یہودی اورنصرانی کی ہلاکت
راہب نے کہا:”مشہورہے کہ ایک یہودی اورنصرانی سفرپرروانہ ہوئے ،راستے میں آبادی کے قریب کنواں تھا اور آگے ایک وسیع و عریض صحراء ،جس کی وسعت چاردن کی راہ تھی ۔دونوں کے پاس مشکیزے تھے ،یہودی نے اپنامشکیزہ پانی سے بھرلیا،جب نصرانی بھر نے لگاتو کہا:” ایک مشکیزہ پانی ہمیں کافی ہے تم اپنامشکیزہ بھرکرخواہ مخواہ وزن میں اضافہ مت کرو ۔” نصرانی نے کہا:”میں اس راستہ سے اچھی طرح واقف ہوں شاید یہ ایک مشکیزہ ہمیں کافی نہ ہو۔”یہودی نے کہا:”تم یہی چاہتے
ہو کہ جب تمہیں پیاس لگے تومیں تمہیں پانی پلاؤں۔”اس نے کہا:”ہاں۔”یہودی نے کہا:”بس پھراپنامشکیزنہ بھرو،جب تمہیں پیاس لگے گی پانی مل جائے گا۔”یہ سن کرنصرانی نے ا پنامشکیزہ خالی ہی رکھاحالانکہ وہ جانتاتھاکہ عنقریب اسے پیاس کی شدت کا سامناکرناپڑے گا لیکن وہ یہودی کے مشکیزے کی امیدپر پانی کے بغیرہی صحراکی طرف چل دیا۔ سخت گرم ہواؤں کی وجہ سے بار بارپیاس لگی اور با لآ خر پانی ختم ہوگیاحالانکہ ابھی آدھاسفرباقی تھا۔ پیاس کی شدت نے انہیں نڈھال کردیا، انہیں اپنی موت کا یقین ہوچلاتھا۔نصرانی نے یہودی سے کہا:”ہم صرف تیرے بُرے مشورے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں اورتُونے یہ اس لئے کیا کہ تم لوگ ہمارے نبی حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام سے بُغض رکھتے ہو۔”یہودی نے کہا:”تیراناس ہو!کیاتُومجھے ایسا بُرا سمجھتاہے؟بھلامیں اپنے آپ کواورتجھے جان بوجھ کرہلاکت میں کیوں ڈالتا۔”نصرانی نے کہا:”تو، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو!تُو نے مجھ پررحم نہیں کیا۔”یہودی نے کہا:”تیراناس ہو!میں نے تجھے مشکیزہ بھرنے سے صرف اس لئے روکاتھاکہ تیراگدھابوجھ کی زیادتی سے بچا رہے اورتجھے پیدل نہ چلناپڑے ۔” نصرانی نے کہا:”تُونے یہ سب کام ہم سے پرانی عداوت کی وجہ سے کئے ہیں،میرے نزدیک پیدل چلنے کی مشقت ،موت کی مشقت سے کہیں زیادہ آسان تھی۔اب ہماری موت یقینی ہے اوریہ بات مجھے غمگین کرے گی کہ ہم دونوں ایک ساتھ مَریں پھر کوئی نصرانی عالِم گزرے اوروہ ہم دونوں کی اکٹھی نمازِ جنازہ پڑھے۔”یہودی نے کہا:” تیر ا بر ا ہو! تُواس بات کوکیوں ناپسند کرتاہے کہ ہم پرنمازِ جنازہ پڑھی جائے اورہمیں ایک ساتھ دفن کیاجائے؟”اس نے کہا:”اس لئے کہ تونے ا پنے آپ کواوراپنے ساتھی کوہلاک کرنے والاہے ،اب یہ جائز نہیں کہ تیری نمازِجنازہ پڑھی جائے ۔”
یہ سن کریہودی خاموش ہوگیا۔ لَق ودَق (یعنی چٹیل وویران)صحراء میں گرم ہوائیں چل رہی تھیں اورپانی کاایک قطرہ بھی نہ تھا۔پیاس کی شد ت سے موت ان کے سروں پرمَنڈلارہی تھی۔ اتنے میں انہیں ایک شخص نظر آیا جو اپنے گدھے پرپانی کے دومشکیزے ر کھے ہوئے جارہا تھے ۔یہ دونوں دوڑتے ہوئے اس کی طرف گئے اورکہا:”اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے !پانی پلاکرہم پراحسان کر! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے عافیت عطافرمائے۔”اس نے کہا:”یہ ایساراستہ ہے جہاں پانی ملنے کی کوئی امید نہیں ۔” دونوں نے کہا:”تیرا دین کیاہے ؟” کہا:”میراوہی دین ہے جوتمہاراہے ۔”انہوں نے کہا:”ہم میں سے ایک تویہودی ہے اور دوسرا نصرانی پھرتیرادین ہماری طرح کیسے ہو سکتا ہے؟”گدھے والے نے کہا:”یہودی ،نصرانی یامسلمان جب اپنی کتاب ودین پر عمل نہ کریں اورلالچ وکھوکھلی امیدوں کے دھوکے میں پڑ جا ئیں توانہیں وہی چیزلاحق ہوتی ہے جوتم دونوں کولاحق ہوئی۔”یہ کہہ کروہ آگے بڑھ گیا اورپانی کا ایک قطرہ بھی انہیں نہ دیا ۔
راہب نے کہا:”راہِ آخرت کے مسافرکوچاہے کہ وہ سفرِآخرت کے لئے بھی ایسااہتمام کرے جیسا دنیوی سفرکے لئے کرتا
ہے۔انسان کویہ بات زیب نہیں دیتی کہ نہ توگناہوں سے بچے اورنہ ہی کبھی نیک عمل کرے،اور پھر بھی رحمت و مغفرت کی آس پرسب نیک اعمال ترک کردے اورخوب گناہ کرے ۔سمجھدارشخص ایسی نارَواحرکت کبھی نہیں کرتا،مجھے سخت تعجب ہو تا ہے ان لوگوں پرجواپنی برائیاں مخلوق سے توچھپاتے ہیں لیکن خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ سے حیا کرتے ہوئے کبھی کوئی گناہ ترک نہیں کرتے حالانکہ وہ پروردگارعَزَّوَجَلَّ رزق دینے والااوروہی جزاوسزادینے والا ہے۔ کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہوکہ تمہیں وہ مصیبت پہنچے جو ”راہب”کوپہنچی تھی؟”سرداروں نے کہا:ہمیں بتائیے کہ ” راہب ‘ ‘ کو کیا مصیبت پہنچی تھی؟”