wasiyaat Nama

حضرت شیخ الاسلام کا وصیت نامہ 
حامداً و مصلیاًو مسلماً
اس فقیر اشرفی و گداے ٔ جیلانی کی طرف سے یہ چند جو ہدایات ہیں، جن کا ر وئے سخن خصوصی طور پر عزیز القدر نور العین سید حسن عسکری سلمہ اورعزیزالقدر قرۃ العین سید حمزہ اشرف سلمہ اور عمومی طور پر سارے اعزہ واحباب۔۔نیز۔۔ مریدین و معتقدین کی طرف ہے۔
والدِ بزرگوار مخدوم الملت حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے اپنی یہ دلی خواہش ظاہر کی تھی، کہ:
موت آئے تو درِ پاکِ نبی پر سید
ورنہ تھوڑی سی زمیں ہو شہِ سمناں کے قریب
 یہ بندۂ نا چیز بھی اپنے دل میں خواہش رکھتا ہے۔مذکورہ بالا خواہش کی دوسری صورت پیش آنے کے پیشِ نظر میں نے درگاہِ معلّٰی کچھوچھا شریف میں، ’ گلشن مختار ‘ کے اندر اپنے پیر ومرشد حضرت سرکارِ کلاں کے قدموں کے نیچے اپنی آخری رہنے کی جگہ کی نشاندہی بھی کردی ہے۔آج کل ذرائع کے پیشِ نظر کہیںسے بھی وہاں پہنچا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے کردیا ہے،کہ میرا سفر عالم فنا سے عالم بقا کی طرف کسی مہینہ اور کسی بھی تاریخ میں ہو، لیکن میرے لیےسالانہ طور پرمرکزی تقریبِ ایصالِ ثواب، خواہ وہ برسی کے نام یا سالانہ فاتحہ یا عرس کے نام سے ہو، وہ پندرہ رجب المرجب (جو سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی تاریخِ وصال بھی ہے) خانقاہِ محدثِ اعظم، کچھوچھا شریف، ضلع امبیڈکر نگر، یوپی، انڈیا ہی میں انجام دی جاے ٔ۔اس کی شکل یہ ہو گی،کہ فی الحال خانقاہِ مذکورہ میں ۱۵؍رجب المرجب میں جو پروگرام ہوتا ہے، اس کو من وعن ۱۴رجب میں منتقل کردیا جائے، اور سولہ (۱۶) رجب المرجب کو جو کچھ ہوتا ہے اس کویونہی باقی رکھا جاے ٔ۔اب اس صورت میں پندرہ (۱۵) رجب کی تاریخ خالی ہو جاتی ہے، تواس تاریخ میں عزیز القدر حسن عسکری سلمہ اور عزیز القدر حمزہ اشرف سلمہ اتفاق رائے سے، اور قریبی اصحاب الرائے حضرات سے مشورہ کر کے، جو پروگرام طے کر لیں گے، اسی پر عمل در آمدکیا جائے گا۔ یہاں اس بات کا خیال رہے،کہ شجرہ خوانی حسب معمول صرف سولہ(۱۶) رجب ہی کے پروگرام کا حصہ رہےگی۔
مذکورہ بالاصورت میں ۱۴ رجب سے لیکر سولہ(۱۶)رجب تک کے جملہ اخراجات۔۔ 
نیز۔۔ چودہ(۱۴)رجب سے پہلے آجانے والے اور یونہی ۱۶ رجب کے بعد جانے والے مہمانوں کی مہمان نوازی میں بھی جو کچھ خرچ ہوگا، سب کی مجموعی رقم نصف کے ذمہ دار ۱۶ رجب کی تقریب کے ذمہ دار و نگراں سید حسن عسکری ہوں گے، اور نصف کے ۱۵ رجب کی تقریب کے ذمے دار و نگراں سید حمزہ اشرف ہوں گے۔سید حسن عسکری میاںاس رقم کو درگاہ فنڈ سے نکالیں گے، اور سید حمزہ اشرف شیخ الاسلام ٹرسٹ سے۔۔المختصر۔۔ دونوں اتفاق راے ٔ سے اپنے اپنے لیے جو راہ متعین کریں گے، اس پر عمل در آمد کیا جائے گا۔ اب اگر ان دونوں میں سے کسی کو بھی بنام عرس عطیات حاصل ہوں گے، تو وہ ایام عرس چودہ (۱۴)رجب تاسولہ (۱۶)رجب کے مصارف میں استعمال کیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اگر بالفرض اخراجات عرس کے بعد کچھ بچ رہیگا، تو اسے اگلے عرس کے لیےمحفوظ کردیاجائے گا۔اس مقام پر مناسب لگتا ہےکہ بعض ان باتوں کودوبارہ پیش کردوں، جن کو چھ (۶)رمضان المبارک۱۴۲۹؁ ھ۔۔مطابق۔۔سات ۷ستمبر ۲۰۰۸؁ء کو  ’ ایک ضروری اعلان ‘  کے عنوان کے تحت پیش کرچکا ہوں۔
وہ یہ کہ میرے دو فرزند آغوشی ہیں، جو میری معنوی اور روحانی اولاد ہیں: (۱)۔ عزیز القدرمولانا حسن عسکری سلمہ جو میرا ہی مریداور خلیفہ ہے،(۲)۔ عزیز القدر سید حمزہ اشرف سلمہ جو حضور سرکارِ کلاں قدس سرہ کا مرید اور میرا خلیفہ وپروردہ ہے۔ میں نے پہلے فرزند کوپہلے اپنا ولی عہد نامزد کیاتھااور پھر درگاہِ محدث اعظم ہند قدس سرہ کا نائب سجادہ نشیںبھی مقرر کردیا۔۔المختصر۔۔ یہ میرےبعد درگاہ محدث اعظم ہند، کچھوچھا شریف کے سجادہ نشیں و متولی ہوں گے۔رہ گئے دوسرے فرزند سید حمزہ اشرف، تو ان کو خود میں نے اپنا جانشین مقرر کردیا ہے۔
اپنے ان معنوی اور روحانی فرزندوںکو دینے کے لیے میرے پاس دو چیزیں تھی، ایک درگاہ محدث اعظم کی سجادہ نشینی و تولیت اور دوسری خود اپنی جانشینی۔ پہلی چیز کو نائب سجادہ نشیں درگاہ محدث اعظم بناکر، میں نے عزیز القدر سید حسن عسکری کے نام اپنے بعد کے لیے محفوظ کردیا۔ اور دوسری چیز کے لیے نور چشم سید حمزہ اشرف کو نامزد کردیا۔۔چنانچہ۔۔ میری سربراہی اور میری سرپرستی میں چلنے والے جتنے  ادارے یا جتنی تنظیمیں ہیں، ان کے عہدہ داران وارکان پر لازم ہے، کہ وہ فوراً عزیز القدر سید حسن عسکری کو اپنے اپنے ادارے یا اپنی اپنی تنظیموں کے لیےنائب سرپرست و نائب سربراہ اعلی کے طور پر مقرر کرلیں، اور جلد از جلد اس کا رجسٹریشن بھی کروا لیں۔ میری عدم موجود گی میں ان کووہ جملہ اختیارات حاصل ہوں گےجو بحیثیت سربراہ و سرپرست مجھے حاصل ہیں۔
اس مقام پر یہ ذہن نشین رہے، کہ ہر عہد میں مذکورہ بالا اداروں اور تنظیموں کا سربراہ و سرپرست وہی ہوگا جو درگاہ محدث اعظم کا سجادہ نشیں ہو۔ہاں ہر دور میں اس دور کے سجادہ نشیں درگاہ محدث اعظم ہند قدس سرہ کو اختیار رہیگاکہ کسی بھی اپنے معتمد کو کسی علاقے کی تنظیم  یا کسی علاقے کے ادارے کے لیےاپنا نائب بناکر عارضی یا مستقل طور پر نامزد کردےاور اپنے اختیارات و فرائض کو جزوی یا کلی طور پر اسے تفویض کردے۔ اب ر ہ گئیں دو اور چیزیں۔(۱) شیخ الاسلام ٹرسٹ، (۲) محدث اعظم مشن اسکول، کچھوچھا شریف۔تو میرے بعد شیخ الاسلام ٹرسٹ کے متولی و چیئرمن خود اس کے دستور میں وضاحت کے مطابق عزیزا لقدر نور چشم سید حمزہ اشرف ہوں گے۔اور محدث اعظم مشن اسکول کے چیئرمن میرے حقیقی بھانجے، ڈاکٹر طارق سعید۔ صدر شعبہ اردو، ساکیت یونیورسٹی،فیض آباد ہوںگے۔یہ اسکول ہر دور میں سجادہ نشیں درگاہ محدث اعظم کی سرپرستی میں رہے گا۔ اسے درگاہ کی طرف سے قائم کردہ ایک ادارے کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اگر خدانخواستہ یہ آشوبِ روزگار کا شکار ہوگیا اور اسے بند کرنا پڑا، تو اس کی ساری جائیداد، منقولہ و غیر منقولہ کو درگاہ کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔
  دعا گو ہوںکہ مولیٰ تعالیٰ ان دونوں بچوں میں قلبی و دلی پر خلوص تعلقات بر قرار رکھے، اور ہمیشہ آپس میں متحد و متفق رہیں۔قناعت و استغناء کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔۔نیز۔۔ دعاء گوہوں کہ رب کریم سب کو صراطِ مستقیم  پر چلاتا رہے، اور انعام والوں کے راستے پر قائم و دائم رکھے۔۔ نیز۔ بشارۃ المریدین میں غوث العالم محبوب یزدانی قدوۃ الکبر یٰ مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ و ارضا ہ عنانے ہم سب کو جو ہدایت فرمائی ہےہم اس کو ہر حال میں ملحوظِ خاطر رکھیں، کبھی بھی اس سے غافل نہ ہوں۔ اس طرح ہم اپنے جدکریم قدس سرہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں۔
آمین یامجیب السائلین بحقِ طہٰ و یٰسین و بحرمت سید المرسلین سیدنا و مولانا محمد صلی اللہ و آلہ واصحابہ و سلم
فقط دعا گو و دعا جو  (بروز یکشنبہ۔ احمد آباد)
          ابوالحمزہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی غفر لہ                      ۱۸ ربیع لآخر۱۴۳۱؁                                                                ۔۔بمطابق۔۔ ۴  اپریل ۲۰۱۰؁ء 
Exit mobile version