سنی تو جلدی سے کھڑے ہونے
لگے مگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہمیں دیکھ کر ارشادفرمایا:” میں تمہیں اپنے حق کاواسطہ دیتا ہوں کہ اسی حالت میں رہویہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ شامل ہو جاؤں۔”حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ہم اسی حالت میں رہے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آکرہمارے سرو ں کے قریب تشریف فرما ہو گئے اور اپنے قدمینِ شریفین ہمارے درمیان رکھ دےئے تو میں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دایاں پاؤں پکڑ کر سینے سے لگالیا اورحضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے بایاں پاؤں تھام لیا۔پھر ہم دونوں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قدمینِ شریفین کو سردی سے بچانے کے لئے ملنے لگے حتی کہ وہ گرم ہو گئے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہمیں دعائے خیر دی اور پھر حضر تِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باہر جانے کا حکم دیا۔جب وہ چلے گئے توحضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے پوچھا : ”اے میری بیٹی! تو نے اپنے شوہر کو کیسا پایا ؟” انہوں نے جواب دیا:”وہ بہترین شوہر ہیں۔” پھرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضر تِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور ارشاد فرمایا:” اپنی زوجہ سے نرمی سے پیش آنا، بے شک فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میرے جسم کا ٹکڑا ہے،جو چیز اسے دکھ دے گی مجھے بھی دُکھ دے گی اور جو اسے خوش کرے گی مجھے بھی خوش کرے گی،میں تم دونوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کرتا ہوں،اور تم دونوں کو اس کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ اس نے تم سے ناپاکی دور کردی اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھر ا کر دیا۔”
حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہ، الْکَرِیْم فرماتے ہیں:” اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اس حکمِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے بعد میں نے نہ تو کبھی حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاپر غصہ کیا اور نہ ہی کسی بات پرانہیں ناپسند کیا یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلّ َنے ان کو اپنے پاس بلا لیا،بلکہ وہ بھی کبھی مجھ سے ناراض نہ ہوئیں اور نہ ہی کسی بات میں میری نافرمانی کی اور جب بھی میں ان کو دیکھتا تووہ میرے دکھ درد دُور کرتی دکھائی دیتیں ۔”
وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن