وَلی کی تعریف اولیاء اللّٰہ کا علم وقدرت

وَلی کی تعریف

وَلی وہ مومن صالح ہے جس کو معرفت و قربِ الٰہی کا ایک خاص درَجہ ملا ہے،اکثر شریعت کے مطابق ریاضت و عبادت کرنے کے بعد ولایت کا درَجہ ملتا ہے اور کبھی ابتداء ًبلا ریاضت
و مجاہدہ کے بھی مل جاتا ہے، تمام اولیاء میں سب سے بڑا درَجہ حضرات خلفائے اَربعہ (1 ) (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم) کا ہے، اولیاء ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن اُن کا پہچاننا آسان نہیں۔ حضراتِ اولیاء کو اللّٰہ تعالیٰ نے بڑی طاقت دی ہے جو اُن سے مدد مانگے ہزاروں کوس کی دوری سے اس کی مدد فرماتے ہیں۔

اولیاء اللّٰہ کا علم وقدرت

ان کا علم نہایت وسیع ہوتا ہے حتی کہ بعضوں کو ماکان وما یکون (2 ) و لوحِ محفوظ پر اطلاع دیتے ہیں، (3 )

مرنے کے بعد ان کے کمالات اور قوتیں (1 ) اور بڑھ جاتی ہیں اُن کے مزار کی حاضری فیض سعادت اور برکت کا سبب ہے، اُن کو ایصالِ ثواب امر مستحب اور باعث برکت ہے، اولیاء کرام کاعرس ( 2)
یعنی ہر سال وصال (1 ) کے دن قرآن خوانی فاتحہ، وعظ ایصالِ ثواب اچھی چیز ہے اور ثواب کا کام ہے، رہے ناجائز کام جیسے ناچ رنگ کھیل تماشہ تو وہ ہر حالت میں مذموم (2 ) اور مزار طیبہ کے پاس اور زیادہ مذموم۔

________________________________
1 – مومن: مسلمان صحیح العقیدہ۔ صالح: پرہیز گار، نیک۔ معرفت: علم، پہچان۔ قرب: نزدیکی، مقبولیت۔ خلفائے اربعہ: چاروں خلیفہ یعنی حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُم۔ (۱۲منہ)
2 – وسیع: پھیلا ہوا۔ ماکان وما یکون: جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہوگا۔ (۱۲منہ)
3 – حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ اپنی کتاب’’ تکمیل الایمان ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں : مشائخ صوفیہ قدس اسرار ھم گویند کہ تصرف بعضے اولیا در عالم برزخ دائم وباقی است و توسل واستمداد بارواح مقدسہ ایشاں ثابت و موثر یعنی اولیاء انتقال کے بعد بھی تصرف کرتے ہیں ان کو وسیلہ بنانا اور ان سے مدد مانگنا ثابت و موثر ہے۔ (تکمیل الایمان،دراستمداد قبور،ص۱۲۳) امام علامہ تفتازانی (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) نے’’ شرح مقاصد‘‘ میں اہلسنّت کے نزدیک علم و اِدراک موتی ٰکی تحقیق کرکے فرمایا : وھذا ینتفع بزیارۃ الابرار والاستعانۃ بنفوس الاخیاریعنی اس لیے اولیاء کی قبروں کی زیارت اوربزرگوں کی روحوں سے مد د مانگنا نفع دیتا ہے۔ (شرح المقاصد،المقصد الرابع فی الجواہر،المبحث الرابع،۲/ ۴۸۰) حضرت امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :ھر کہ استمداد کردہ میشود بوی در حیات استمداد کردہ میشود بوے بعد از وفاتیعنی جس سے زندگی میں مدد مانگ سکتے ہیں اس سے مرنے کے بعد بھی مدد مانگ سکتے ہیں ۔ (شرح مشکوۃ) (اشعۃ اللمعات،کتاب الجنائز،باب زیارۃ القبور،۱/ ۷۶۲) نیز انہیں امام غزالی (رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالَی عَلَیْہ) نے اپنے رسالہ لدنیہ میں لکھا ہے کہ قال رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُْ َعَلَیْہِ وَسَلَّم:’’ما من عبد الا ولقلبہ عینان‘‘ وھما عینان یدرک بھما الغیب فاذا اراد اللّٰہ تعالٰی بعبد خیرا فتح عینی قلبہ لیری ما ھو غائب عن بصرہ وھذا الروح لایموت لموت البدن۔یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ بندے کے دل کی آنکھیں کھول دیتا ہے تو وہ غیب کی باتیں جان لیتا ہے اور یہ روح بدن کے مرنے سے مرتی نہیں ۔ ۱۲منہ (مجموعۃ رسائل الامام الغزالی، الرسالۃ اللدنیۃ، ص۲۲۶)

________________________________
1 – یہی شیخ دہلوی (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی) اسی ’’ تکمیل الایمان ‘‘ میں لکھتے ہیں :اولیاء را ابدان مکتسبہ مثالیہ نیز بود کہ بدان ظھور نمایند وامداد و ارشاد طالبان کنند و منکران را دلیل و برھان برانکار آں نیست یکے از مشائخ گفتہ است کہ چھار کس از اولیاء را دیدم کہ در قبر خود تصرف می کنند مثل تصرف ایشاں درحالت حیات یا بیشتر از آں جملہ شیخ معروف کرخی و شیخ عبدالقادر جیلانی و در دیگر را از اولیاء نیز شمردہ یعنی اولیاء اپنے ابدان مثالیہ میں ظاہر ہو کر طالبین کی تعلیم و امداد فرماتے ہیں اور منکروں کے پاس اس کے انکار کی کوئی دلیل نہیں ،ایک شیخ نے فرمایا کہ چار بزرگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں بھی اسی طرح تصرف کرتے ہیں جس طرح کہ زندگی میں یا اس سے بڑھ کر اور منجملہ ان کے حضرت معروف کرخی، حضرت غوث اعظم اور دو اور ولیوں کو بتایا۔ (۱۲منہ) (تکمیل الایمان،دراستمداد قبور،ص۱۲۳)
2 – شاہ ولی اللّٰہ صاحب (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) کی ’’انفاس العارفین ‘‘اور شاہ عبدالعزیزصاحب (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) کی’’ تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کی عبارتوں سے ظاہر ہے کہ اولیاء کو اپنے مزار میں لوگوں کے حالات کی اطلاع ہوتی ہے اور مزار پر آنے والے کو جس بات کی چاہیں خبر دیتے ہیں اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اور آپ کی اولاد کو تمام امت مثل اپنے پیرو مرشد کے مانتی ہے اور امور تکوینیہ کو ان سے وابستہ جانتی ہے اور فاتحہ اور درود و صدقات و نذران کے نام کی تمام امت میں رائج و معمول ہے جیسا کہ تمام اولیاء کے ساتھ یہی معاملہ ہے کہ فاتحہ ، نذر ،عرس و مجلس تمام امت کرتی ہے۔ (تحفہ) (تحفہ اثنا عشریہ ، باب ہفتم درامامت،ص۲۱۴) نیز یہی شاہ عبدالعزیز صاحب (رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) اپنی تفسیر پارہ عم صفحہ۱۴۰ میں لکھتے ہیں : بعضے از خواص اولیاء اللّٰہ راکہ آلہ جارحہ تکمیل و ارشاد بنی نوع خود گردانیدہ اند دریں حالت ھم تصرف در دنیا دادہ و استغراق آنھا بہ جھت کمال وسعت مدارک آنھا مانع توجہ بایں سمت نمی گردد و اویسیان تحصیل کمالات باطنی از آنھا مے نمایند وارباب حاجات و مطالب حل مشکلات خود از آنھا می طلبند ومی یابند و زبان حال آنھا درآں وقت ھم مترنم بایں مقالات است۔ ع ’’و من آیم بحان گر تو آئی بہ تن‘‘ (تفسیر عزیزی، پارہ عم، ص۱۱۳) احادیث صحاح میں وارد کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلمہر سال کے سرے پر شہدائے احد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے۔ ۱۲منہ (مصنف عبد الرزاق،کتاب الجنائز،باب فی زیارۃ القبور،۳/ ۳۸۱،حدیث:۶۷۴۵)

________________________________
1 – بزرگوں کے مرنے کے دن کو وصال کا دن یا انتقال کا دن کہتے ہیں ۔ (۱۲منہ)
2 – مذموم: بُرا (۱۲منہ)

Exit mobile version