ظلم و ستم کے احکام
(۱)’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘۔ (1) (بخاری، مسلم)
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کا سبب ہوگا۔ (بخاری، مسلم)
(۲)’’ عَنْ أَوْسِ بْنِ شُرَحْبِیلَ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ مَشَی مَعْ ظَالِمٍ لِیَقْوِیَہُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ‘‘۔ (2)
حضرت اوس بن شرحبیل سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو فرماتے ہوئے سُنا کہ جو شخص ظالم کو تقویت دینے کے لیے اس کا ساتھ دے یہ جانتے ہوئے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ (بیہقی)
یعنی یہ ایک مسلمان کا کردار نہیں ہے ۔
(۳)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِینَا مَنْ لَا دِرْہَمَ لَہُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِی مَنْ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلَاۃٍ وَصِیَامٍ وَزَکَاۃٍ وَیَأْتِی قَدْ شَتَمَ ہَذَا وَقَذَفَ ہَذَا وَأَکَلَ مَالَ ہَذَا وَسَفَکَ
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ پیسے ہوں نہ سامان ، حضور نے فرمایا میری امت میں دراصل مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ ، زکوۃ لے
دَمَ ہَذَا وَضَرَبَ ہَذَا فَیُعْطَی ہَذَا مِنْ حَسَنَاتِہِ وَہَذَا مِنْ حَسَنَاتِہِ فَإِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُہُ قَبْلَ أَنْ یُقْضَی مَا عَلَیْہِ أُخِذَ مِنْ خَطَایَاہُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ‘‘۔ (1)
کر آئے اس حال میں کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو، کسی پر تہمت لگائی ہو، کسی کا مال کھالیا ہو، کسی کا خون بہایا ہو اور کسی کو مارا ہو۔ تو اب انہیں راضی کرنے کے لیے اس شخص کی نیکیاں ان مظلوموں کے درمیان تقسیم کی جائیں گی ۔ پس اس کی نیکیاں ختم ہوجانے کے بعد بھی اگر لوگوں کے حقوق اس پر باقی رہ جائیں گے تو اب حق داروں کے گناہ لاددیئے جائیں گے یہاں تک کہ اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
انتباہ :
بندوں پر دو قسم کے حقوق عائد ہوتے ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد، ان دونوں کی ادائیگی ضروری ہے لیکن ان میں حقوق العباد بہت اہم ہیں اس لیے کہ خدائے تعالی اپنے فضل و کرم سے اگر چاہے تو اپنے حقوق کو معاف فرمادے لیکن بندوں کے حقوق کو اللہ تعالیٰ ہر گز نہیں معاف فرمائے گا۔ تاوقتیکہ وہ بندے نہ معاف کردیں کہ جن کے حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں۔ لہذا حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے ورنہ قیامت کے دن سخت عذاب میں گرفتار ہوگا۔
٭…٭…٭…٭
________________________________
1 – ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق، باب ما جاء فی شان إلخ، الحدیث: ۲۴۲۶، ج۴، ص۱۸۹، ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب البر والصلۃ والأداب، الحدیث: ۵۹۔ (۲۵۸۱) ص۱۳۹۴..