زکوٰۃ فرض ہے

زکوٰۃ کی فرضیت کتاب وسنّت سے ثابت ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ
ترجمہ کنزالایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔ (پ ۱،البقرۃ:۴۳)
    صدر الافاضل حضرت مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃاللہ الھادی (اَ لْمُتَوَفّٰی۱۳۶۷ھ) اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں: ”اس آیت میں نمازو زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے ۔”
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا
ترجمہ کنزالایمان :اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)
    صَدْرُ الْاَفَاضِل حضرت مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃاللہ الھادی (اَ لْمُتَوَفّٰی۱۳۶۷ھ) اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں: آیت میں جو صدَقہ وارِد ہوا ہے اس کے معنٰی میں مفسِّرین کے کئی قول ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ صدَقہ غیر واجِبہ تھا جو بطورِ کَفّارہ کے اِن صاحبوں نے دیا تھا جن کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدَقہ سے مراد وہ زکوٰۃ ہے جو ان کے ذمّہ واجب تھی ، وہ تائب ہوئے اور انہوں نے زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لینے کا حکم دیا ۔ امام ابوبکر رازی جصاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدَقہ سے زکوٰۃ مراد ہے ۔ (خازن و احکام القرآن)

زکوٰۃ کی فرضیت کے متعلق 3روایات

  (1) حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روا یت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا :”مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک وہ یہ گوا ہی نہ دیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وآلہ وسلم )خدا کے سچے رسول ہیں ،ٹھیک طرح نماز ادا کریں ، زکوٰۃ دیں ، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں گے سوائے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر لازم کر دی ہو ۔”
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابواواقامواالصلوۃ،الحدیث ۲۵،ج۱،ص۲۰)
  (2) نبی کریم ،رؤف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے جب حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجاتو فرمایا:ان کو بتاؤ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقراء کو دی جا ئے ۔”
    (3) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما تے ہیں:جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا وصالِ ظاہری ہو گیا اور حضرت سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبا ئل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکوٰۃ کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے)تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے کہا :آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمہ ہے۔” (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا)
    حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !مَیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوۃ میں فرق کریگا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے)اور زکوۃ مال کا حق ہے بخدا اگر انہوں نے (واجب الاداء)ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا۔” حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرماتے ہیں :”واﷲ! میں نے دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔”
 (صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکوۃ،الحدیث ۱۳۹۹،۱۴۰۰،ج۱،ص۴۷۲،۴۷۳)
    صدر الشریعہ ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی(اَ لْمُتَوَفّٰی۱۳۶۷ھ) اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نِری کلمہ گوئی اِسلام کیلئے کافی نہیں، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اور
امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں یہ خیال تھا کہ زکوٰۃ دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے، کا فر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے، مگر جب معلوم ہوگیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے، جو (سیدنا)صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھا اور کیا۔ ”(بہارِ شریعت ،ج۱،حصہ ۵،ص ۸۷۰)
 (سنن الترمذی،کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃاخذ خیار المال فی الصدقۃ ،الحدیث۶۲۵،ج۲،ص۱۲۶)
Exit mobile version