اسلامواقعات

شق ا لقمر

شق ا لقمر

 

معجزۂ شق القمر قرآنِ کریم کی آیۂ ذیل سے ثابت ہے :

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ (۱) وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَةً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ (۲) (سورۂ قمرشروع)
پاس آلگی و ہ گھڑی اور پھٹ گیا چاند اور اگر وہ دیکھیں کوئی نشانی تو ٹال دیں اور کہیں یہ جادو ہے چلا آتا۔ (1 )
پہلی آیت کا یہ مطلب ہے کہ قیامت قریب آگئی اور دنیا کی عمر کا قلیل حصہ باقی رہ گیا کیونکہ ’’ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ ‘‘ جو منجملہ علامات قیامت تھا وقوع میں آگیا۔ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ سے مراد یہ ہے کہ شق القمر کا وقوع بالفعل حضور ِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں ہوچکا۔ اس معنی کی تائید حضرت حُذَیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی قرأت سے ہوتی ہے۔و قد انشق القمر ( اورحال یہ کہ چاند پھٹ چکا) کیونکہ اس صورت میں یہ جملہ حال ہوگااور قیامت سے پہلے اقتراب ساعت اور وقو ع انشقاق میں مقارنت کا مقتضی ہوگا اور اس معنی کی تائید مابعد سے ہوتی ہے کیونکہ اس کا مقتضا یہ ہے کہ شق القمر ایک معجزہ ہے جسے کفار قریش نے دیکھا اور ٹال دیااور اس سے پہلے بھی وہ پے درپے معجزات دیکھ چکے تھے کہ اسے دیکھ کر سحر مستمر بتانے لگے۔ اسی معنی پر مفسرین کا اجماع ہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں بصراحت تام یہ قصہ مذکور ہے کہ رات کے وقت کفارِ قریش نے حضورِ اقدس صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کوئی نشان طلب کیا جو آپ کی نبوت پر شاہد ہو، آپ نے ان کو یہ معجزہ دکھلایا۔ اس معجزے کے راوی حضرت علی، ابن مسعود، حُذَیفہ، ابن عمر، ابن عباس اور اَنَس وغیرہ ہیں ۔رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ ان میں سے پہلے چار صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے تو بچشم خود دیکھا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ (2 ) ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر اور دوسرا دوسرے پہاڑ پر تھا۔ یہ وہ معجزہ ہے کہ کسی دوسرے پیغمبر کے لئے وقوع میں نہیں آیااور بطریق تواتر ثابت ہے۔
سوال: کیا اہل مکہ کے سوااور لوگوں نے بھی شق القمر دیکھا؟
جواب: اہل مکہ کے علاوہ اَطراف سے آنے والے مسافروں نے بھیشَقَّ الْقَمَرُ کی شہادت دی۔ چنانچہ مسند (3 ) ابو داؤد

طیالسی (متوفی ۲۰۴ھ ) میں بروایت حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمذکو ر ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں چاند پھٹ گیا۔ کفارِ قریش نے دیکھ کر کہا کہ یہ ابو کبشہ ( 1) کے بیٹے کا جادو ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: مسافر جو آئیں گے ان سے پوچھیں گے دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں کیونکہ (حضرت) محمد کا جادو تمام لوگوں پر نہیں چل سکتا۔ چنانچہ مسافر آئے اور انہوں نے کہا کہ ’’ ہم نے بھی شق القمر دیکھا ہے۔ ‘‘ (2 ) اگر بالفرض بعض جگہ نظر نہ آیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اِختلاف مطالع کے سبب بعض مقامات میں چاند کا طلوع ہوتا ہی نہیں اسی لئے چاند گہن سب جگہ نظر نہیں آتا اور بعض دفعہ دوسری جگہوں میں ابریا پہاڑ وغیرہ چاند کے آگے حائل ہوجاتا ہے۔
سوال: …شق القمر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے زمانے میں وقوع میں آیا۔ جسے اب تیرہ سو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں تو یہ کس طرح قرب قیامت کا نشان ہوسکتا ہے جواب تک نہیں آئی؟
جواب: …حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وجود مبارک اور آپ کی نبوت قرب قیامت کی علامات میں سے ہے یعنی اس امر کاایک نشان ہے کہ دنیا کی عمر کا اکثر حصہ گزرچکا ہے اور بہت تھوڑا باقی رہ گیا ہے، چنانچہ صحیحین میں ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’ بُعِثْتُ اَنَا وَ السَّاعَۃُ کَھَاتَینِ ‘‘ (3 ) یعنی میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی مانند ہیں کہ جس قدر و سطی (درمیانی انگلی) سبابہ (شہادت کی انگلی) سے آگے ہے قیامت سے پہلے میرا مبعوث ہونا بھی اسی کی مانند ہے کہ میں پہلے آگیا ہوں او ر قیامت میرے پیچھے آرہی ہے۔جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت قرب قیامت کی علامت ہوئی تو شق القمر کا بالفعل وقوع بھی جو آپ کی نبوت کی دلیل ہے قرب قیامت کانشان ٹھہرا۔

 

________________________________
1 – ترجمۂکنزالایمان:پاس آئی قیامت اور شق ہوگیا چاند اور اگر دیکھیں کوئی نشانی تو منھ پھیرتے اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے چلا آتا۔ (پ۲۷،القمر:۱۔۲)۔ علمیہ
2 – بعض قصہ خواں بیان کرتے ہیں کہ چاند جناب رسالت مآبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جیب میں داخل ہوا اور آستین سے نکل گیا مگر یہ بے اصل ہے۔۱۲منہ
3 – مسند ابو داؤد طیالسی، مطبوعہ دائرۃالمعارف النظامیہ حیدر آباد دکن، جز ء اول، ص ۳۸۔۱۲منہ

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!