اسلامواقعات

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یہ بھی عشرہ مبشرہ یعنی دس جنتی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی فہرست میں ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ولادت مبارکہ سے دس سال بعد خاندان قریش میں پیدا ہوئے۔ (1) ابتدائی تعلیم وتربیت اسی طرح ہوئی جس طرح سرداران قریش کے بچوں کی ہوا کرتی تھی ۔ ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ یمن کے ایک بوڑھے عیسائی راہب نے ان کو نبی آخرالزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ظہور کی خبردی اوریہ بتایا کہ وہ مکہ میں پیدا ہوں گے اور مدینہ منورہ کو ہجرت کریں گے ۔جب یہ یمن سے لوٹ کر مکہ مکرمہ آئے توحضرت ابو بکر صدیق رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اسلام کی ترغیب دی۔ چنانچہ ایک دن انہوں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔جبکہ آپ سے پہلے چند ہی آدمی آغوش اسلام میں آئے تھے چونکہ مسلمان ہوتے ہی آپ کے گھروالوں نے آپ پر ظلم وستم کا پہاڑ توڑنا شروع کردیااس لئے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے ۔ پھر حبشہ سے مکہ مکرمہ واپس آئے اوراپنا سارامال واسباب چھوڑ کر بالکل خالی ہاتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے ۔ مدینہ منورہ پہنچ کر آپ نے بازار کا رخ کیا اورچند ہی دنوں میں آپ کی تجارت میں اس قدر خیروبرکت ہوئی کہ آپ کا شمار دولت مندوں میں ہونے لگا اور آپ نے قبیلہ انصار کی ایک خاتون سے شادی بھی کرلی۔(2)
تمام اسلامی لڑائیوں میں آپ نے جان ومال کے ساتھ شرکت کی ۔ جنگ اُحد میں یہ ایسی جاں بازی اورسرفروشی کے ساتھ کفارسے لڑے کہ ان کے بدن پر
اکیس زخم لگے تھے اور ان کے پاؤں میں بھی ایک گہرازخم لگ گیا تھا جس کی و جہ سے یہ لنگڑا کر چلتے تھے ۔(1) آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ کا تجارتی قافلہ جو سات سو اونٹوں پر مشتمل تھا۔ آپ نے اپنا یہ پورا قافلہ مع اونٹوں اوران پر لدے ہوئے سامانوں کے خداعزوجل کی راہ میں خیرات کردیا۔
ایک مرتبہ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چارہزاردرہم پیش کردیئے۔ دوسری مرتبہ چالیس ہزار درہم اور تیسری مرتبہ پانچ سو گھوڑے ،پانچ سو اونٹ پیش کردئیے(2) بوقت وفات ایک ہزار گھوڑے اورپچاس ہزاردیناروں کا صدقہ کیا اور جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کیلئے چار چارسو دینار کی وصیت فرمائی(3) اورام المؤمنین حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور دوسری ازواج مطہرات کیلئے ایک باغ کی وصیت کی جو چالیس ہزار درہم کی مالیت کا تھا۔ (4)(مشکوٰۃ،ج۲،ص۵۶۷)
۳۲ھ؁میں کچھ دنوں بیمار رہ کر بہتّر سال کی عمرمیں وصال فرمایااور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے اورہمیشہ کے لیے سخاوت وشجاعت کایہ آفتاب غروب ہوگیا۔(5)(عشرہ مبشرہ،ص۲۲۹تا۲۳۵واکمال،ص۶۰۳وکنزالعمال،ج۱۵،ص۲۰۴)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!