اصول نقد حدیث
اس سلسلے میں حاکم الحدیث حضرت امام نیشاپوری نے احادیث کی صحت کو پرکھنے کے لیے جو ضابطہ نقل فرمایا ہے وہ قابلِ مطالعہ ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ احادیث کو اغلاط کی آمیزش سے محفوظ رکھنے کے لیے کیسی کیسی منصوبہ بند تدبیریں عمل میں لائی گئی ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ وَمَا یَحْتَاجُ طَالِبُ الْحَدِیْثِ فِیْ زَمَانِنَا ھَذَا أَنْ یَبْحَثَ عَنْ أَحْوَالِ الْمُحَدِّثِ أَوَّلاً ھَلْ یَعْتَقِدُ الشَّرِیْعَۃَ فِی التَّوْحِیْدِ وَھَلْ یُلْزِمُ نَفْسَہُ طَاعَۃَ الْأَنْبِیَائِ وَالرُّسُلِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِمْ ثُمَّ یَتَا مَّلُ حَالَہُ ھَلْ صَاحِبُ ھَویً یَدْعُواالنَّاسَ
ہمارے زمانے میں ایک طالبِ حدیث کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ محدث کے حالات کی تفتیش کرے کہ آیا وہ توحید کے بارے میں شر یعت کا معتقدہے ؟اور کیا انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت اپنے اوپر لازم سمجھتا ہے ۔ پھر اس کی حالت پر غور
إِلَی ھَواہ فَإِنَّ الدَّاعِیَ إِلَی الْبِدْعَۃِ لَا یُکْتَبُ عَنْہُ ثُمّ یَتَعرفُ سنّہ ھَل یَحْتَمِلُ سَمَاعَہُ مِنْ شُیُوخِہِ الَّذِینَ یُّحَدِّثُ عَنْھُمْ ثُمّ یَتَا مّل أَصُولَہ‘‘۔ (2) (معرفۃ علوم الحدیث ص۱۶)
کرے کہ وہ بدمذہب تو نہیں ہے کہ لوگوں کو اپنی بدمذہبی کی طرف دعوت دے رہا ہو۔ کیونکہ بدعت کی طرف بلانے والے سے کوئی حدیث نہیں لی جائے گی۔ پھر اس محدث کی عمر معلوم کرے کہ اس کی سماع ان مشائخ سے ممکن ہے کہ جن سے وہ حدیث بیان کررہا ہے پھر اس کے اصول پر غور کرے ۔