اسلامواقعات

حضرت مقداد بن الاسودکندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت مقداد بن الاسودکندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

ان کے والد کا نام عمروبن ثعلبہ تھا۔ اسود کے بیٹے اس لئے کہلانے لگے کہ اسود بن عبدیغوث زہری نے ان کو اپنا متبنی بنا لیا تھا ۔ اس لئے اس کی طرف منسوب ہوگئے اور چونکہ قبیلۂ بنی کندہ سے انہوں نے محالفہ کرلیا تھا اوران کے حلیف بن گئے تھے اس لئے اس نسبت سے اپنے کو کندی کہنے لگے ۔ ان کی کنیت ”ابو معبد”یا ”ابو الاسود” ہے اوریہ قدیم الاسلام ہیں ۔ مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے ۔ پھر حبشہ سے مکہ مکرمہ واپس چلے آئے مگر مدینہ منورہ کو ہجرت نہیں کرسکے کیونکہ کفار نے ہر طرف سے ناکہ بندی کر کے مدینہ منورہ کا راستہ بند کردیا تھا یہاں تک کہ جب حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک چھوٹا سا لشکر لے کر مدینہ منورہ سے عکرمہ بن ابو جہل کے لشکر سے لڑنے کے لئے آئے تو یہ اورحضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کافروں کے لشکرمیں شامل ہوگئے اوربھاگ کر مسلمانوں سے مل گئے اور اس طرح مدینہ منورہ ہجر ت کر کے پہنچ گئے ۔ یہ وہی حضرت ”مقدادبن الاسود”ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا تو انہوں نے بآواز بلند یہ کہا کہ یا رسول اللہ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) ہم بنی اسرائیل نہیں ہیں جنہوں نے اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جنگ کے وقت

یہ کہا تھا کہ ”آ پ اورآپ کا خدا دونوں جاکر جنگ کریں ہم تو اپنی جگہ بیٹھے رہیں گے۔” بلکہ ہم تو آپ کے وہ جاں نثار ہیں کہ اگرخداکی قسم!ہم کو آپ ”برک الغماد” تک لے جائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ چلیں گے اورہم آپ کے آگے ، آ پ کے پیچھے ، آپ کے دائیں ، آپ کے بائیں سے اس وقت تک لڑتے رہيں گے جب تک کہ ہمارے بدن میں خون کا آخری قطرہ اورزندگی کی آخری سانس باقی ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں سات اشخاص ایسے تھے جنہوں نے مکہ مکرمہ میں کفار کے سامنے سب سے پہلے علی الاعلان اپنے اسلام کا اعلان کیا ان میں سے ایک حضرت ”مقداد بن الاسود” رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو سات جاں نثار رفقاء دئیے ہیں لیکن مجھ کو حضرت حق جل مجدہ نے چودہ رفقاء کی جماعت عطا فرمائی ہے جن کی فہرست یہ ہے :

(۱) ابوبکر

(۲) عمر

(۳) علی

(۴) حمزہ

۵)جعفر

(۶) حسن
(۷)حسین

(۸)عبداللہ بن مسعود

(۹) سلمان

(۱۰) عمار

(۱۱)حذیفہ
۱۲) ابوذر

(۱۳) مقداد

(۱۴) بلا ل رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین

احادیث پاک میں ان کے فضائل ومناقب بہت کثیر ہیں ۔ یہ تمام اسلامی لڑائیوں میں جہاد کرتے رہے اور فتح مصر کی معرکہ آرائی میں بھی انہوں نے ڈٹ کر

کفارسے جنگ کی ۔

۳۳ھ؁ میں امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران مدینہ منورہ سے تین میل دور مقام ”جرف”میں ستر برس کی عمر پاکر وصال فرمایا اورلوگ فرط عقیدت سے اپنے کندھوں پر ان کے جنازہ مبارکہ کو ”جرف”سے اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اورجنت البقیع میں دفن کیا۔ (1)
(اکمال ، ص۶۱۲واسدالغابہ،ج۴،ص۴۱۰)

چوہے نے سترہ اشرفیاں نذر کیں

ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ یہ اس قدر تنگ دستی میں مبتلا تھے کہ درختو ں کے پتے کھایا کرتے تھے ۔ ایک دن ایک ویران جگہ میں رفع حاجت کے لیے بیٹھے تو اچانک ایک چوہا اپنے بل میں سے ایک اشرفی منہ میں لے کر نکلااور ان کے سامنے رکھ کر چلا گیا پھر وہ اسی طرح برابر ایک ایک اشرفی لاتا رہا یہاں تک کہ سترہ اشرفیاں لایا۔
یہ سب اشرفیوں کو لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اورپورا ماجرا عرض کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے اس مال میں کچھ صدقہ کرنا ضروری نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس مال میں برکت عطافرمائے ۔ حضرت ضباعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بیان ہے کہ ان میں سے آخری اشرفی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ میں نے

چاندی کے ڈھیر حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں دیکھ لئے ۔ (1)
(ابو نعیم فی الدلائل ، ج۲،ص۳۹۶)

تبصرہ

اس قسم کا واقعہ دوسرے بزرگوں کے لیے بھی ہوا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو بکربن الخاضبہ محدث بھی رات میں کچھ لکھ رہے تھے تو چوہے کا ایک جوڑا اچھلتا کودتا ان کے سامنے آیا، انہوں نے ایک کو پیالے سے ڈھانپ دیا۔اس کے بعد دوسرے چوہے نے بار بار ایک ایک اشرفی لاکر ان کے سامنے رکھنا شروع کیا یہاں تک کہ آخر میں ایک چمڑے کی تھیلی اٹھا لایا جس میں ایک اشرفی تھی ۔ اس سے انہوں نے سمجھ لیا کہ چوہے کے پاس اب کوئی اشرفی باقی نہیں رہ گئی ہے پھر انہوں نے پیالہ اٹھالیا اور چوہا نکل کر اپنے جوڑے کے ساتھ اچھلتا کودتابھاگ نکلا اور ان اشرفیوں کی بدولت حضرت ابوبکربن الخاضبہ کی تنگ دستی کا کال کٹ گیا او ر وہ خوشحال ہوگئے۔ (2)
(نفحۃ الیمن وغیرہ)
اس قسم کے واقعات کو رزاق مطلق کے فضل اور ان بزرگوں کی کرامت کے سوااورکیاکہا جاسکتاہے ؟

اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیۡنُ ﴿۵۸﴾ (3)

یعنی اللہ تعالیٰ بہت بڑا روزی رساں اور بہت بڑی قدرت اورطاقت کا مالک ہے ۔
ان بزرگوں نے شرف صحابیت سے سرفراز ہوکر خدا کے محبوب کی جس جذبۂ جاں نثاری کے ساتھ خدمت گزاری کی اوراس کے صلے میں حق جل جلالہ نے دنیا ہی میں ان شمع نبوت کے پروانوں کو ایسی ایسی کرامتیں عطافرمائیں ہیں جو یقینامحیر العقول ہیں اورابھی آخرت میں وہ رحیم وکریم مولیٰ اپنے فضل وکرم سے ان عاشقان رسول کو جو اجر عظیم عطافرمانے والاہے اس کو تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کی کمیت وکیفیت کی عظمت کا کیا عالم ہوگا۔ حدیث شریف کی روشنی میں بس اتناہی کہا جاسکتاہے: لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَمَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ(1) (یعنی ان نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی آدمی کے دل پر کبھی اس کا خیال گزرا۔)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!