مالِ حرام پر زکوٰۃ

حرام مال کی دو صورَتیں ہیں: (۱) ایک وہ حرام مال جو چوری، رشوت، غصب اور انہیں جیسے دیگر ذرائِع سے مِلاہو اِس کو حاصِل کرنے والا اِس کااصلاً یعنی بالکل مالِک ہی نہیں بنتا اور اِس مال کے لئے شَرعاً فرض ہے کہ جس کا ہے اُسی کو لَوٹا دیا جائے وہ نہ رہا ہو تو وارِثوں کو دے اور ان کا بھی پتا نہ چلے تو بِلا نیّتِ ثواب فقیر پر خیرات کر دے (۲) دوسرا وہ حرام مال جس میں قبضہ کر لینے سے مِلکِ خبیث حاصِل ہو جاتی ہے اور یہ وہ مال ہے جو کسی عقد فاسد کے ذَرِیعہ حاصِل ہوا ہو جیسے سُودیا
داڑھی مُونڈنے یا خَشْخَشِی کرنے کی اُجرت وغیرہ ۔ اِس کا بھی وُہی حکم ہے مگر فرق یہ ہے کہ اس کو مالِک یا اِس کے وُرثا ہی کو لَوٹا نا فرض نہیں اوّلاً فقیر کو بھی بِلا نیّتِ ثواب خیرات میں دے سکتا ہے۔ البتّہ افضل یِہی ہے کہ مالِک یا وُرثا کو لوٹا دے۔  ( ماخوذ ازـ:فتاویٰ رضویہ ج۲۳ ص۵۵۱،۵۵۲ وغیرہ)
مالِ نامی کا مطلب
مال ِنامی کے معنی ہیں بڑھنے والامال خواہ حقیقۃً بڑھے یا حکماً،اس کی 3 صورتیں ہیں:
    (1) یہ بڑھناتجارت سے ہوگا ،یا
    (2) اَفزائشِ نسل کے لئے جانوروں کو جنگل میں چھوڑ دینے سے ہوگا،یا
    (3) وہ مال خَلْقِی (یعنی پیدائشی)طور پر نامی ہوگا جیسے سونا چاندی وغیرہ
 (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ ،الباب الاول ،ج۱،ص۱۷۴)
Exit mobile version