توبہ سے ’’حق العباد ‘‘ معاف نہیں ہوتا
توبہ سے ’’حق العباد ‘‘ معاف نہیں ہوتا
توبہ کرنے سے جو چیز معاف ہو تی ہے وہ معصیت ہے کیونکہ نافرمانی کے بعد جب آدمی معذرت کرکے فرماں برداری کرنے کا اقرار کرتا ہے تو سابقہ نافرمانی قابل معافی سمجھی جا تی ہے ۔ مگر جو حق ذمہ پر ثابت ہو گیا وہ معاف نہیں ہوتا ۔ اگر کسی شخص نے نماز یں قضاء کی ہوں اس کے بعد توبہ کرکے نماز پڑھنا شروع کرے تو جن ایام کی نماز یں نہیں پڑپھیں ان کی قضاء کر نا ضروری ہے ۔اسی وجہ سے اگر نمازیں یا روزے بغیرہ کسی کے ذمہ باقی رہ گئے ہوںاوران کی اس نے قضاء نہیں کی تو بعد وصیت اسکے بدلہ میں مال دینے کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اور مثلاً اگرکسی نے رشوت سے توبہ کی تو معصیت معاف ہو جائے گی مگر جو مال لیا تھا وہ واپس کرنے کی ضرورت ہے ورنہ قیامت میں اس کا معا وضہ دلا یا جائے گا ۔ غرضکہ توبہ سے صرف معصیت کی معافی ہو سکتی ہے حقوق سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ حق تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے حقوق معاف کردے اور قادر ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کو بھی معاف کر وادے،مگر یہ قاعدہ نہیں ہو سکتا اوریہ نہیں کہہ سکتے کہ جس پر جو کچھ حقوق ہیں عموماً سب کو حق تعالیٰ معاف کر دے گا اور کروادے گا ،اگر ایسا ہو تو تمام مصالح تمد ن دہم وبرہم ہو جائیں گے ۔عقل ہرگز جائز نہیں رکھتی کہ ظالم اور مظلوم دونوں حق تعالیٰ کے نزدیک برابر اور قابل ترحم ہو ں !! رہا یہ کہ قرآن شریف میں ہے قل یا عبادی الذین اسرفوا علیٰ انفسہم لا تقنطو ا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعاً انہ ہو الغفورالرحیم یعنی ’’اے محمد ؐ !کہہ دو کہ اے گناہ گا رو اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو اللہ سب گنا ہوں کو بخشتا ہے وہ غفور و رحیم ہے ‘‘۔ سویہ ارشاد اس وقت ہوا تھا کہ بعض لوگوں نے اسلام لانے میں یہ عذر کیا تھا کہ ہم نے بڑے بڑے گناہ کئے اب اسلام لانے سے کیا فائدہ ؟ان کو جواب دیا گیا کہ خداے تعالیٰ سب گناہوں کو بخش سکتا ہے ۔چنانچہ اس آیت کے بعد ہی یہ آیت ہے و انیبو االی ربکم وأسلمو الہ جس کا مطلب یہ ہے کہ خداے تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائو اورا سلام لا ئو قبل اس کے کہ تم پرعذاب ناز ل ہو ۔
غرضکہ قرآن و حدیث سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوسکتا کہ حقوق اللہ اور حقوق عباد کا بالکل مؤ اخدا ہ نہ ہوگا ،بلکہ ہزار ہا آیات و احادیث و آثار سے مؤاخذہ ثابت ہے،اس لئے مقتضائے عقل یہی ہے کہ آدمی اسی عالم میں مؤ اخدوں سے حتی الامکان براء ت حاصل کر لے ۔